• Fri, 07 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تراویح اور کثرت حفاظ کے تعلق سے چند گزارشات

Updated: February 07, 2025, 4:38 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

حافظ ِ قرآن نہ صرف خود اللہ کے خاص بندوں میں شامل ہوتا ہے بلکہ وہ امت کی رہنمائی اور قرآن کی حفاظت کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ قرآن کو محفوظ رکھنے میں حفاظ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے؛ کیونکہ وہ قرآن کو اپنے سینے میں محفوظ کر کے اسے نسل در نسل منتقل کرتے ہیں۔

Try not to miss reciting the Quran in Hafaz Taraweeh. Photo: INN
کوشش کیجئے کہ حفاظ تراویح میں قرآن سنانے سے محروم نہ رہ جائیں۔ تصویر: آئی این این

حافظ ِ قرآن نہ صرف خود اللہ کے خاص بندوں میں شامل ہوتا ہے بلکہ وہ امت کی رہنمائی اور قرآن کی حفاظت کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ قرآن کو محفوظ رکھنے میں حفاظ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے؛ کیونکہ وہ قرآن کو اپنے سینے میں محفوظ کر کے اسے نسل در نسل منتقل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حفاظِ کرام کی عزت و توقیر ہر دور میں کی گئی ہے، اور شریعت اسلامیہ میں انہیں دنیا و آخرت میں بے شمار انعامات اور برکات سے نوازے جانے کا پروانہ بھی ملا ہوا ہے۔ اللہ رب العزت نے سورہ الحجر آیت نمبر۹؍ میں یہ فرمایا ہے: ’’ہم ہی نے قرآن اُتارا ہے اور یقیناً ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ ‘‘ اس میں الفاظ ِ قرآن اور معانیٔ قرآن دونوں کی حفاظت شامل ہے؛ چنانچہ جہاں معانی ٔ قرآن کی حفاظت کا کام اللہ رب العزت علمائے کرام سے لے رہے ہیں وہیں الفاظ ِ قرآن کی حفاظت کا کام حفاظ سے لے رہے ہیں۔ 
 آج کے دور میں یہ بات باعث ِ مسرت ہے کہ پہلے کے مقابلے میں حفظِ قرآن کی طرف رجحان بڑھا ہے اور زیادہ سے زیادہ بچے اور نوجوان قرآن کریم کو حفظ کر رہے ہیں۔ والدین بھی اس سعادت کو اپنے بچوں کے لئے باعث ِ فخر سمجھتے ہیں، جس کی بدولت دینی مدارس اور مکاتب میں حفاظ کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ نہ صرف ایک دینی سعادت ہے بلکہ امتِ مسلمہ کے تابناک مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔ یہ ایک قابل غور پہلو ہے کہ جہاں ماضی میں حفاظ کی کمی کے باعث کئی مساجد میں مکمل تراویح نہیں ہو پاتی تھی اور ایک حافظ کو کئی جگہوں پر قرآن سنانا پڑتا تھا، وہیں آج حفاظ کی کثرت کی وجہ سے کئی نوجوان حفاظ تراویح میں قرآن سنانے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ صورتِ حال ایک نئی کشمکش کو جنم دیتی ہے، کیونکہ تراویح نہ صرف سننے والوں کے لئے برکت اور سعادت کا ذریعہ ہے بلکہ حفاظ کے لئے بھی قرآن کی تکرار اور یادداشت کو تازہ رکھنے کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ تراویح میں قرآن سنانے سے حافظ کا حفظ مضبوط ہوتا ہے اور وہ اپنے سینے میں محفوظ اللہ کے کلام کو بار بار دہرانے کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ اگر کسی حافظ کو تراویح میں قرآن سنانے کا موقع نہ ملے تو اس کے لئے یادداشت کو برقرار رکھنا مشکل ہو سکتا ہے، جو ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ 
