• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افریقی ادب (موزمبیق) سے ایک کہانی ایک ہی کوکھ

Updated: December 10, 2023, 12:30 PM IST | Muhammad Faisal | Mumbai

ان دنوں میرے دادا مجھے ساتھ لئے دریا کی جانب چل پڑتے اور اپنی چھوٹی سی کشتی جسے وہ کونچو کہتے تھے میں مجھے بھی بٹھا لیتے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ان دنوں میرے دادا مجھے ساتھ لئے دریا کی جانب چل پڑتے اور اپنی چھوٹی سی کشتی جسے وہ کونچو کہتے تھے میں مجھے بھی بٹھا لیتے۔ وہ بہت آہستگی سے چپو چلاتے، چپو شاید ہی لہروں سے ٹکراتے، مجھے تو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ پانی کے اوپر ہی انہیں حرکت دے رہے ہیں ۔ چھوٹی سی کشتی اچھلتی، ڈولتی، لہروں میں پھنسی، دریا میں تنہا، اور اسے دیکھ کر خیال گزرتا کہ جیسے کسی گرجانے والے درخت کا تنا تیر رہا ہے۔
آپ دونوں کہاں جارہے ہیں ؟
میرا یوں جانا ماں کیلئے اذیت کا باعث تھا۔ دادا مسکرا کر رہ جاتے۔ ان کے جبڑوں میں دانت بہت معنی خیز حیثیت کے حامل تھے۔ دادا ان افراد میں شامل تھے جو سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش رہتے اور کچھ نہ بول کر بھی گفتگو کرتے تھے۔ وہ صرف اتنا کہتے:
ہم ابھی واپس آجائیں گے۔
مجھے بھی علم نہ تھا کہ وہ کس کا پیچھا کررہے ہیں ۔ مچھلی پکڑنا تو ان کی فہرست میں شامل نہ تھا۔ جال اپنی جگہ پڑا رہتا اور میں اسے کشن کی طرح استعمال کرلیتا۔ یہ تو ان کا پکا معمول تھا کہ جیسے ہی دن کا آغاز ہوتا، وہ میرے بازو کو مضبوطی سے تھامتے اور دریا کی جانب لے چلتے۔ وہ مجھے کسی نابینا کی طرح پکڑتے۔ بالکل اسی طرح، وہ میری راہ نمائی کرتے اور ہمیشہ ایک قدم آگے رہتے۔ مجھے ان کی سیدھی کمر اور دبلے مگر مضبوط جسم کو دیکھ کر حیرانی ہوتی۔
دادا عمر کے اس حصے میں تھے جہاں ان کا بچپنا واپس آچکا تھا، وہ بھرپور زندگی گزارنے کے بعد بھی اس کی رنگا رنگیوں سے حظ اٹھاتے ہیں ۔ ہم کشتی پر سوار ہوتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے ہمارے قدموں سے کسی ڈھول پر تھاپ لگ رہی ہو۔کشتی کو کھینچا جاتااور خوابوں میں ڈبو دیا جاتا۔ چپو چلانےسے قبل دادا ایک طرف جھکتے اور دونوں ہتھیلیوں میں پانی جمع کرتے۔ میں ان کی نقل اتارتا۔
’’ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا! پانی کے ساتھ چلو۔‘‘ یہ ان کی طرف سے ایک مستقل تنبیہ تھی۔ بہائو کے مخالف لہر سے پانی اکٹھا کرنا بدقسمتی لاتا ہے۔ بہائو میں بہنے والی روحوں سے اختلاف نہیں کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ہمارا سفر شروع ہوتا تھا اور ہم اس وسیع جھیل میں پہنچ جاتے جہاں یہ چھوٹا سا دریا آکر ملتا تھا۔ یہ ممنوعہ مخلوق کی کائنات تھی۔ جو کچھ بھی یہاں دکھائی دیتا تھا ، سب انہی کی تخلیق تھی۔ اس جگہ زمین اور آسمان کی حدود ختم ہو جاتی تھیں ۔ اس شور بھرے سناٹے میں ، کنول کے پھولوں کے درمیان،ہمارے علاوہ اور کوئی نہ ہوتا۔ ہماری چھوٹی سی کشتی آہستگی بلکہ نیم غنودگی سے بہتی رہتی۔ ہمارے چاروں طرف سرد ہوا ہوتی، روشنی سایوں میں ڈھل جاتی اور یوں محسوس ہوتا جیسے دن ہوتے ہی یہاں خوابیدگی طاری ہوجاتی ہے۔ ہم یہاں اس طرح اطمینان سے بیٹھتے جیسے عبادت کررہے ہوں اور یہ پورا منظر مکمل ہو جائے۔
