اہل سیاست اپنے حق میں جو کچھ بہتر سمجھتے ہیں کر گزرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سماج اپنی طاقت کھو رہاہے، اس میں مزاحمت کی خو‘ ناپید ہورہی ہے اور بُرائی کو بُرائی کہنے کی اخلاقی جرأت کم ہوگئی ہے۔
EPAPER
Updated: November 29, 2024, 11:36 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
اہل سیاست اپنے حق میں جو کچھ بہتر سمجھتے ہیں کر گزرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سماج اپنی طاقت کھو رہاہے، اس میں مزاحمت کی خو‘ ناپید ہورہی ہے اور بُرائی کو بُرائی کہنے کی اخلاقی جرأت کم ہوگئی ہے۔
اقبال نے برسوں پہلے متنبہ کیا تھا: ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی/ جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا‘‘ مگر اقبال جیسے دانشوروں کے انتباہات پر کون غور کرتا ہے۔ نہ صرف اقبال کو فراموش کیا گیا بلکہ گاندھی اور ٹیگور کو بھی بھلا دیا گیا۔ اب ان کے بارے میں فقط اس تفصیل سے کام چلایا جارہا ہے کہ یہ بڑے دانا تھے، فلسفی تھے، عظیم انسانی قدروں کے امانتدار تھے، انسان کو انسان دیکھنا چاہتے تھے، اسے راہ راست سے بھٹکتا ہوا دیکھ کر انہیں کوفت ہوتی تھی۔ انہو ںنے کیا لکھا، کیا کہا اور کیا کیا وغیرہ سے کسی کو کوئی خاص سروکار نہیں رہ گیا ہے۔ یہ لوگ قوم کی تعمیر چاہتے تھے۔ انہیں علم تھا کہ قوموں کا مستقبل افراد کی چھوٹی چھوٹی کاوشوں سے تشکیل پاتا ہے جو اُن کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں لہٰذا اُنہیں جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، بے ایمانی نہیں کرنی چاہئے، بدنیتی قابل نفریں ہے، خیانت ناپسندیدہ ہے، وغیرہ۔ گاندھی، ٹیگور اور اقبال جیسے جتنے دانشور پیدا ہوئے، ان میں بعض مغربی دانشوروں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، وہ دائمی انسانی قدروں کے امین تھے۔ آج بھی نوام چامسکی جیسی شخصیات موجود ہیں جو غیر معمولی طاقت رکھنے والے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ کہنے سننے کی طاقت اور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ایسے تمام دانشوروں نے انسانی زندگی کو چند بنیادی اُصولوں پر گامزن کرنے کی کوشش کی۔ اب اُن کی باتیں، اُن کے زریں اقوال اور حکایات ِسود و زیاں اُن کتابو ں میں دفن ہوگئی ہیں جو اَب خود بھی دفن ہونے کے قریب ہیں۔ اسی لئے اکیسویں صدی میں جھوٹ ناگوار نہیں ہے، دھوکہ دہی ناپسندیدہ نہیں ہے، بے ایمانی اور بدنیتی پر کسی کی تیوری نہیں چڑھتی، بہتان طرازی پر کسی کے منہ کا مزا نہیں بگڑتا اور وسیع تر معنی میں خیانت سے کسی کو اُلجھن نہیں ہوتی۔
موجودہ سماجی و سیاسی ماحول میں جھوٹ، فتنہ پروری، افترا پردازی، خیانت، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور ایسی ہی دُنیا بھر کی بُرائیاں کہاں کہاں، کس کس کو اور کیسا کیسا نقصان پہنچا رہی ہیں اس کے بارے میں، کم از کم، وہ لوگ تو بالکل نہیں سوچ رہے ہیں جو اقتدار میں ہیں یا اہل ِاقتدارکے مشیروں میں شامل ہیں اور مشورہ دینے کے بجائے حکم ماننے اور بجا لانے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں یا اُن کے ہمنواؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے کو کوئی تیار نہیں ہے کہ جب سیاست روزانہ جھوٹ کےد ریا بہائے گی اور نفرت پھیلانے کی کوششوں کو روکنا نہیں چاہے گی تو کیا ہوگا؟ سماج میں انتشار پھیلتا ہوا صاف دکھائی دے رہا ہے مگر جو لوگ انتشار ہی کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں اُنہیں کوئی سمجھائے بھی تو کیا۔ مگر مزاحمت کا راستہ بند نہیں ہوسکتا۔ جھوٹ کے خلاف مزاحمت۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جناب، سیاست میں تو یہ سب ہوتا رہتا ہے!
جی نہیں۔ جھوٹ کو اس طرح شرف ِقبولیت نہیں بخشا جاسکتا بالخصوص اُس وقت جب سچائی کی آفاقی اہمیت اور حیثیت سے کسی کو انکار نہ ہو۔ پوری دُنیا گھوم لیجئے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو جھوٹ کا قصیدہ پڑھے۔ سب سچ ہی کا قصیدہ پڑھتے ہیں اس کے باوجود سچ کی طاقت عملاً کم ہورہی ہے اور جھوٹ فروغ پارہا ہے۔ انفرادی زندگیو ںمیں بھی کسی اور کو جھوٹا کہنے میں تکلف نہیں کیا جاتا مگر خود جھوٹ سے حتی الامکان گریز کا اہتمام کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ یہ دُہرا معیار اب عام ہے۔ تہذیبی زوال تب شروع نہیں ہوتا جب حکومتیں تہذیبی قدروں کی بیخ کنی کرتی ہیں، تہذیبی زوال اس سے پہلے تب شروع ہوتا ہے جب سماج اور معاشرہ مزاحم ہونے کی اپنی طاقت کو پہچاننے سے انکار کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری سے چشم پوشی کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ مزاحم کب ہوگا یا مزاحمت کی بہترین حکمت عملی کب اپنائے گا؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب علم و حکمت کے موتیوں سے اپنا دامن بھرنے کی فکر کرے گا۔ علم و حکمت کے خزانے کتابوں کی اُن پناہ گاہوں میں ہیں جو خود پناہ کی محتاج ہوگئی ہیں جیسا کہ بالائی سطور میں بھی کہا گیا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو کتابیں پڑھتے ہیں؟ پرانے وقتوں میں اُن افراد کو بھی حکمت و دانائی کی باتیں سکھائی جاتی تھیں جن کی عمر کتابیں پڑھنے کی نہیں ہوئی۔ گھروں کی غیر رسمی محفلیں بنیادی طور پر در سگاہیں ہوتی تھیں۔ گھر کے بچو ںکو کبھی کہانی سنائی گئی، کبھی کوئی حکایت بتائی گئی، کوئی شعر سنایا گیا، کوئی زریں قول یاد کرنے کیلئے کہا گیا یا اُن سے کوئی ایسی بات کہی گئی جو دل میں اُترنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اب سے پچاس ساٹھ سال پہلے تعلیم کا اتنا رواج کہاں تھا؟ کتابیں کتنے گھروں میں ہوتی تھیں؟ بے شک تب تعلیم کا رواج نہیں تھا اور کتابیں بھی ہر خاص و عام کو میسر نہیں تھیں مگر گھر اور خاندان کے بڑوں کی باتیں، والدین کی نصیحتیں اور روزمرہ کی گھریلو محفلیں درجنوں کتابوں کا نچوڑ اُن کے سامنے پیش کرنے کے بہترین اور موثر نظم کے طور پر موجود تھیں۔ یہاں صرف مسلم معاشرہ موضوع سخن نہیں ہے۔ عام ہندوستانی گھروں اور خاندانوں میں بھی یہی ہورہا ہے۔ مادیت کے غلبہ نے کسی کو کہیں کا نہیں رکھا ہے۔ اسی مادّہ پرستانہ رجحان کی وجہ سے اہل سیاست نے ترقی کو موضوع بنایا کہ ترقی کے فلاں ماڈل کو سامنے رکھئے، ہماری طاقت بڑھائیے اور پھر دیکھئے کہ آپ کی آمدنی میں کس طرح سرخاب کے پر لگ جائینگے۔
یہ دعویٰ اور وعدہ کیوں اتنا کارگر ہوا کہ انتخابی ترازو ایک جانب اتنی تیزی سے جھکا کہ بہت سوں کے ہوش اُڑ گئے۔ پھر یہ بار بار ایک ہی جانب جھکنے لگا۔ اس کی وجہ سے اہل سیاست کی ہمت کھل گئی۔ اب انہوں نے امانت میں خیانت شروع کردی۔ اِن دنوں جو کہا جارہا ہے کہ انتخابی نتائج چرا لئے گئے ہیں تو یہ کیا ہے؟ یہی کہ بہت بڑی خیانت ہوئی ہے مگر اسے خیانت کے معنی میں سمجھنے کی کوشش کون کررہا ہے؟ اور اگر خیانت بُری چیز ہے تو اسے زندگی کے ہر شعبے میں بُرا سمجھنے اور بُرا کہنے کی طاقت کہاں ہے؟ لوگ تو کسی اور کی خیانت کو خیانت کہتے ہیں، اپنی خیانت کو چھپا لے جاتے ہیں!n