قرض پرمبنی معیشت یا بینکنگ نظام پانی میں اٹھنے والے بلبلے کی طرح ہوتا ہے جو نہ جانے کب پھوٹے اور پوری معیشت کو نگل لے۔
EPAPER
Updated: September 08, 2024, 5:40 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
قرض پرمبنی معیشت یا بینکنگ نظام پانی میں اٹھنے والے بلبلے کی طرح ہوتا ہے جو نہ جانے کب پھوٹے اور پوری معیشت کو نگل لے۔
گزشتہ دنوں ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر شکتی کانت داس نےبینکوں میں ڈپازٹ اور قرض کے درمیان بڑھتے فرق پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ کچھ برسوں میں بینکوں میں آنے والے روایتی ڈپازٹ میں بڑی کمی آئی ہے کہ جبکہ بینکوں کی جانب سے قرض کی فراہمی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے بینکوں کے منافع میں تو اضافہ ہو گا لیکن روزمرہ کا کام کاج چلانے اور بینکنگ نظام کو جاری رکھنے کے لئے جس ’لیکویڈیٹی ‘ کی ضرورت ہو تی ہے اس میں کمی آئے گی۔ شکتی کانت داس نے بلاشبہ تشویش کا اظہار کرکے بینکوں کو وارننگ جاری کردی ہے لیکن یہ تشویش اور یہ وارننگ اس وقت تک کام نہیں آسکتی جب تک حکومت اور بینک اپنی اپنی ترجیحات طے نہیں کرلیتے۔ اس وقت بینکوں اور بینکنگ سے جڑے متعدد اداروں کی یہی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ قرض بانٹا جائے۔ اس کے لئے کئی پرکشش اسکیمیں لائی جاتی ہیں، پرسنل لون سے لے کر کار لون، ہوم لون، بزنس لون اور دیگر کئی طرح کے لون کی پیشکش کی جاتی ہے۔ اسے آسان قسطوں میں ادا کرنے کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ اس سے متاثر ہوکر گاہک لون لے بھی لیتے ہیں اور ان کی قسطیں چکاتے رہتے ہیں جس سے بینکوں کے منافع میں اضافہ ہوتا ہے اور انہیں اپنا پیسہ سود سمیت واپس ملتا رہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طریق کار کی وجہ سے ملک کی پوری معیشت کا جھکائو ’قرض لو اور کام چلائو ‘کی طرف ہوتا جارہا ہے جو قلیل مدت میں وقتی فائدہ تو پہنچاتا ہے لیکن اس کا طویل مدتی اثر بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اس کی مثال ہم ۲۰۰۸ء کے بعد امریکہ میں آنے والی معاشی مندی سے دے سکتے ہیں جس میں لاکھوں لوگوں نے اور مختلف اداروں نے قرض پر قرض لے لیا اور پھر ایک دن وہ آیا جب ان اداروں نے قرض چکانے سے معذوری ظاہر کردی کیوں کہ یہ ادارے قرض ادا کرنے کے لئے بھی قرض لے رہے تھے۔ اسے قرض کا معاشی بلبلہ بھی کہا گیا کیوں کہ یہ بلبلہ بنتے بنتے بڑا ہوا اور پھر اچانک پھٹ پڑا۔ ایسے میں وہ ادارے یا حکومتیں جو امریکی معاشی مدد پر ٹکی ہوئی تھیں انہیں بہت بڑا جھٹکا لگا۔ اس کے اثرات ہندوستان سمیت پوری دنیا میں محسوس کئے گئے۔ چونکہ ہندوستان امریکی معیشت پر اتنا زیادہ منحصر نہیں تھا اس لئے یہاں مندی کے وہ اثرات نہیں آئے جو دیگر ممالک میں محسوس ہوئے لیکن اس سے واضح ہو گیا کہ قرض پر مبنی معیشت اور پورا نظام مکڑی کے جال کی طرح بہت کمزور ہوتا ہے۔ اسے اڑانے کے لئے بس ایک پھونک ہی کافی ہو تی ہے۔
ریزرو بینک کے ہی فراہم کردہ ڈیٹا سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جون میں قرض فراہم کرنے اور اس کے منافع کی شرح میں تقریباً ۱۴؍ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ بینکوں کے ڈپازٹ میں۶۴ء۱۰؍ فیصد کی کمی آئی ہے۔ آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس نے بینکوں کو یہ وارننگ دی ہے کہ وہ صرف قرض بانٹنے پر ہی دھیان نہ دیں بلکہ اپنے ڈپازٹ کو بھی بڑھانے کی کوششیں کریں کیوں کہ انہیں سی آر آر (کیش ریزرو ر تناسب )، ایس ایل آر(لیکویڈیٹی تناسب ) اور ایل سی آر (لیکویڈیٹی کوریج تناسب ) کو بھی ہر قیمت پر برقرار رکھنا ہے۔ اس کے لئے صرف قرض دے کرمنافع کمانے سے فائدہ نہیں ہو گا کیوں کہ قرض کی فراہمی کی شرح اور ڈپازٹ کی شرح میں زمین آسمان کا فرق نہیں ہو نا چاہئے۔ شکتی کانت داس نے یہ بھی واضح کیا کہ ان دونوں شرحوں میں ہمیشہ فرق رہتا ہے لیکن یہ ایک سے ڈیڑھ فیصد کے درمیان ہی ہو تا ہے اس سے زیادہ کبھی نہیں ہو تا۔ ایک بہتر اور آئیڈیل بینکنگ سسٹم میں تو ڈپازٹ کی شرح ہمیشہ قرض کی فراہمی کی شرح سے زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ہنگامی حالات اور معیشت کے ڈانواڈول ہونےکی صورت میں قرض کی شرح تھوڑی بڑھ سکتی ہے لیکن یہ تفاوت کبھی بھی ۲؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا ہے۔
پوری دنیا کے جدید بینکنگ نظام میں دو قسم کی کرنسی یا پیسے ہوتے ہیں۔ ’’بینک نوٹ‘‘ جو مرکزی بینک یا آر بی آئی جیسا ادارہ جاری کرتا ہے اور بینک ڈپازٹ جو کمرشیل بینکوں کے قرض ہوتے ہیں۔ عمومی نقطہ نظر سے بینک ڈپازٹس نقد رقم رکھنے کے برابر ہیں۔ بینک جب قرض جاری کرتے ہیں تو نئے روپے تخلیق کرتے ہیں کیونکہ یہ اسی وقت بینک اکاؤنٹس نمبر (بینک ڈپازٹس) میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بینک آف انگلینڈ کے الفاظ میں جب ایک بینک قرض دیتا ہے اسی لمحے نیا پیسہ تخلیق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو گھر خریدنے کے لئے قرض دینے والے کو بینک ہزاروں روپے مالیت کے نوٹ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے وہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں قرض کے برابر بینک ڈپازٹ یا رقم کریڈٹ کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے تجارتی بینک زیادہ سے زیادہ قرض جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ معاشی سسٹم کے تحت صرف ۵؍ سے ۶؍ فیصد مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی کے ساتھ بینک قرض جاری کر سکتے ہیں اور تقریباً ۲۰؍گنا تک بینک ڈپازٹ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کے پیسے کی توسیع سے ہونے والی افراط زر یا مہنگائی کو مرکزی بینک بلند شرح سود کی پالیسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قرض لینے کی سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ حکومت سود کی ادائیگی کے لئے قرض لیتی ہے جس سے حکومت کا قرض بڑھتا ہے لیکن سود کی ادائیگی کے نتیجے میں بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت ہم حکومت کی جانب سے لئے گئے قرض کی واپسی پر ادا ہونے والے سود میں اضافے کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمارے بچوں پر حکومتی قرض کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ہماری معاشی ابتری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری معیشت کھپت پر مبنی ہے لیکن مہنگائی بڑھنے سے عوام کی قوت خرید کم ہورہی ہے اور جی ڈی پی میں لگاتار گراوٹ ہو رہی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہو تا ہے کہ کھپت پر مبنی اقتصادی ترقی وقتی طور پر فائدہ پہنچاتی ہے لیکن یہ پائیدار نہیں ہوتی ہے۔ جب محنت کش طبقے کی آمدنی بڑھتی ہے تو اخراجات بھی بڑھتے اور اس سے معاشی ترقی متاثر ہوتی ہے لیکن کھپت پر منحصر اقتصادی ترقی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس سے مانگ تو مسلسل بڑھتی رہتی ہےلیکن کھپت میں کبھی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ اس وقت ہندوستان اسی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس کا واضح طور پر نقصان روزگار کے مواقع میں گراوٹ اور مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ کی صورت میں دیکھا جارہا ہے۔ اگر اس ٹرینڈ پر جلد ہی قابو نہیں کیا گیا اور ملک کی معیشت کی ترجیحات کو درست نہیں کیا گیا تو ملک میں معاشی ابتری پھیل سکتی ہے۔ اس پوری صورتحال کا لب لباب یہی ہے کہ قرض پر مبنی معیشت اور حد سے زیادہ منافع خوری پر مبنی معیشت کے بجائے ہمیں اپنی معیشت ان اصولوں پر ترتیب دینی چاہئے جو معاشرے کے ہر طبقے کے لئے فائدہ مند ہو لیکن اس میں موجودہ بینکنگ نظام یا مسلسل قرض لے کر اپنا فائدہ دیکھنے والے نظام کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔ قرض پر مبنی نظام ایک بلبلے کی طرح ہوتا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس کے اثرات برسوں تک محسوس کئے جاتے ہیں۔
قرض پر مبنی بینکنگ نظام صرف اور صرف منافع خوری ہے
عمومی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بینک ڈپازٹس نقد رقم رکھنے کے برابر ہیں۔ بینک جب قرض جاری کرتے ہیں تو نئے روپے تخلیق کرتے ہیں کیونکہ یہ اسی وقت بینک اکاؤنٹس نمبر (بینک ڈپازٹس) میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بینک آف انگلینڈ کے الفاظ میں کہا جائے تو جب ایک بینک قرض دیتا ہے اسی لمحے نیا پیسہ تخلیق ہوتا ہے۔مثال کے طور پر کسی کے گھر خریدنے کے لئے قرض لینے پر بینک ہزاروں روپے مالیت کے نوٹ نہیں دیتا۔ اس کے بجائے وہ ان کے بینک اکاؤنٹ میں قرض کے برابر بینک ڈپازٹ یا رقم کریڈٹ کردیتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے تجارتی بینک زیادہ سے زیادہ قرض جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بینکوں کےپیسے کی توسیع سے ہونے والی افراط زر یا مہنگائی کو مرکزی بینک بلند شرح سود کی پالیسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قرض لینے کی سرگرمی کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ اس وقت ہم حکومت کی جانب سے لئے گئے قرض کی واپسی پر ادا ہونے والے سود میں اضافے کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ کا سامنا کر رہے ہیں اور ہمارے بچوں پر حکومتی قرض کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