تب اچانک داداکونچو میں کھڑے ہوجاتے، اس طرح کھڑے ہونے سے کشتی الٹتے الٹتے بچتی۔ دادا جوش و جذبے سے ہاتھ ہلاتے۔ پھر وہ ایک سرخ کپڑا اٹھاتے اور اسے تیزی سے ہلانے لگتے۔ وہ کسے اشارہ کر رہے تھے؟ شاید کسی کو بھی نہیں ۔ اس پورے وقت میں ، ایک لمحے کے لئے بھی کسی اس دنیا تو کیا کسی بھی دنیا کے کسی ذی روح کی جھلک نہ دکھائی دیتی۔ مگر دادا اپنا کام جاری رکھتے۔
’’تمہیں نظر نہیں آرہا، وہ اس کنارے کی طرف ، دھند کے اس پار؟‘‘مجھے کچھ نظر نہ آتا، مگر وہ بضد رہتے اور مکمل یکسوئی کے ساتھ اپنا شغل جاری رکھتے، کہتے: ’’وہاں نہیں ! ذرا اور غور سے وہاں دیکھو، تمہیں کوئی سفید کپڑا ہلتا دکھائی نہیں دے رہا؟‘‘
مجھے صرف دھند اور اس کے پیچھے خوف نظر آتا تھا، یہیں افق غائب ہوتا تھا۔ تھوڑ ی دیر بعد محترم بزرگ اس سراب سے باہر نکلتے اور خاموشی سے بیٹھ جاتے۔ اور پھر ہم کچھ بولے بغیر واپسی کا سفر کرتے۔ گھر پہنچنے پر والدہ سرد مہری سے ہمارا استقبال کرتیں ۔ وہ مجھے بہت سے کاموں سے منع کرنے لگتیں ۔ انہیں میرا جھیل پر جانا پسند نہیں تھا کہ وہاں بہت سے خطرات چھپے تھے۔ پہلے تو وہ دادا پر غصہ اتارتیں مگر ہماری واپسی کی خوشی میں ٹھنڈی پڑ جاتیں اور مذاقاً کہتیں : ’’تمہیں کم از کم نامسکٹو موہا کو ڈھونڈنا چاہئے تھا، اس سے شاید خوش قسمتی کا دروازہ کھل جائے…‘‘ نامسکٹو موہاایک روح تھی جو رات کو نکلتی تھی۔ یہ آدھے وجود کی مالکہ تھی، یعنی ایک ٹانگ، ایک بازو، ایک آنکھ۔ ہم بچے اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑتےمگر کبھی ایسی چیز سے سابقہ نہیں پڑا۔ دادا مذاق اڑاتےاور کہتے کہ جب وہ چھوٹے تھے تو انہوں نے موہا کو ڈھونڈ نکالا تھا۔ والدہ مجھے خبردار کرتیں کہ یہ ان کی دماغی اختراع ہےمگر مجھے دادا کی ہر بات سچ لگتی۔ ایک مرتبہ ہم جھیل پر دادا کی مقررہ رسم کا انتظار کررہے تھے۔ ہم کنارے پر تھے جہاں ہرے رنگ کا سبزہ اگا تھا۔ تبھی دادا نے کہا: ’’وہ کہتے ہیں کہ پہلا انسان یہاں پیدا ہواتھا۔‘‘
پہلا انسان؟ میرے ذہن میں تو اپنے دادا سے بوڑھا کوئی انسان ہو نہیں سکتا تھا۔ اس وقت میرے دل میں خواہش جاگی کہ میں کنارے پر جائوں اور اس سبزے پر قدم رکھوں ۔ میں کشتی کے کنارے کی طرف بڑھا تو دادا خوفناک انداز میں گرجے:’’نہیں ! ایسا کبھی نہیں کرنا۔‘‘
میں نے فوراً معافی مانگی۔
میں کشتی سے تھوڑی دیر کے لئے اترنا چاہ رہا تھا۔وہ بولے:’’اس جگہ کوئی بھی لمحہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ یہاں سے آگے ابدیت کا راج ہے۔‘‘
میں نے کشتی سے ایک قدم باہر نکال کر کنارے کو چھونا چاہا۔ پانی میں قدم ڈال کر میں نے سطح کی امید کی مگر وہاں تو کچھ نہ تھا اور میری ٹانگ پانی میں اترتی جارہی تھی گویا پاتال میں اتر رہی ہو۔ دادا فوراََ میری طرف بڑھے اور مجھے واپس کشتی میں کھینچنے لگے مگر مجھے نیچے کھینچنے والی قوت زیادہ طاقتور تھی۔ اس کھینچا تانی میں کشتی الٹ گئی اور ہم دونوں پانی میں گر پڑے۔ جھیل ہمیں نیچے کھینچ رہی تھی اور ہم دونوں کشتی کے کنارے پکڑ کر اس میں چڑھنے کی کوشش کرنے لگے۔ اچانک دادا نے جیب سے کپڑا نکالااور اپنے سر کے اوپر بلند کرکے ہلانا شروع کردیا:
’’شروع ہو جاؤ، تم بھی ہاتھ ہلاؤ…‘‘
میں نے کنارے کی طرف دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا تاہم میں نےدادا کی بات مان لی اور ہاتھ ہلانا شروع کر دیا۔ اچانک ایک حیرت ناک بات ہوئی، غیر متوقع طور پر ہمارا گہرائی کی طرف بڑھنا بند ہوگیا۔ جو بھنور ہمیں اپنے حصار میں لینے کیلئے کوشاں تھا، کہیں غائب ہوگیا۔ ہم دونوں کشتی میں سوار ہوئے اور اطمینان کی سانس لی۔ کشتی کو سیدھا کرنےکے بعد اُنہوں نے کہا: ’’آج جو کچھ ہوا، اس کے متعلق کسی سے کوئی بات نہیں کرنا، اپنے آپ سے بھی نہیں ۔‘‘
اس رات انہوں نے مجھے یہ واقعہ سمجھایا۔ میں نے پوری توجہ سے ان کی بات سنی مگر ان کی باتیں سمجھ نہ سکا، انہوں نے کم و بیش یہ کہا تھا: ’’ہماری کچھ آنکھیں ہیں جو ہمارے باطن میں کھلتی ہیں ، انہیں ہم خواب دیکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد نابینا ہوتے ہیں ، وہ اس دنیا سے آنے والے ملاقاتیوں کو نہیں دیکھ پاتے۔ اس دنیا؟ پوچھو گے نہیں ، ہاں ، وہ ملاقاتی جو دوسرے کنارے سے ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہیں ۔ اور یوں ہم ان کی مکمل اداسی کو زائل کرتے ہیں ۔ میں تمہیں وہاں اس لئے لے کر جاتا ہوں کہ شاید تم انہیں دیکھنا سیکھ پائو۔ وہاں کپڑے ہلانے والا آخری شخص مجھے نہیں ہونا چاہئے۔ میری بات سمجھے؟‘‘
میں نے جھوٹا اقرار کیا۔ اگلی دو پہر دادا مجھے دوبارہ جھیل پر لے گئے۔ وقت ضرورت سے زیادہ سست روی سے گزر رہاتھا۔ دادا بے چین ہوئے اور کشتی کے سرے پر کھڑے ہو کر ایک جانب دیکھنے لگے۔ دوسری جانب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس بار تو دادا کو بھی دھند آمیز دلدلوں کی تنہائی نظر آرہی ہوگی۔ اچانک وہ بولے:’’یہیں انتظار کرو!‘‘
اور انہوں نے کشتی سے باہر چھلانگ لگائی اور خوف سے میری سانس بند ہوگئی۔ کیا دادا اس ممنوعہ ملک میں داخل ہورہے تھے؟ ہاں ، میرے بدترین اندیشوں کے مطابق وہ مضبوط قدم اٹھاتے جارہے تھے، کشتی میرے ہلکے سے وزن سے اپنا توازن کھو رہی تھی۔ دادا دور ہوتے چلے گئے اور یہاں تک کہ دھند میں گم ہو کر کسی خواب کا حصہ بن گئے۔ ہر شے سراب نظر آرہی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے ایک بگلے کو تیزی سے کنارے کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے سہ پہر کی چادر کو چیرتا ہوا ایک تیر خون پھیلاتا جارہا ہے۔
اور پھر اس وقت اس کنارے پر، دوسری دنیا کی طرف مجھے سفید کپڑا نظر آیا۔ مجھے وہ کپڑا نظر آگیا جو میرے دادا دیکھا کرتے تھے۔ اور اگرچہ مجھے آج بھی شک ہے کہ میں نے کیا دیکھا ، مگر سفید کپڑے کے ساتھ دادا کا سرخ کپڑا بھی حرکت کرتا نظر آرہا تھا۔ میں ہچکچایامگر میں نے اپنی قمیص اتاری اور اسے ہلانے لگا۔ میں نے دیکھا کہ سرخ کپڑا سفید ہوتا جارہا ہے، اس کا سرخ رنگ دھندلاہوتا جارہا تھا۔ میری آنکھیں اتنی نم ہوئیں کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ میں کشتی کھیتے ہوئے واپسی کے طویل سفر پر روانہ ہوا تو دادا کی باتیں دماغ میں گونج رہی تھیں :
’’پانی اور وقت جڑواں بھائی ہیں ، دونوں ایک ہی کوکھ سے جنمے ہیں۔‘‘
میں نے اپنے وجود میں ایک دریادریافت کیا ہے جو کبھی خشک نہیں ہو گا۔ یہ وہ دریا ہے جس میں اب میں بار بار آتا ہوں ، اپنے بیٹے کی رہنمائی کرتا ہوں ، اور اسے دوسرے کنارے پرسے سفید کپڑے کی جھلک ڈھونڈنا سکھارہا ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK