• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اپوزیشن کی مضبوطی کا ثبوت، اراکین کو باہر بھیجنےکے بجائے چیئرمین اب خود باہر چلے جاتے ہیں

Updated: August 12, 2024, 5:48 PM IST | NK Singh | Mumbai

راہل گاندھی‘ یا وہ راہل گاندھی جو ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد ایک نئے اوتار میں آئے ہیں، بی جے پی کی دُکھتی رگوں پر اتنا شدید ضرب لگائیں گے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ جیسے ’جنگجو‘ بھی اسےجھیل نہ پائیں۔

The people have given power to the opposition this time, the government cannot silence it even if it wants to. Photo: INN
عوام نے اس مرتبہ اپوزیشن کو طاقت دی ہے، حکومت اسے چاہ کر بھی خاموش نہیں کراسکتی۔ تصویر : آئی این این

کسی نےبھی نہیں سوچا ہوگا کہ نئے ’راہل گاندھی‘ یا وہ راہل گاندھی جو ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے بعد ایک نئے اوتار میں آئے ہیں، بی جے پی کی دُکھتی رگوں پر اتنا شدید ضرب لگائیں گے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ جیسے ’جنگجو‘ بھی اسےجھیل نہ پائیں۔ انتخابی نتائج اور پارلیمانی کیمسٹری میں تبدیلی نے نہ صرف وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بلکہ اسپیکر کو بھی حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ نئی پارلیمنٹ میں پچھلی لوک سبھا کے مقابلے اپوزیشن کے لیڈران زیادہ متحد انداز میں حکمراں جماعت کی من مانی کا جواب دے رہے ہیں۔ 
اپوزیشن کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ایوان کے چیئرمین کو یہ الزام لگا کر خود ہی واک آؤٹ کر نا پڑا کہ ’’کرسی کی توہین کی جا رہی ہے۔ ‘‘کچھ ہی ماہ پہلے یہی دونوں ایوان تھے، یہی چیئرمین اور یہی اسپیکر تھے، جب کم تعداد میں اور آپس میں منقسم اپوزیشن کو بل پاس کرانے کے دوران باہر نکال دیا کرتے تھے۔ ایوان میں حقارت بھرے انداز میں بائیں ہاتھ کے اشارے سے اپوزیشن کے اراکین کو’چپ بیٹھو‘ کی ڈانٹ اب صدر نشیں دیتے بھی ہیں تو اپوزیشن کے پچاسوں اراکین ’پہلے انہیں چپ کراؤ‘ کہہ کر ان کی ایمانداری پرسوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اپوزیشن کو ایوان میں ’جگہ‘ ملنے لگی ہے۔ 
 لیکن جو چیز مودی کو پریشان کر رہی ہے، وہ ہے راہل گاندھی کا اپنے طنزیہ انداز میں وزیراعظم کو بے نقاب کرنا۔ راہل کی طرف سے ’مودی جی بایولوجیکل نہیں ہیں، ان کی تو بھگوان سے براہ راست گفتگو ہوتی ہے‘ کا جملہ چہرے پر ہنسی لائے بغیر پارلیمنٹ میں کہنا، سامنے بیٹھے مودی کی اوچھی سیاست کی کئی پرتیں ایک ساتھ کھولتا ہے۔ انتخابات سے پہلے مودی کی کوشش تھی کہ عادتاً راجا میں ’بھگوان کا عکس‘ دیکھنے والے عوام انہیں بھی بھگوان کا درجہ دے کر بے روزگاری، مہنگائی اور فرقہ پرستی کو بھگوان کا پرساد مان کر قبول کرلے اورانہیں ایک بار پھر ووٹ دے دے۔ اسی اسکیم کے تحت مودی نے۲۰۱۴ء کے انتخابات میں ’’گنگا نے بلایا ہے‘‘ کو دس سال بعد۲۰۲۴ء کے انتخابات میں ’’ گنگا ماں نے مجھے گود لیا ہے‘‘ کو پختہ کرنے کی ناکام کوشش مودی نے کی، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جمہوریت اور بادشاہت میں اتنا توفرق ہے کہ بھگوان کو بھی عوام سچائی کے ترازو پر تولتے ہیں۔ اگر کسی کا بیٹا بے روزگار ہے یا اس کی روزی روٹی کا ذریعہ ختم ہو گیا ہے تو نریندر مودی کی ’ سنہری انڈیا‘کی بار بار کی رٹ سے بھی اسے غصہ آنے لگتا ہے۔ 
 سچائی سے بڑا کوئی انفلوئنسر نہیں ہوتا، لیکن یہ بذات خود جگہ اور وقت کے ساتھ طے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کس کی، کب، کتنی اور کس قسم کی سچائی سیاسی جماعتوں کو اپنی سچائی سے عوام پر اثر انداز ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم وی ایچ پی نے۱۹۸۴ء میں ہندوؤں کے سب سے زیادہ قابل احترام رام مندرکیلئے تحریک شروع کی تھی۔ اُس وقت کی حکومت پر اس نے ’مسلمانوں کی تشٹی کرن‘کا الزام لگایا تھا، جسے بی جے پی نے۱۹۸۹ءکے اپنے پالن پور کے منشور میں اپنالیا تھا۔ بی جے پی کو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جو ہر الیکشن میں اس کے مقابل کو چاروں شانے چت کردیا کرے گا۔ 
 مودی کے دور اقتدار میں ان کے کامیاب اقدامات میں مندر کی تعمیر، دفعہ۳۷۰؍ کو ہٹانا اور تین طلاق کا خاتمہ خاص ہے۔ ریاستی سطح پر حکمرانی کو چند منتخب واقعات میں عدالت سے ہٹ کر ’’بلڈوزر انصاف‘‘ تک لے جانا بھی اسی ’کامیاب حکمت عملی‘ کا حصہ ہے۔ تازہ ترین معاملے میں مسلمانوں کے مسائل پر حکومت کی مداخلت کے تحت پارلیمنٹ میں پیش کردہ وقف ایکٹ ہے جس کی دفعات میں یہ اہم شق بھی شامل ہے کہ بورڈ میں ہندوؤں کو شامل کیا جانا چاہئے۔ یہ ایک طرح سے غیر اعلانیہ ہندو راشٹر کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔ 
 پالن پور کے انتخابی منشور کے جواب کے طور پروی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرکےبی جے پی کے ’’ہندوتوا مارچ‘‘ کو روک دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ۸۰؍ فیصد ہندو آبادی والے ملک میں ایک بار پھر پسماندہ اور اعلیٰ طبقے کی کشمکش کا معاملہ ابھرگیا۔ سماجی انصاف کے نام پر ذات پات کی جماعتیں ابھریں لیکن ذات کا معاملہ بھی بی جے پی کے نئے جارحانہ ہندوتوا کو کمزور نہیں کر سکا۔ مودی دور کی بی جے پی رفتہ رفتہ مضبوط ہوتی چلی گئی۔  پھر اچانک، بہار میں لالو (تیجسوی یادو) نتیش کی حکومت کی سرپرستی میں ذات پر مبنی مردم شماری اور اس سے اٹھنے والے ’تعداد کے مطابق ریزرویشن‘ کے مطالبے نے دلتوں، پسماندہ طبقات اور مسلمانوں میں ایک نئی خواہش پیدا کر دی۔ یہ تعداد پورے ملک کی۷۳؍ فیصد آبادی ہوتی ہے۔ 
 ایسے وقت میں راہل گاندھی کی پشت پناہی میں کانگریس نے ایک قومی پارٹی کے طور پر اس معاملے کو اٹھالیا۔ اس طبقے نے بھی ’نئے‘ اور’دلیر‘ راہل گاندھی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے بھی یہ نہیں دیکھا کہ ملک میں کل ملازمتوں کا صرف ۲ء۸؍ فیصد ہی سرکاری ملازمتیں ہیں، جسے اونٹ کے منہ میں زیرہ کہا جاسکتاہے۔ اب راہل گاندھی جب جب بھی ان کیلئے ’جس کی جتنی آبادی، اس کی اتنی حصہ داری‘ کا نعرہ پارلیمنٹ میں، سڑک پر، موچی کے یہاں جوتے سلائی کرتے ہوئے یا کسان کا ٹریکٹر چلاتے ہوئے بلند کرتے ہیں تو بی جے پی کیلئے اس کا جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ 
  مودی کے ’ بھگوان‘ بننے کی قلعی کو راہل گاندھی دن میں تقریباً تین بار کی شرح سے اُتار رہے ہیں اور وہ بھی اپنے خام اور غیرواضح انداز میں جو جزوی نقالی اور جزوی طنز کی شکل میں ہوتا ہے۔ شایدیہی مودی کے ’دیدی اودیدی‘ کے ڈرامائی انداز کا صحیح اور مناسب ’جواب‘ ہے۔ 

(مضمون نگار سینئر صحافی اوربراڈکاسٹ ایڈیٹرز اسوسی ایشن کے سابق جنرل سکریٹری ہیں )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK