• Wed, 05 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’فرسٹ کاپی‘ فراہم کرنے والا ’سیکنڈ ہینڈ‘ لگژری مارکیٹ

Updated: January 06, 2025, 4:08 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

کنسلٹنگ فرم ’بین‘ کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ ۲؍ برسوں میں لگژری برانڈز کے تقریباً ۵۰؍ ملین (۵؍ کروڑ) صارفین کم ہوگئے ہیں۔ دریں اثناء، ’’سیکنڈ ہینڈ‘‘ مصنوعات کا بازار تیزی سے وسیع ہورہا ہے۔

Out of India`s 143 crore population, only 6 crore people can afford luxury products. Photo: INN
ہندوستان کی ۱۴۳؍ کروڑ کی آبادی میں سے صرف ۶؍ کروڑ افراد ایسے ہیں جو لگژری مصنوعات خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

 ایک ہفتے قبل گولڈ مین ساخس کی رپورٹ میں حیرت انگیز اعدادوشمار پیش کئے گئے تھے۔ اس کے مطابق ہندوستان کی ۱۴۳؍ کروڑ کی آبادی میں سے صرف ۶؍ کروڑ افراد ایسے ہیں جو روزمرہ کی بنیاد پر لگژری (پُرتعیش) مصنوعات استعمال کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی معیشت میں لگژری برانڈز کا فیصد بہت کم ہے۔ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں یہ ۱۷ء۶۷؍ بلین ڈالر کا اشتراک کرتی ہے۔ماہرین کا اندازہ ہے کہ ۲۰۳۰ء تک یہ مارکیٹ ۲۰۰؍ بلین ڈالر تک بڑھ سکتا ہے کیونکہ یہ سالانہ ۳ء۱۷؍ فیصد کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔
 لوئی ویتون، گوچّی، ڈیئور، شینل، ایلن سولی، ارمانی، ہرمز، بربری، لوئی فلپ، پراڈا، ورساچی، فیب انڈیا، کوچ، پیٹر انگلینڈ، ریمنڈ، رولیکس، بیبا، ادیداس اور فلائنگ مشین جیسے لگژری برانڈز ہندوستانیوں میں مقبول ہیں جو ملبوسات، فیشن کے لوازمات، گھڑیاں اور زیورات وغیرہ فروخت کرتے ہیں۔ جہاں امریکہ، برطانیہ، کنیڈا، اور یورپ کے بعض ترقی یافتہ ممالک میں لگژری برانڈ کے صارف کم ہوئے ہیں، وہیں ہندوستان، چین، ہنگری، برازیل اور ملائیشیاجیسے ترقی پذیر ممالک میں ان کے گاہکوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھ رہی لیکن عالمی سطح پر صارفین کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ گزشتہ ۳۰؍ سال میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب لگژری مارکیٹ کے صارف کا گراف تنزلی کا شکار ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: شام: حکومت کے سامنے عوام کی بکھری زندگیوں کی تعمیر نو کا چیلنج، طبی نظام بھی توجہ کا محتاج

لگژری مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ ’’اَپر مڈل کلاس‘‘ (یو ایم سی) کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائیں۔ چونکہ امیر افراد پہلے ہی ان کے گاہک ہیں اس لئے وہ مختلف رعایتوں کے ذریعے یو ایم سی کو رجھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ گزشتہ ۳؍ عشرے میں اشیاء کی قیمتوں میں اچانک اضافہ نہیں ہوا تھا، اسلئے یہ مارکیٹ وسیع ہوتا جارہا تھا لیکن چھوٹی بڑی تمام مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک اضافہ نے صارفین کو لگژری چیزوں پر خرچ کرنے سے روک دیا ہے۔ کووڈ ۱۹؍ کے دوران ہر شہری اپنی آمدنی کو سوچ سمجھ کر صرف کرنے کی ضرورت سے واقف ہوا ہے۔ کورونا وائرس کے سبب عالمی سطح پر افراط زر میں اضافہ ہوا اور شہری نہیں چاہتے ہیں کہ ان کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ یونہی ضائع ہوجائے اس لئے لگژری اشیاء خریدنے والے افراد نے اپنی ضرورتوں کے تحت ہی شاپنگ کو معمول بنالیا۔ 
 اس کا اثر یہ بھی ہورہا ہے کہ لگژری برانڈ نہ صرف اپنے گاہک کھوتے جا رہے ہیں بلکہ ان کی اشیاء بھی کم فروخت ہورہی ہیں۔ بین کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امسال لگژری اشیاء کی فروخت ۲۰۲۲ء کے مقابلے میں ۲۰؍ سے ۲۵؍ فیصد کم ہوگی۔ ۲۰۲۰ء کے مقابلے میں لگژری مصنوعات کی قیمتوں میں کم و بیش ۵۱؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ لگژری برانڈز اپنی مینوفیکچرنگ اور ڈیزائنر اسٹورز اور ان کی دیکھ ریکھ پر ہر سال خطیر رقم خرچ کرتے ہیں جس کے سبب ان کا خرچ بڑھتا ہے اور اس کا اثر اشیاء کی قیمتوں پر نظر آتا ہے۔’’سیکنڈ ہینڈ‘‘ مارکیٹ نے بھی لگژری برانڈز کی فروخت کو متاثر کیا ہے۔ ’’سیکنڈ ہینڈ‘‘ مارکیٹ یعنی ایسا بازار جس میں مہنگی اشیاء کم قیمتوں میں مل جائیں۔ ان بازاروں میں برانڈیڈ مصنوعات کی ’’فرسٹ کاپی‘‘ (ہوبہو نقل) کم قیمت میں مل جاتی ہے۔ علاوہ ازیں، بہت سے صارف اپنی لگژری اشیاء سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ میں فروخت کردیتے ہیں جو کم قیمتوں میں دیگر افراد خرید لیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کی کوالیٹی نہایت عمدہ ہوتی ہے اس لئے لگژری مصنوعات ایک سے دوسرے گاہک کے درمیان سفر کرتی رہتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لگژری مصنوعات کے مارکیٹ سے سیکنڈ ہینڈ لگژری گڈز مارکیٹ تقریباً ۱۰؍ بلین ڈالر ( ۳۷ء۲؍ بلین ڈالر) بڑا ہے، اور یہ اوریجنل مارکیٹ سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ 
 ہندوستان میں لگژری اشیاء خریدنے کا باقاعدہ مارکیٹ یا کوئی مال نہیں ہے اسلئے ایسے افراد جو دیگر ممالک کا سفر کرکے مہنگی اشیاء خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں، وہ بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔ مشرقی دنیا ہو یا مغربی، سبھی کیلئے دبئی مال دنیا کا سب سے بڑا لگژری مارکیٹ ہے جہاں سالانہ ہزاروں کروڑوں روپوں کا کاروبار ہوتا ہے۔ دبئی مال کا خالص منافع ۵۸۱؍ ملین درہم ہے جبکہ یہاں امیر افراد کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ دنیا کا ہر لگژری برانڈ اس مال کا حصہ ہے جہاں اصل سے کم قیمت میں مصنوعات ملتی ہیں۔ اور یہاں کی مصنوعات محض کچھ دنوں یا مہینوں میں سیکنڈ ہینڈ لگژری مارکیٹ میں نصف سے کم قیمتوں  میں دستیاب ہوتی ہیں۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ لگژری برانڈز کا مارکیٹ آئندہ چند برسوں میں مستحکم ہوگا یا کمزور!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK