اسٹیشن سے کوسہ جامع مسجد تک پرانی بستیاں آباد ہیں تو شملہ پارک سے شیل پھاٹا تک جدید آرائش سے لیس عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں۔ ان کی وجہ سے سہولتیں بڑھ رہی ہیں مگر مسائل بھی اپنے ساتھ لا رہیں ، البتہ قومی یکجہتی آج بھی ممبرا کی اولین شناخت ہے۔
EPAPER
Updated: February 01, 2025, 11:46 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
اسٹیشن سے کوسہ جامع مسجد تک پرانی بستیاں آباد ہیں تو شملہ پارک سے شیل پھاٹا تک جدید آرائش سے لیس عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں۔ ان کی وجہ سے سہولتیں بڑھ رہی ہیں مگر مسائل بھی اپنے ساتھ لا رہیں ، البتہ قومی یکجہتی آج بھی ممبرا کی اولین شناخت ہے۔
ممبئی کے مضافات میں تیزی سے آباد ہونے والے علاقوں میں شمار ممبرا کے اندر اب ایک نیا ممبرا تشکیل پارہا ہے جہاں پر بڑے بڑے پروجیکٹ شروع ہو رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ممبرا میں نوی ممبئی کی جھلک دکھائی دینے لگی ہے۔ ایم ایم ویلی اور شملہ پارک سے کلیان پھاٹا تک اب یہی منظر نظر آتا ہے۔ جبکہ قدیم ممبرا یعنی ریلوے اسٹیشن سے کوسہ جامع مسجد تک جوں کا توں نظر آتا ہے۔ دونوں علاقوں کے اس فرق میں کیا خوبیاں ہیں کیا خامیاں ، نمائندہ انقلاب نے اس معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یاد رہے کہ ممبرا اسٹیشن پر اترتے ہی سامنے جامع مسجد دکھائی دیتی ہے اور اسکے بغل میں ہنومان مندر جو قومی یکجہتی کا برسوں پرانا نظارہ پیش کرتی ہے۔ ممبرا کو فرقہ وارانہ طور پر ہمیشہ امن وامان کا گہوارہ قرار دیا گیا ہے۔ کیا نئی تعمیرات اور ترقیات سے شہر میں کوئی فرق آیا ہے؟
غیر سرکاری تنظیم’ یس وی کین‘ کے بانی عبدالکبیر چودھری کا کہنا ہے کہ ’’ممبرا میں کئی ایسی خوبیاں ہیں جو دیگر شہروں میں نہیں۔ سب سے پہلے یہاں کی قومی یکجہتی ہے۔ ممبرا میں مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ انہوں نے فرقہ واریت کو بالکل پنپنے نہیں دیا۔ یہی وہ خوبی ہے جو ممبرا کو دیگر علاقوں سے منفرد بناتی ہے۔ ساتھ ہی ممبرا کے لوگ بڑھ چڑھ کر سماجی خدمات میں حصہ لیتے ہیں۔ اس میں بھی مذہب یاملت کی کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ ایک اور بات قابل غور ہے کہ ممبرا کے باشندوں نےماڈرن ازم کے نام پر فحاشی کو حاوی نہیں ہونے دیا ہے بلکہ آج بھی لوگ اپنے مذہب اور اپنی تہذیب سے وابستہ ہیں۔ ‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’ یہاں ترقی بھی ہوئی ہے۔ انفرا اسٹرکچر بہتر ہوا ہے ، روڈ بنائے گئے اسی لئے یہاں پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے۔ ‘‘
ممبرا میں کیا اچھا نہیں ہے؟ کے تعلق سے وہ بتاتے ہیں کہ ممبرا میں بڑی تعداد میں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ رہتے ہیں جن کے بچے میونسپل اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن ان اسکولوں کی تعداد میں برسوں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا، نہ ہی اسکولوں میں جماعتیں بڑھیں ہیں۔ جن میونسپل اسکولوں میں ۸؍ ویں تک پڑھائی ہوتی تھی انہیں ۱۰؍ ویں تک اور جہاں ۱۰؍ ویں تک کی تعلیم ہے وہاں جونیئر کالج تک کی پڑھائی کا نظم ہونا چاہئے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ‘‘ ساتھ ہی چودھری کہتے ہیں ’’ ممبرا میں ملازمت کے مواقع نہیں ہیں، اسلئے یہاں چھوٹے پیمانے پر صنعتوں کو شروع کیا جانا چاہئے تاکہ مقامی نوجوانوں کو یہیں ملازمت مل سکے اور انہیں جان خطرے میں ڈال کر صبح کے وقت بھیڑ بھاڑ والی ٹرین میں سفر نہ کرنا پڑے۔ اس سے نوجوان بری عادتوں سے بھی بچیں گے۔ ‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’ممبرا میں ڈرگس کی سپلائی اور فروخت بند ہوناچاہئے جو ہماری نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ اسے ختم نہیں کرنا چاہتا۔ اسی طرح ٹریفک نظام بھی دن بہ دن خراب ہوتا جارہا ہے، ممبرا میں ٹریفک سگنل ہونا چاہئے، ٹریفک کے اصولوں کو سختی سے نافذ کرنا چاہئے۔ ‘‘ طبی سہولیات کے تعلق سے ان کا کہنا ہے ’’ ممبرا میں ایمرجنسی میں علاج کیلئے کوئی سرکاری اسپتال نہیں ہے، مریضو ں کو کلوا، تھانے اور ممبئی جانا پڑتا ہے۔ یہ سہولتیں جلد از جلد مہیا کروائی جانی چاہئیں۔ ہمارے شہر کے گلاب پارک مارکیٹ کو بھی روڈ سے ہٹاکر دوسری قانون جگہ پر منتقل کرنا چاہئے تاکہ یہ ٹریفک جام کا سبب نہ بنے۔ ‘‘
کوسہ میں مقیم نوجوان فیضان عثمانی کہتے ہیں تھانے میونسپل کارپوریشن(ٹی ایم سی) سے منظور شدہ بڑے بڑے پروجیکٹ :دوستی، اٹلانٹا، ریویرا، ایم ایم ویلی اور نائس ورلڈ وغیرہ میں ڈاکٹر، انجینئر، ایڈوکیٹ، پروفیسر، ٹیچر جیسا تعلیم یافتہ طبقہ رہنے آیا ہے۔ یہاں ایک بہتر معاشرہ تشکیل پانے لگا ہے، لیکن انہی کے درمیان کئی غیر قانونی تعمیرات بھی ہورہی ہیں جنہیں ’جی پی‘ (گرام پنچایت) کا فریب دے کر تعمیر کیاجارہا ہے۔ چونکہ یہ عمارتیں ٹی ایم سی سے منظور نہیں ہوتیں ، یہاں مکان سستے داموں مل جاتا ہے۔ ان میں کچھ ’الگ ‘ قسم کے لوگ رہتے ہیں، اس طرح نیا ممبرا اور پرانے شہر کی بآسانی تفریق کی جاسکتی ہے۔ گویا نیا ممبرا اچھے اور برے معاشرے کا عکس پیش کرتا ہے۔ فیضان بتاتے ہیں کہ چونکہ ممبرا مین روڈکی دونوں جانب پہاڑی اور کھاڑی کے درمیان آباد ہوتا گیا ہے اسی لئے چھٹی کے دن سڑک پر بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ جب تک کوئی اور متوازی روڈ نہیں بن جاتا یہ مسئلہ یوں ہی برقرار رہے گا۔ لہٰذا میونسپل کارپوریشن اور ریاستی حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہئے۔
ممبرا کے امرت نگر میں رہنے والے شمشیر خان بائیکلہ میں چپل کا کارخانہ چلاتے ہیں۔ وہ روزانہ ممبرا سے بائیکلہ آمد ورفت کرتے ہیں، انہوں نے کئی دشواریوں کا ذکر کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’مَیں پریشانی ا ٹھا کر ممبئی جاتا ہوں اور پریشانی برداشت کرتے ہوئے گھر لوٹتاہوں۔ کارخانہ جانے کا وقت اور شہر میں ( دوپہر کو) اسکول چھوٹنے کا وقت ایک ہی ہوتا ہے۔ اس لئے رکشا ملنے میں دقت پیش آتی ہے۔ رات میں ممبرا ریلوے اسٹیشن سے امرت نگر آنے کیلئے آٹو رکشا کی مارا ماری ہوتی ہے۔ اگر یکے بعد دیگرے ۳؍ تا ۴؍ ٹرینیں ممبرا پہنچ جائے تو آٹو رکشا اسٹینڈ خالی نظر آتا ہے اور اسٹینڈ کے باہر جو آٹو رکشاوالے کھڑے ہوتے ہیں وہ دوستی، ایم ایم ویلی، شیل پھاٹا وغیرہ ہی جاتے ہیں ، قریبی فاصلے کے مسافروں کو اہمیت نہیں دیتے۔ ‘‘تعلیمی نظام کے تعلق سے شمشیر خان بتاتے ہیں کہ اکثر اسکول اور کالج مہنگی فیس وصول کرتے ہیں مگر معیاری تعلیم نہیں دیتے۔ حالانکہ میونسپل اسپتال شروع کر دیا گیا ہے۔ ‘‘
اس ضمن میں رومانی عبدالغفور( کانگریس کے تھانے شہرضلع نائب صدر) سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ممبرا کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تعریف کی۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ اگر یہاں کا سرکاری محکمہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے لگے تو نظام بہتر ہو جائے گا۔ تب ہر طرح کی برائیوں اور جرائم پر آسانی سے قابو پایا جاسکے گا۔ مثال کے طور پر کلوا اور تھانے میں دکانیں رات ۱۰؍ بجے بند ہو جاتی ہیں لیکن ممبرا میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ بے اصولی نئی نسل کو خراب کرنے کا سبب بنتی ہے۔ جس طرح ہم مساجد میں محبت سے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں کاش وہی انداز ہم باہر بھی اپنائیں تو ایک بہترین سماج تشکیل پاسکتا ہے۔
ممبرا میں برسوں سے رہنے والے معمر شہری فاروق راؤت بتاتے ہیں کہ محفوظ مقام کے طور پر ممبرا کوسہ تیزی سے آباد ہوا اور ہو رہا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہاں پر سماج کو بہتربنانے میں سرگرم اساتذہ بھی ہیں جو حقیقی معنوں میں قوم کے معمار ہیں اور حال ہی میں کوسہ میونسپل اسکول کے پیچھے ایک اردو لائبریری بھی شروع کی گئی ہے۔ ایسے اساتذہ کی ہمت افزائی کیلئے مقامی افراد کو کچھ کرنا چاہئے۔ کمیوں کے تعلق سے فاروق راؤت کا کہنا تھا کہ یہاں میونسپل کارپوریشن اور ٹریفک پولیس کی بدنظمی کے سبب اکثر شہر میں ٹریفک جام کا مسئلہ پیدا ہو تا ہے۔ اگر کارپوریشن سڑکوں سے ہاکروں کو ٹھیلہ لگانے سے روکے اور شملہ پارک جہاں پر ایم ایم ویلی کی جانب اور شیل پھاٹا کی جانب جانے والا ٹریفک بیک وقت نکل کر سڑک پر جام لگنے کا سبب بنتا ہے وہاں کوئی ٹریفک اہلکار نہیں ہوتا۔ ۔ اسی طرح شام کے وقت امرت نگر سے تنور نگر اور کوسہ قبرستان تک ہاکرس سڑک پر اپنا ٹھیلہ لگا لیتے ہیں او رایک دو اور کبھی کبھی ۳؍اور ۴؍لین تک ان کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ اس سے آمد ورفت میں شدید دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