• Fri, 07 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سلجھا ہوا، سنبھلا ہوا، چبھتا ہوا خطاب

Updated: February 06, 2025, 7:30 PM IST | Mumbai

دوشنبہ کو لوک سبھا میں راہل گاندھی کی ۴۵؍ منٹ کی تقریر اس قابل ہے کہ اس کی ستائش کی جائے۔ قومی ذرائع ابلاغ نے اس کی رپورٹنگ میں بخل سے کام لیا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

دوشنبہ کو لوک سبھا میں راہل گاندھی کی ۴۵؍ منٹ کی تقریر اس قابل ہے کہ اس کی ستائش کی جائے۔ قومی ذرائع ابلاغ نے اس کی رپورٹنگ میں بخل سے کام لیا۔ یہ ایسا بخل ہے جو جانبداری سے کافی قریب ہے مگر دوران ِ تقریر اپنی نشستوں سے اُٹھ کر احتجاج کرنے والے ہی نہیں، خود وزیر اعظم مودی اور حکمراں اتحاد سے وابستہ دیگر اراکین اس تقریر کو نظر انداز نہیں کرسکیں گے کیونکہ اس میں ایک ایسے رکن پارلیمان کی دورِ جدید کے چیلنجز سے آگاہی اور ملک کے مستقبل کے تئیں فکرمندی جھلک رہی تھی جسے کل تک غیر سنجیدہ (نان سیریس)، جزوقتی سیاستداں، پپو اور کم عقل (بالک بدھی) قرار دیا جارہا تھا۔ یہ ایک ’’غیر سنجیدہ لیڈر‘‘ کی اتنی سنجیدہ تقریر تھی کہ اس سے حکمراں اتحاد خوفز دہ ہوا ہوگا۔ اس میں مسائل و معاملات کا محض تذکرہ تھا نہ ہی مسائل کی بنیاد پر الزام تراشی یا طعنہ زنی۔ راہل نے تقریر کی ابتداء ہی میں کہا کہ صدر جمہوریہ کے خطاب کے مشمولات وہی ہیں جو اَب سے پہلے کی تقریروں کے تھے جبکہ ضرورت تھی کہ اُن عصری چیلنجز اور تقاضوں کو ملحوظ رکھا جاتا جن سے آج کا ہندوستان نبردآزما ہے مثال کے طور پر پیداوار بالخصوص صنعتی پیداوار کی کمی، دفاعی پالیسی، دیگر ملکوں بالخصوص چین سے تجارتی تعلقات کی سمت، رفتار، ضرورت، منطق اور اس میں پائی جانے والی عاقبت اندیشی یا عاقبت نا اندیشی۔ راہل کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا اتحاد کی حکومت ہوتی تو صدر جمہوریہ کی تقریر کن نکات کی حامل ہوتی۔ صدر جمہوریہ کی تقریر پر براہ راست تنقید سے بچتے ہوئے راہل نے اظہارِ خیال کا بالکل اچھوتا طریقہ اپنایا۔ ایسے اظہارِ خیال میں راہل نے تنقید سے زیادہ مشورہ کی راہ اپنائی اور یہ بتایا کہ ہماری سرحدوں میں چینی فوج کے سپاہی ہنوز موجود ہیں جو سرحدی سالمیت کیلئے خطرہ ہے، چین سے صنعتی آلات خرید نے کا ہمارا طریقہ خو دکو مشکل میں ڈالنے جیسا ہےاور کس طرح ہمارا ڈیٹا امریکہ کے ہاتھوں میں ہے اور اشیاء کے صرف (کنزمپشن) کے معاملے میں ہم نے اپنی کمان چین کو سونپ رکھی ہے، یہ غلط طریق کار ہے جس پر نظر ثانی ضروری ہے۔ 
راہل نے بہ اندازِ دِگر تنقید کے دوران ایک آدھ جگہ ماضی کی کانگریس حکومت کی خامیوں کا بھی اعتراف کیا جس سے ظاہر تھاکہ حقائق کی بنیاد پر اُن کی تنقید کا ہدف صرف موجودہ این ڈی اے حکومت نہیں، سابقہ یو پی اے حکومت بھی ہے۔ آج کے سیاسی ماحول میں ایسی انصاف پسندی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے جس میں اوروں کے قصور گنوانے کے ساتھ ساتھ اپنے قصور کو بھی نشان زد کیا جائے۔ ایک دو جگہ انہوں نے موجودہ حکومت کی پیش رفت کو قابل ستائش قرار دیا مثلاً اُنہوں نے میک ان انڈیا کی تعریف کی مگر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکے کہ یہ اچھی پیش رفت تھی، جس پر کام بھی ہوا مگر وزیر اعظم کو اس بنیاد پر ناکام کہا جائیگا کیونکہ اس سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ میک ان انڈیا سے صنعتی فعالیت نہیں بڑھی اور ہم آج بھی بہت کچھ چین سے درآمد کررہے ہیں۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری، آئین کا تحفظ، ایس سی، ایس ٹی، اوبی سی اور اقلیتوں کے حالات، مہاراشٹر کی انتخابی فہرستوں میں مبینہ دھاندلی جیسے موضوعات چھیڑ کر راہل نے وہی کیا جو ایک بیدار مغز اپوزیشن لیڈر کو کرنا چاہئے۔ وزیر اعظم اس تقریر کا بھرپور اور مدلل جواب دے سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب سے پہلے بھی کئی سوالات پر انہوں نے خاموش رہنا پسند کیا تھا مگر کیا خاموش رہنے سے سوالات ختم ہوجائینگے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK