• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دانشورعہدنامہ ٔ قدیم کے ایک پیامبر کی طرح ہوتا ہے

Updated: May 26, 2024, 12:09 PM IST | Edward Said | Mumbai

اس کی طرح کوئی دوسرا نہ سوال کرنا چاہتا ہے اور نہ کوئی دوسرا اسے جواب دینا چاہتا ہے۔ دانشور کسی شخص کا نہیں بلکہ زندگی کی طرف ایک رویے کا نام ہوتا ہے۔

We must have the ability to extract truth from the conflicting, conflicting and overwhelming contemporary media. Photo: INN
ہم میں متضاد، متصادم اور حاوی ہوجانے والے عصری وسائل ترسیل سے سچائی کو نچوڑ لینے کی صلاحیت ضرور ہونی چاہئے۔ تصویر : آئی این این

مدتوں سے میرا یہ خیال رہا ہے کہ دانشوروں کا کام ہلچل پیدا کرنا، سوالات کرنا اور وہ باتیں اٹھانا ہے جو کوئی اور نہیں کہے گا۔ ان میں جرأت ہونی چاہئے کہ ان تسلیم شدہ اور جانی بوجھی باتوں سے آگے جائیں جن کو مان کر ہم میں سے زیادہ تر لوگ ان ہی کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ امریکہ کے عظیم ماہر سماجیات سی رائٹ مِل نے کہا ہے: ’’آزاددانشور ان چند بچی کھچی شخصیتوں میں سے ہے جو فرسودگی اور جس کے نتیجے میں سچی جاندار چیزوں کی موت کے خلاف لڑنے کے تمام ساز و سامان سے آراستہ ہیں۔‘‘
تازگی ٔ خیال کا تقاضا ہے کہ ایسی صلاحیت ہو جو عقل و نگاہ کی فرسودگی کو بے نقاب اور برباد کرتی رہے جو ہم پر یلغار کرتی رہے۔ کبھی کبھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم خبروں کے ایک سمندر میں ڈوبے چلے جارہے ہیں جو کبھی تو متضاد ہوتی ہیں اور زیادہ تر ان میں محض تکرار ہی تکرار ہوتی ہے ۔ یہ فنون عامہ اور خیالات ِ عامہ کی دنیائیں سیاست اور مفادات کے مطابق بنتی چلی جارہی ہیں ۔ اخبارات، دنیا کے ہر ملک کے سرکاری بیانات، ٹیلی ویژن کے اشتہارات اور خبریں، غرض کہ سارا عوامی ترسیل کا نظام ہمیشہ ان لوگوں کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے جو ان خبروں کو جنم دینے والے ہوتے ہیں (یعنی طبقہ ٔاقتدار)۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو اپنے ذہنوں میں یہ بات بالکل صاف کرلینی چاہئے کہ اب یہاں غیرجانبدارانہ رائے جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ 
 ساری رائیں کسی نہ کسی مخصوص نقطۂ نظر کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ اسی بناء پر مِل کہتا ہے کہ ’’یہ سیاست ہی کی دنیا ہے جہاں ذہنی اتحاد اور ساری کوششوں کو لازماً مجتمع ہونا چاہئے۔ ‘‘ مزید برآں اگر کوئی سوچنے والا خود کو سیاسی جدوجہد میں حق گوئی کی قدر سے وابستہ نہ کرے تو اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ زندگی کے پورے تجربے کے ساتھ ذمے دارانہ طور پر نباہ کرسکے۔ ہم میں متضاد، متصادم اور حاوی ہوجانے والے عصری وسائل ترسیل سے سچائی کو نچوڑ لینے کی صلاحیت ضرور ہونی چاہئے اور صرف وسائل ترسیل ہی نہیں بلکہ اس پوری دنیا کو بھی جس سے ہمارا سابقہ ہے، اسی طرح برتنا چاہئے۔ 
ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ ان خیالات پر بھروسہ کرتی ہے جو اس نے اوروں سے پائے ہیں ہیں ۔ (وہ کہتے ہیں ) ’’ہمارا یہی طریقہ ہے، یہی تو ہوتا آیا ہے، ان ہی سب باتوں کے مطابق ہمیں بھی رہنا چاہئے‘‘ اور میرے نزدیک تو دانشور کا رول یہ ہے کہ مدتوں سے قائم رہنے والی باتوں کے بارے میں سوال کرے۔ جن لوگو ں کے پاس اختیار ہے انہیں چیلنج کرے، خبروں کی سطح پر جو کچھ نظر آتا ہے اس کی تہہ میں اترے، حکومت کی رپورٹوں کی گہرائیوں میں جائے اور جو کچھ اسے علم اور اختیار کے نام پر دیا جاتا ہے اس کی سطح کو بھی پار کرکے اندر دیکھے۔ غرض یہ کہ یہ سارا عمل طالب علمی کے وقت سے ہی شروع ہوتا ہے اور جب وہ ایک سماج کا ایک شہری بن جاتا ہے تو یہی عمل جاری رہنا اور یہی سب کچھ کرتے رہنا ہی سچائی سے آشنا ہوتا ہے۔ 
  سب سے پہلے تو ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ کیا ہر شخص دانشور کہلانے کا مستحق ہے یا یہ صرف چند لوگوں ہی کی میراث ہے؟ اٹلی کا عظیم مارکسسٹ گرامچی جو بیسویں صدی کا وہ پہلا مفکر تھا جس نے دانشوروں کے بارے میں لکھا، کہا تھا کہ ہر انسان ایک دانشور ہے کہ اس کے پاس عقل ہوتی ہے۔ مگر ہر شخص سماج میں دانشورانہ کام انجام نہیں دیتا ۔ ایک دوسرا یورپی مفکر جولین بینڈا نے، جو بائیں بازو سے تعلق رکھتا ہے، ۱۹۲۰ کے عشرے کے آخر میں ’دانشور کی غداری‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے کہا کہ دانشور تعداد میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں کیونکہ اصل دانشور تو وہی ہے جو ایک طرح کا Outsider (باہری، اجنبی) ہوتا ہے، جو سوالات کرتا ہے اور مانی ہوئی باتوں کو کچھ اس طرح چیلنج کرتا ہے جس طرح اس سے پہلے کسی نے نہ کیا ہوا۔ 
  چنانچہ دانشور دراصل عہدنامۂ قدیم کے ایک پیامبر کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی طرح کوئی دوسرا نہ سوال کرنا چاہتا ہے اور نہ کوئی دوسرا اسے جواب دینا چاہتا ہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ دانشور کسی شخص کا نہیں بلکہ زندگی کی طرف ایک رویے کا نام ہوتا ہے۔ وہ سب نفس نفیس زندگی کی ایک خاص نوعیت کی نمائندگی کرتا ہے، وہ خود ایک سوال ہے، وہ ایک قوت ہے، اور جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں اسے سب سے زیادہ دلچسپی سچائی کے اظہار سے ہے۔ جن چیزوں کو دوسرے لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے انہیں اسی طرح قبول کرلیتے ہیں جیسی کہ وہ پاتے ہیں ۔ دانشور ان کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

(۱۹۹۷ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دورے پر دیئے گئے خطاب سے کچھ باتیں ) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK