حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے اصولوں سے لوگوں کو متعارف کرانا تھا، چناں چہ آپ کی مجالس میں تزکیہ و طہارت اور معرفت و سلوک کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔
EPAPER
Updated: February 19, 2021, 9:09 AM IST
|
Dr Mohammed Hussain Mushahid Razvi
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے اصولوں سے لوگوں کو متعارف کرانا تھا، چناں چہ آپ کی مجالس میں تزکیہ و طہارت اور معرفت و سلوک کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے اصولوں سے لوگوں کو متعارف کرانا تھا، چناں چہ آپ کی مجالس میں تزکیہ و طہارت اور معرفت و سلوک کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ آپ کے ارشادات اور اقوال کو حضرت کے جانشین خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے ’’دلیل العارفین ‘‘ کے نام سے قلم بند کر لیا تھا، یہ کتاب مختلف دینی مسائل کا سرچشمہ ہے، ذیل میں اسی کتاب سے حضرت خواجہ کے چند اقوالِ زریں نقل کئے جاتے ہیں
٭ نماز بندوں کے لیے خدا کی امانت ہے، پس بندوں کو چاہئے کہ اس کا حق ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت نہ پیدا ہو۔ نماز ایک راز ہے جو بندہ اپنے پروردگار سے کہتا ہے۔
٭ قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب انبیاء و اولیاء اور ہر مسلمان سے ہو گا جو اس حساب سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکے گا وہ عذابِ دوزخ کا شکار ہو گا۔
٭ جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کر دےگا۔
٭ اس سے بڑھ کر کوئی گناہِ کبیرہ نہیں کہ مسلمان بھائی کو بِلا وجہ ستایا جائے۔ یہ عمل خدا ا و ررسول کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔
٭ کون سی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت میں نہیں ہے ۔مرد کو چاہئے کہ احکامِ الٰہی بجا لانے میں کمی نہ کرے پھر جو کچھ چاہے گا مِل جائے گا۔
٭ قبرستان میں جان بوجھ کر کھانا یا پانی پینا گناہِ کبیرہ ہے۔ جو ایسا کرے وہ ملعون اور منافق ہے کیوں کہ قبرستان عبرت کی جگہ ہے نہ کہ جائے حرص و ہو َا۔
٭ جس نے جھوٹی قسم کھائی گویا اس نے اپنے خاندان کو ویران کر دیا۔ اس گھر سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔
٭ گناہ تم کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا مسلمان بھائی کو ذلیل و رسو ا کرنا (نقصان پہنچاتا ہے)۔
٭ جس نے خدا کو پہچان لیا اگر و ہ خلق سے دور نہ بھاگے تو سمجھ لو کہ اس میں کوئی نعمت نہیں۔
٭ عارف وہ شخص ہوتا ہے جو کچھ اس کے اندر ہو اسے دل سے نکال دے تاکہ اپنے دوست کی طرح یگانہ ہو جائے پھر اللہ تعالیٰ اس پر کسی چیز کو مخفی نہ رکھے گا اور وہ دونوں جہاں سے بے نیاز ہو جائے گا۔
٭ اگر قیامت کے دن کوئی چیز جنت میں لے جائے گی تو وہ زہد ہے نہ کہ علم۔
٭ اہلِ عرفان یادِ الٰہی کے علاوہ کوئی اور بات اپنی زبان سے نہیں نکالتے اور اللہ کے خیال کے سوا دل میں کسی دوسرے کا خیال نہیں لاتے۔
٭ اگر کسی شخص میں تین خصلتیں پائی جائیں تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ اسے دوست رکھتا ہے: (۱) سخاوت (۲) شفقت (۳) تواضع (عجز یا عاجزی)۔ سخاوت دریا جیسی، شفقت آفتاب جیسی اور تواضع زمین جیسی۔
٭ نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام سے بری ہے۔
٭ دنیا میں تین افراد بہترین کہلانے کے مستحق ہیں:
(۱) عالم جو اپنے علم سے بات کہے (۲) جو لالچ نہ رکھے (۳) وہ عارف جو ہمیشہ دوست کی تعریف و توصیف کرتا رہے۔
٭ حق شناسی کی علامت لوگوں سے راہِ فرار اختیار کرنا اور معرفت میں خاموشی اختیار کرنا ہے۔
٭ عارف سورج کی طرح ہوتا ہے جو سارے جہان کو روشنی بخشتا ہے جس کی روشنی سے کوئی چیز خالی نہیں رہتی۔
٭ سچی توبہ کے لئے تین باتیں ضروری ہیں:
(۱) کم کھانا (۲) کم سونا، اور (۳) کم بولنا۔ پہلی عادت سے خوفِ خدا، دوسری اور تیسری عادت سے محبتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔
٭ اہلِ طریقت کے لئے دس شرطیں لازم ہیں (۱) طلبِ حق (۲) طلبِ مرشد (۳) ادب (۴) رضا (۵) محبت اور ترکِ فضول (۶) تقویٰ (۷) شریعت پر استقامت (۸) کم کھانا، کم سونا، کم بولنا (۹) خلق سے دوری اور تنہائی اختیار کرنا، اور (۱۰) روزہ و نماز کی ہر حال میں پابندی۔
٭ پانچ چیزوں کو دیکھنا عبادت ہے:
(۱) اپنے والدین کے چہرے کو دیکھنا۔ حدیث میں ہے کہ جو فرزند اپنے والدین کا چہر ہ دیکھتا ہے اس کے نامہ ٔ اعمال میں حج کا ثواب لکھا جاتا ہے (۲) کلامِ مجید کا دیکھنا (۳)کسی عالمِ با عمل کا چہرہ عزت و احترام سے دیکھنا (۴) خانۂ کعبہ کے دروازے کی زیارت اور کعبہ شریف کو دیکھنا (۵) اپنے پیر و مرشد کے چہرے کو دیکھنا اور ان کی خدمت کرنا۔
کاش آج کے دور کا انسان ان تعلیمات کو سمجھے اور عمل کرے