• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہت کچھ بدلے گا، کیا مودی بھی بدلیں گے!

Updated: June 09, 2024, 9:24 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

وزیر اعظم مودی کا مزاج الگ ہے۔ کیسا ہے یہ سب جانتے ہیں مگر ۲۴۰؍ سیٹوں پر سمٹ جانے کے بعد اب اُن کیلئے حکمرانی ٹیڑھی کھیر بن گئی ہے۔ سمجھوتہ تو اُنہیں کرنا پڑیگا اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وہ خود کو کتنا بدلتے ہیں۔

The Prime Minister addressed the allies of the NDA in the Central Hall before taking oath
وزیر اعظم نے حلف برداری سے پہلے این ڈی اے کی حلیف جماعتوں سے سینٹرل ہال میں خطاب کیا

وزیر اعظم نے حلف برداری سے پہلے این ڈی اے کی حلیف جماعتوں سے سینٹرل ہال میں خطاب کیا۔ اُن کا پیغام تھا کہ وہ دس سال تک وزیر اعظم رہیں گے (اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دس سال کے بارے میں وہ کیسے جانتے ہیں) مگر یہاں اُن کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اُنہوں نے یہ بات سرسری کہی۔ اپنے حلیفوں کو اُن کا ایک ہی پیغام تھا کہ وہ اُن خبروں پر توجہ نہ دیں جو اِن دنوں گشت کررہی ہیں۔
 اُنہو ںنے یہ بات خاص طور پر اس لئے کہی کہ اُنہیں علم ہے اب وہ مکمل رازداری ممکن نہیں ہوگی جو گزشتہ دس سال کے دوران تھی۔ عنقریب خبروں کے باہر آنے کے سلسلے کا آغاز ہوگا اسی لئے وزیر اعظم نے حلیف جماعتوں کو سمجھانا چاہا ہے کہ وہ گشت کرنے والی خبروں کو نظر انداز کریں اور جب تک کسی اطلاع کی تصدیق نہ ہو تب تک اُس پر بھروسہ نہ کریں۔ آئیے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اُنہو ںنے یہی پیغام کیوں دیا؟ 
 دراصل، وزیر اعظم بدلے ہوئے حالات سے واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اب حالات اور واقعات کی اُس طرح رپورٹنگ ہوگی جس طرح گزشتہ دس سال کے دوران نہیں ہوئی تھی۔ اب ہم سو فیصد رازداری کے دور سے باہر نکل آئے ہیں۔ 
 دس سال کے رازاداری کے دور کو یاد کیجئے، مودی کی کابینہ کے اہم وزراء بھی نہیں جانتے تھے کہ نوٹ بندی ہونے والی ہے۔ یہ بات ہمیں اس لئے معلوم ہوئی کہ نوٹ بندی کے اعلان سے محض چند گھنٹے پہلے ہی کابینہ کی میٹنگ ہوئی تھی اور وزراء سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنا فون باہر رکھیں، میٹنگ کی جگہ پر نہ لائیں۔ یہ تاکید اس لئے کی گئی تھی کہ جو بات اُنہیں بتائی جارہی ہے وہ ملک کے عوام تک نہ پہنچ جائے۔ چونکہ وزراء ہی کو نوٹ بندی کی بابت کچھ معلوم نہیں تھا اس لئے وہ اپنی وزاتوں کو اس کے بارے میں نہیں بتا سکے اور اُن کی وزارتیں حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی تیاری نہیں کرسکیں۔
  ایسی ہی صورت حال ۲۰۲۰ء کے ملک گیر لاک ڈاؤن کے وقت بھی پیدا ہوئی تھی۔ کسی کو علم نہیں تھا کہ پورے ملک پر تالہ بندی نافذ ہوگی۔ سرکار میں جو لوگ تھے وہ بھی لاعلم تھے۔ 
 یقیناً اب ایسا نہیں ہوگا۔ ۱۴ء میں مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے کی روایت ختم ہوگئی تھی اور تمام فیصلوں کا اختیار ایک ہی شخص کو حاصل ہوگیا تھا۔ اب یہ ارتکاز ختم ہونے جارہا ہے۔ سارے اختیارات ایک ہی شخص کے ہاتھوں میں اب نہیں رہیں گے۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔
 جمہوری ملکوں میں ذرائع ابلاغ کی قیاس آرائیاں بے مقصد نہیں ہوتیں۔ ذرائع ابلاغ کو قیاس آرائی کی آزادی کا حاصل ہونا اور اُن کا اہل اقتدار کے بارے میں بے خوفی سے کچھ کہنا ایک بات ہے، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو باتیں بند کمروں میں ہوتی ہیں یا جو عوام کے درمیان کہی ہی نہیں جاسکتیں، وہ اندر ہی کے لوگ باہر لاتے ہیں تاکہ اُنہیں اس کا فائدہ مل سکے۔ ایسا تمام جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے۔ کسی کو کچھ معلوم نہ ہونا یا بند کمروں میں ہونے والے فیصلوں کے اشاروں تک کا باہر نہ آنا اُن ملکوں میں ہوتا ہے جہاں آمریت ہے۔ وہاں کے لوگ کچھ نہیں جانتے کہ بند کمروں میں کیا ہورہا ہے، کیا سنا اور کہا جارہا ہے اور آگے کیا ہونے والا ہے۔ اُن ملکوں میں لوگوں کی زبانوں پر تالے پڑے رہتے ہیں اور اگر کوئی کچھ کہتا ہوا مل گیا تو اُسے لب کشائی کی سزا دی جاتی ہے۔
 ملک کے بدلے ہوئے حالات میں یہ اُمید پیدا ہوگئی ہے کہ اب کچھ باتیں منظر عام پر آنے لگیں گی جن پر گزشتہ دس سال سے غیر تحریر شدہ پابندی تھی۔ وزیر اعظم مودی اپنے حلیفوں کی جانب سے مکمل طور پر مطمئن رہیں گے اس کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا کیونکہ حلیف پارٹیاں وزیر اعظم کا کہا ہی مانتی رہیں تو اُن باتو ںکا کیا ہوگا جن سے اُنہیں تشویش لاحق ہے یا جو اُن کے مطلب کی ہیں؟
 نرسمہا راؤ کے دور کے خاتمے کے بعد جس قسم کی مخلوط سیاست کا دور شروع ہوا تھا اُس میں اور مودی کی مخلوط سیاست میں فرق ہے۔ اس لئے کہ مودی کے پاس ۲۴۰؍ اراکین پارلیمان ہیں۔ اُن سے پہلے این ڈی اے کی حکومت کے سربراہ واجپئی نے بھی مخلوط سیاست کی مگر اُن کے پاس صرف ۱۸۰؍ اراکین پارلیمان تھے۔ اس کالم کے بزرگ قارئین کو یاد ہوگا کہ فروری ۱۹۹۹ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے وزیر دفاع جارج فرنانڈیز کو ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ چنئی جائیں اور انا ڈی ایم کے کی لیڈر اور این ڈی اے میں شامل جے للتا کو سمجھائیں ۔ فرنانڈیز کو ملاقات کا وقت ملا اور وہ پرمود مہاجن کے ساتھ چنئی پہنچے۔ اس کے باوجود جے للتا نے اُن سے نہ تو ملاقات کی نہ ہی اُن کی بات سنی۔ انٹرکوم پر جے للتا نے فرنانڈیز کو جھڑک دیا۔ اُنہیں اُلٹے پیر واپس آنا پڑا۔ یہ ہوتا تھا اُس دور میں۔ مخلوط سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ 
 ایک اور واقعہ ہے۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں ترنمول کانگریس این ڈی اے میںشامل ہوئی تھی مگر وزارت نہ ملنے کے سبب ممتا اس قدر ناراض ہوئیں کہ کابینی میٹنگ سے غیر حاضر رہیں۔ اس پر بی جے پی کے صدر جنا کرشنا مورتھی نے کہا تھا کہ ’’فوراً وزارت مل جائیگی اس کی توقع بھی کیسے کی جاسکتی ہے؟ ابھی تو خود ہماری پارٹی کے لوگ وزارت ملنے کے انتظار میں ہیں۔‘‘
 ’’لو اور دو‘‘ کی قومی سیاست میں گزشتہ دس سال کی حیثیت استثنیٰ کی تھی کیونکہ ایک ہی پارٹی بھرپور اکثریت کے ساتھ اقتدار میں تھی۔ وہ طلسم ٹوٹ چکا ہے۔ واجپئی ملک کی سیاسی روایات کا احترام کرنے والے لیڈر تھے اور کچھ خلاف ِ مرضی ہوتا تو اُسے برداشت کرلیتے تھے۔ مودی اُس مزاج کے نہیں ہیں مگر اب اُنہیں بھی ملی جلی سیاست پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ چونکہ مَیں اُنہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں اسلئے کہہ سکتا ہوں کہ اب دیکھنا ہوگا کہ وہ سمجھوتہ کرنے کی کس طرح عادت ڈالتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اُنہیں بار بار سمجھوتہ نہیں کرنا پڑیگا کیونکہ اُن کے پاس سیٹیں زیادہ ہیں البتہ اُن کا ۲۰۱۴ء تا ۲۰۲۴ء کا اندازِ حکمرانی اب نہیں رہ جائیگا۔ پردہ داری اور رازداری کا دور بھی گزر چکا۔ اب عوام کو بہت کچھ معلوم ہوتا رہے گا۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK