اس کھیل کا مقصد ریاست کی موجودہ حکومت کو کمزور کرنا ہے ۔کورونا کے اس نازک دور میں بی جے پی نے مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ حکومت کو جس طرح اقتدار سے بے دخل کیا اور راجستھان میںجو کھیل کھیلا، اب وہی کچھ مہاراشٹرمیں بھی کر نا چاہتی ہے۔ حالانکہ راجستھان میں اسے جس طرح منہ کی کھانی پڑی، اس کے بعد اسے مہاراشٹر میں ایک منتخب شدہ حکومت کے خلاف اس طرح کی کوششوں سے باز آ جانا چاہئے
کنگنا رناوت ۔ تصویر : آئی این این
فلمی اداکار سشانت سنگھ کی پر اسرار موت کی سچائی جاننے کے عمل میں فلمی دنیا، سیاست اور میڈیا کا جو کھیل گزشتہ تقریباً دو مہینوں سے جاری ہے وہ بھی کسی بالی ووڈ فلم کی کہانی سے کم نہیں ہے ۔ اس کھیل میں اب اداکار کی موت کی سچائی جاننے کا بنیادی مقصد کہیں پیچھے چھوٹ گیا ہے اور جن نئی باتوں کا اضافہ روز بہ روز اس کھیل میں ہو رہا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سشانت سنگھ کی مبینہ خود کشی کے معاملے میں ریاستی حکومت کی کارکردگی کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور اس بہانے ٹھاکرے حکومت کو کمزور کرنے کا سیاسی کھیل چل رہا ہے ۔ اس کھیل میں فلمی دنیا سے وابستہ کچھ ایسی شخصیات بھی شامل ہیں جو نام نہاددیش بھکتی کے نام پر ریاست میں اس زعفرانی پروپیگنڈہ کو ہوا دے رہی ہیں جس کے مطابق اس وقت ملک میں صرف بی جے پی ہی ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے جووطن سے محبت اور عوام سے ہمدردی رکھنے کی سچی دعویدارہے۔ اس پروپیگنڈے کو وہ میڈیا ادارے بھی ہوا دے رہے ہیں جو بہر صورت بی جے پی کا گن گان کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس ریاست میں اب صورتحال یہ ہے کہ فلم ، سیاست اور میڈیا سے وابستہ بعض افراد ہر ممکنہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ریاستی حکومت کوایک کمزور اور عوامی مسائل و مفاد کے تئیں غیر سنجیدہ حکومت کے طور پر پیش کیا جائے اور بالآخر اس کھیل کو اس انجام تک پہنچایا جائے جس کی کوشش گزشتہ کئی مہینوں سے بی جے پی کر رہی ہے۔اس وقت ریاست میں جو سیاسی داؤ پیچ چل رہا ہے وہ ان معنوں میں باعث افسوس ہے کہ ریاستی عوام کووڈ جیسی وبا سے مسلسل جوجھ رہی ہے اورایسے میں اگر ریاستی حکومت کو کمزور بنانے کی کوشش ہو تو اس سے ریاستی نظم و نسق کا متاثر ہونا لازمی ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسے مشکل حالات میں ایک منتخب شدہ حکومت کو کمزور بنانے کی کوششوں میں مصروف افراد خود کو سب سے بڑا دیش بھکت ہونے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں۔
اس کھیل کے پس منظر میں جاری بی جے پی کی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ بھگوا پارٹی اب بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر پا رہی ہے کہ مہاراشٹر جیسی بڑی اور اہم ریاست کا اقتدار اس کے ہاتھ سے اس طرح نکل گیا جیسے کسی کے منہ کے سامنے سے کوئی نوالہ چھین لے۔بھگوا پارٹی کو یہ امید قطعی نہیں تھی کہ جس پارٹی کے ساتھ تقریباً تین دہائیوں تک اس کا اتحاد رہا وہ اس سے اس طرح کنارہ کشی اختیار کر لے گی کہ اس کے حصول اقتدار کا خواب پورا نہیں ہو پائے گا۔بی جے پی اور شیو سینا کے اتحاد میں دراڑ پڑنے کی بڑی وجہ بھگوا پارٹی کا وہ تحکمانہ رویہ رہا جس کی بنا پر اس نے شیو سینا کی سیاسی اہمیت کو نظر انداز کر کے مہاراشٹر کی سیاسی سمت ورفتار کو اپنے دم پر چلانے کی کوشش کی۔ اس کوشش کا نتیجہ اس کی امید کے برخلاف رہا اور ریاست میں شیو سینا، کانگریس اور این سی پی کی متحدہ حکومت کے قیام کے بعد سے ہی بی جے پی اپنی کھسیاہٹ کو مٹانے کی کوششیں مسلسل کر رہی ہے۔
سشانت سنگھ کی موت کے بعد مہاراشٹر میں جو سیاسی کھیل چل رہا ہے وہ بھی دراصل بی جے پی کی ایسی ہی ایک کوشش ہے جس کے ذریعہ وہ یہ دکھانا چاہ رہی ہے کہ ریاست کی موجودہ حکومت ایسے پیچیدہ معاملات کو حل کرنے کی اہل نہیں ہے ۔ادھر گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ایک فلمی اداکارہ نے اس کھیل کو جو نیاموڑ دیا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بھگوا پارٹی فلمی دنیا سے وابستہ بعض افراد کو مہرہ بنا کر اپنا سیاسی ہدف حاصل کرنا چاہ رہی ہے۔اس سیاسی کھیل میں فلمی دنیا سے وابستہ بعض شخصیات نے جس طرح کے بیانات دئیے ہیں، وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ملک کے وقار سے وابستہ حساس موضوعات کے حوالے سے جو باتیں کہی جا رہی ہیں، ان کی موزونیت پر کوئی سوال صرف اسلئے نہیں کیا جار ہا ہے کہ ایسے لوگوں کو ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کی پشت پناہی حاصل ہے ۔کنگنا اور سنجئے راؤت کے درمیان جو لفظی جنگ گزشتہ دنوں ہوئی، اس میں جس طرح سے پی او کے ، سومناتھ مندر اور کشمیری پنڈتوں کا ذکر آیا، اس پر اداکارہ سے بجا طور پر یہ پوچھا جانا چاہئے کہ ریاستی حکومت اور ان کے درمیان جو بھی اختلافات ہیں، ان میں ایسے حساس موضوعات کا حوالہ دینا کس حد تک مناسب ہے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ اقتدار کی جی حضوری کرنے والے میڈیا نے کنگنا کے ایسے غیر موزوں بیانات کی نہ صرف حمایت کی بلکہ انھیں حق بہ جانب ٹھہرانے کی بھی کوشش کی ۔
مہاراشٹر کو پی او کے سے مشابہ قرار دینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ریاست میں مذہبی نفاق کو ہوا دی جائے ۔اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنے ذاتی خسارے کی بھرپائی کیلئےکشمیری پنڈتوں سے ہمدردی کا دکھاوا کنگنا کے ذریعہ کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر انھیں واقعی کشمیری پنڈتوں سے ہمدردی ہے تو ان کی ہمدردی کا یہ جذبہ ان کے خلاف بی ایم سی کی کارروائی سے پہلے سرد کیوں پڑا تھا؟ کشمیر اور کشمیری پنڈتوں سے اس طرح کی نام نہاد ہمدردی کا اظہار کچھ دوسرے فلمی ستاروں نے بھی اس سے قبل کیا ہے اور اس وقت بھی معاملہ ان کے ذاتی نفع و نقصان کا تھا۔ایک قوم جو کئی دہائیوں سے مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہے ،ان سے ہمدردی ظاہر کرنے کا یہ بڑا عجیب و غریب طریقہ ہے کہ جب بات اپنے ذاتی نفع و نقصان کی آئے تو اس قوم کی دہائی دی جانے لگے جو پہلے ہی سے پریشانیوں میں مبتلا ہے ۔اپنی انا کی تسکین کیلئے ایسے حساس موضوعات کا حوالہ دینے والوں سے کم از کم یہ ضرور پوچھا جانا چاہئے کہ وہ اس ملک کی سیاسی تاریخ سے کتنی واقفیت رکھتے ہیں ؟اس ملک میں صدیوں سے قائم قومی اتحاد و یکجہتی کی روایت کی اہمیت ان کی نظر میں کیا ہے؟ کوئی شخص ، خواہ وہ کتنے ہی اونچے مرتبے کا حامل کیوں نہ ہو اگر اس ملک کے سیاسی و سماجی حقائق سے وابستہ موضوعات پر غیر موزوںطریقہ سے اظہار خیال کرتا ہے تو اس کی جوابدہی طے ہونی چاہئے۔یہ دیکھا جانا بہت ضروری ہے کہ کسی شخص نے اگر کسی حساس اور پیچیدہ موضوع کا حوالہ دیا ہے تو وہ کس حد تک مناسب اور موزوں ہے؟
اس طرح کے غیر موزوں اور غیر مناسب بیانات سماجی ماحول کو آلودہ کرتے ہیں اور سماجی سطح پر باہمی اتحاد و یکجہتی کے رویہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے اہم اور حساس معاملات کو بھی پارٹی سیاست کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں پارٹی سیاست کی مداخلت سے فطری طور پر دو گروہ بن جاتے ہیں اور ایسی صورت میں اس شخص کا دفاع کرنے والے بھی سامنے آ جاتے ہیں جو ایسے حساس موضوعات کا استعمال اپنے ذاتی فائدے کیلئے کرتا ہے۔مہاراشٹر میں ان دنوں یہی کھیل چل رہا ہے اور اس کھیل کا ایک بڑا مقصد ریاست کی موجودہ حکومت کو کمزور بنانا ہے ۔کورونا کے اس نازک دور میں بی جے پی نے مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ حکومت کو جس طرح اقتدار سے بے دخل کیا اور راجستھان کی گہلوت حکومت کے خلاف جو کھیل کھیلا اب وہی کچھ مہاراشٹر حکومت کے خلاف بھی کر رہی ہے۔ حالانکہ راجستھان میں اسے جس طرح منہ کی کھانی پڑی، اس کے بعد کم از کم اسے ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور مہاراشٹر میں ایک منتخب شدہ حکومت کے خلاف اس طرح کی کوششوں سے باز آ جانا چاہئے۔
اس کھیل میں میڈیا کو بھی اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔ لیکن بعض میڈیا اداروں کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے اوروہ سشانت سنگھ کی موت کے حوالے سے جس طرح کی باتیں مشتہر کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ بھی بھگوا پارٹی کے اس انوکھے سیاسی کھیل میں برابر کے شریک ہیں۔اس وقت عوامی زندگی جس طرح کے مسائل سے دوچار ہے اس میں کسی ریاستی حکومت کے خلاف اس طرح کی کوششیں اس ریاست کے عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔ بی جے پی کو اپنے سیاسی کھیل میں اس اہم پہلو کو مد نظر رکھنا چاہیے کیونکہ اگر ایسے نازک دور میں عوام کو نظر انداز کر کے صرف اپنے سیاسی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ کسی طور سے بھی مناسب نہیں ہے۔