 اس مسئلے کا حل امت مسلمہ کو حکمت و بصیرت کے ساتھ تلاش کرنا ہوگا۔ اگر اس چیلنج کا حل دانش مندی سے نکالا جائے تو یہ امت کے لئے مزید خیر و برکت کا باعث بن سکتا ہے۔ اگرچہ مسجد میں تراویح پڑھنا اور پڑھانا افضل ہے، لیکن حفاظ کرام کی کثرت کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے کرام نے درج ذیل رہنمائی پیش کی ہے تاکہ وہ حفاظ کرام جنہیں مسجد میں قرآن سنانے کا موقع میسر نہ آ سکے وہ بھی تراویح سنا سکیں اور حفظ کی مضبوطی کو برقرار رکھ سکیں :
(۱) گھروں میں جماعت کے ساتھ تراویح کا اہتمام
 اگر کسی حافظ کو مسجد میں تراویح پڑھانے کا موقع نہ ملے تو وہ اپنے گھر میں یا کسی اور کے گھر میں اہلِ خانہ اور محلے کے چند افراد کے ساتھ باجماعت تراویح کا اہتمام کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف حافظ کو قرآن دہرانے کا موقع ملے گا بلکہ گھر کے افراد بھی اس سعادت میں شریک ہوں گے۔ 
 (۲)دفاتر اور دیگرمراکز میں تراویح کی نماز
 دفاتر اور دیگر مراکز میں جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے، وہاں علما ءنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ الگ سے تراویح کی نماز کا اہتمام ہوجائے تاکہ زیادہ حفاظ کو قرآن سنانے کا موقع ملے اور وہ لوگ جو مسجد تک نہیں پہنچ سکتے وہ بھی تراویح میں شریک ہو سکیں۔ 
 (۳)اجتماعی تراویح کی ترتیب
 بعض مقامات پر یہ طریقہ بھی اپنایا جا سکتا ہے کہ ایک ہی مسجد میں دو یا تین حفاظ کو تراویح پڑھانے کا موقع دیا جائے۔ مثلاً ایک حافظ دس روزہ ختم کرے، پھر دوسرا اور پھر تیسرا۔ اس طرح ایک ہی مسجد میں تین حفاظ کو تراویح پڑھانے کی سعادت حاصل ہو سکتی ہے۔ 
 (۴)تراویح میں جزوی طور پرقرآن سنانے کی اجازت
 بعض علماء نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ جس مسجد میں ایک حافظ کے لئے مکمل قرآن سنانے کا موقع نہ ہو، وہاں حفاظ کو تراویح میں کچھ پارے تقسیم کرکے دے دیں تاکہ کئی حفاظ کو قرآن سنانے کی سعادت مل جائے۔ 
 حقیقت یہ ہے کہ یہ عملی حل نہ صرف حفاظ کے لئے مفید ہےبلکہ امت مسلمہ کے لئے بھی خیر و برکت کا باعث ہے۔ ان تمام تدابیر کے ساتھ ہمیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ جہاں بھی تراویح کا اہتمام کیا جائے، وہاں نہ تو حفاظِ کرام کی ناقدری ہو اور نہ ہی تراویح کی اصل روح متاثر ہو۔ قرآن کی تلاوت اور تراویح محض ایک رسمی عمل نہیں بلکہ روحانی برکت اور تقویٰ حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، اس لئے اس عبادت کو پورے ادب، خشوع و خضوع اور احکامِ شریعت کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے۔ بعض اوقات حفاظ کو موقع دینے کے جذبے میں تراویح کو محض ایک مشق بنا دیا جاتا ہے یا قرأت میں وہ حسن اور سکون نہیں رہتا جو مطلوب ہے، یہ قرآن اور عبادت کی روح کے خلاف ہے۔ اسی طرح بعض مقامات پر حفاظ کو کسی نہ کسی درجے میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جو ان کی محنت اور دینی خدمت کی ناقدری کے مترادف ہے۔ ہمیں توازن کے ساتھ ایسا طریقہ اپنانا چاہئے جس میں نہ صرف تمام حفاظ کو قرآن سنانے کا موقع ملے بلکہ تراویح کی عبادت بھی وقار اور احکامِ شریعت کے مطابق ادا ہوتاکہ یہ عمل اللہ کی رضا، قرآن کی عظمت اور امت کی دینی تربیت کا بہترین ذریعہ بن سکے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK