Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

عبدالملک مومن: تاریخِ بھیونڈی کا احیا گر

Updated: March 10, 2025, 3:29 PM IST | Amir Hamza Saqib | Mumbai

معروف ادیب و محقق عبدالملک مومن کی تازہ تحقیقی اور دستاویزی حیثیت کی حامل کتاب ’’ مشاہیرِ بھیونڈی ‘‘کاتجزیہ ملاحظہ کریں۔

Abdul Malik Momin (right) with former president of KME Society Aslam Faqih at the launch of his book. Photo: INN.
عبدالملک مومن (دائیں ) اپنی کتاب کے اجراء کے موقع پرکے ایم ای سوسائٹی کے سابق صدر اسلم فقیہ کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این۔

حضرت نظام الدین اولیاؒجب بہ صدذوق و اشتیاق خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ سے ملنے کے لئے اجودھن پہنچے تو ایک مجلس میں خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں  کسی کو خلافت دینا چاہتاتھامگر میرے دل میں القا کیا گیا کہ نظام الدین دلی سے آرہے ہیں انتظار کرو اور جب ایک مجلس میں خواجہ صاحب نے نظام الدین اولیاؒکوخلافت سونپی تو رسومات کی ادائیگی کے بعد نظام الدین اولیاؒ کے بالوں کی ایک لٹ داہنی طرف سے قطع کی، اپنا کرتا اپنے ہاتھوں  سے پہنایا اور حاضرین سے مخاطب ہوئے اورفرمایا: ’’آج میں  نے ایک ایسا درخت لگایا ہے جس میں خلقِ خدا آرام پائے گی۔ ‘‘
عبدالملک مومن صاحب کی تازہ تحقیقی اور دستاویزی حیثیت کی حامل کتاب ’’ مشاہیرِ بھیونڈی ‘‘ کا مطالعہ کرتے وقت ذہن میں یہ واقعہ اپنی پوری تفصیلات و جزئیات کے ساتھ اس لئے بھی یاد آیاکہ تقریباً پچیس برس قبل جب مجھے بلال احمد مومن صاحب کی سرپرستی میں صمدیہ جونیئر کالج میں تدریسی خدمات انجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی تو مجھے ملک مومن صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اکثر ان سے ملاقات لائبریری میں ہوا کرتی تھی۔ وہ ہمیشہ کسی گہری سوچ میں ڈوبے کسی کتاب کو تلاش کرتے ہوئے یا ورق گردانی کرتے ہوئے ہی نظر آئے۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ مگر آنکھیں  کچھ تلاش کرتی ہوئیں۔غایتِ شوق کی یہ کیفیت میرے لئے مانوس اور مسرت افزا تھی اس لئے بھی کہ ایسی متلاشی آنکھیں اپنے اندر بے پناہ جاذبیت رکھتی ہیں اور ایک سحر سا قائم کرتی ہیں۔ یاد آیا کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ جب خواجہ صاحب سے ملنے کے لیے نکلے تو جوشِ عقیدت میں  اس طرح احرام باندھا جیسے حج کے لیے باندھتے ہیں  ۔ ملک مومن صاحب مجھے ہمہ وقت حالتِ احرام اور حالتِ جذب میں دکھائی دیئے۔ 
اپنی جڑوں  سے وابستہ رہنا، اپنی مٹی کی بو باس کو سانسوں  میں  بسائے رکھناکوئی آسان کام نہیں  ہے کہ نئی زمینیں  ، نئے آسمان دعوتِ نظر دیتے ہیں  اور فرد ان کی جانب بے ارادہ کھنچا چلا جاتا ہے، مرعوب ہوتا ہے اوربہ حال مرعوبیت اپنی تہذیب کو بہ یک قلم مسترد کردیتا ہے۔ اس کی مثالیں بہ آسانی اردو زبان کی مختلف تحریکات و رجحانات میں  دیکھنے کو مل جائیں گی اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں  ہے کہ دوسروں کے تہذیبی سرمایے سے استفادہ کیا جائے البتہ اپنی تہذیبی جڑیں کاٹ کر ان سے فیض یاب ہونے کی کوشش غیر مستحسن ہی طے پاتی ہے۔ ایک دفعہ شراب کی حرمت کا بیان کرتے ہوئے حضرت عثمان ہارونی نے فرمایا کہ راہِ طریقت میں  ندی کا پانی کہ جسے پینے سے خدا کی بندگی میں سستی پیدا ہو وہ بھی عین شراب کا حکم رکھتی ہے۔ 
اپنی تہذیب سے وابستگی ملک مومن صاحب کا شیوۂ خاص ہے۔ سانسوں  کو اپنی مٹی کی بو باس سے مہکانا ملک صاحب کا بنیادی وظیفہ ہے۔ اپنے شہر اور شہر کی ہمہ جہت ترقی و خوشحالی میں حصہ لینے والے افراد کی مساعی نیک وخوش کن ان کا موضوعِ خاص رہا ہے جس کا ثبوت ان کی مرتب کردہ کتابیں ’’آئینۂ بھیونڈی ‘‘ اور ’’ بھیونڈی میں اردو ادب‘‘ بھی ہے جس میں  انھوں نے بھیونڈی کے شعراء و ادباکی کاوشوں کو مختصر نوٹ کے ساتھ یکجا کیا تاکہ شہر کی ادبی و شعری صورتحال کا خاکہ ترتیب پاسکے۔ ان کے اس تحقیقی رویے نے ان کے بالوں  کی داہنی لٹ کو قطع کیا اور انھیں خرقہ عطا کیا ہے اور ان سے ایسا درخت لگوایا ہےکہ جس کے سائے میں  اہلیانِ بھیونڈی نہ صرف آرام پائیں  گے بلکہ اس سائے کو دراز کرنے کی تمنا ان کے سینوں   میں انگڑائیاں بھی لینے لگیں  گی۔ 
مشاہیرِ بھیونڈی کی فہرست پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہی بوستانِ سعدی کے پہلے حصے’ سببِ نظم کتاب‘ کے ابتدائی تین شعر یاد آتے ہیں۔ 
دراقصائے عالم بگشتم بسے
بسر بُردم ایام با ہر کسے
تمتّع زہر گوشۂ یافتم
زہر خرمنے خوشۂ یافتم
چو پاکانِ شیرازِ خاکی نہاد
ندیدم کہ رحمت براں خاک باد
یعنی میں نے دنیا کے اطراف کی بہت سیر کی اور ہرایک شخص کے ساتھ کچھ دن گزارے۔ میں نے ہر گوشے سے فائدہ اٹھایا ہےاور میں  نے ہر خرمن سے خوشے چنے ہیں لیکن شیراز کے پاک لوگوں  کی طرح جو اس خاک سے پیدا ہوئے میں نے کسی ملک کے لوگ نہیں  پائے کہ اس ملک پر اللہ کی رحمت ہو۔ 
سعدی شیرازی نے جس طرح شیراز کے پاک لوگوں  کو اپنے دل میں  بسایا، ان کو محبت سے یاد کیا ملک مومن صاحب نے بھی اسی طرح مشاہیرِ بھیونڈی میں اس شہر کے اہم لوگوں  کو یاد کیا ہے۔ اس کتاب میں  جہاں  ایک طرف زمانہ ساز شخصیات کا ذکر کیا گیاہے تو وہیں  اس شہر کی تعلیمی، ادبی، سماجی، سیاسی اورکاروباری شخصیات کے علاوہ اسپورٹس مین، انجینئرس، وکلاء، مذہبی، طبی، صحافتی، دلدادگانِ فنونِ لطیفہ کے ساتھ ساتھ مجاہدینِ آزادی کا بھی ذکرانتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ کیا ہے۔ 
حافظ شیرازی جس طرح کنارِ آبِ رکن آباد اور گل گشت مصلی سے باہر نہ جاسکے اسی طرح ملک مومن صاحب شہر بھیونڈی کی گلیوں  ، کوچوں، چوراہوں، خانقاہوں  ، مزاروں  اور سماجی و تعلیمی اداروں سے باہر نہ نکل سکے۔ وہ جو کبیر جی نے کہا ہے کہ  
تال سوکھ پتھر بھیو ہنس کہوں  نہ جائے
پچھلی پریت کے کارنے کنکر چن چن کھائے
ملک مومن کی پریت بھی ایسی ہی پریت ہے جس کا دائرہ ایک تال تک ضرور ہے مگر ہِردے وہ ہے جس میں  سرشٹی سمائی ہوئی ہے یہ وہ دل ہے جس کے متعلق غالبؔنے کہا تھا۔ 
کس کا دل ہوں کہ دوعالم سے لگایا ہے مجھے 
اور اس وقت مجھے الیگزینڈر پوپ کی مشہور نظم Ode on Solitude کا وہ بند بھی یاد آرہا ہے جس میں  وہ کہتا ہے کہ ’’خوش نصیب ہے وہ شخص جس کی خواہش چھوٹے آبائی قطعۂ زمین تک محدود ہےاور جو اپنی ہی جنم بھومی کی ہوا میں سانس لینے پر قانع ہے۔ ‘‘
میں  ملک مومن صاحب کی کتاب مشاہیر بھیونڈی کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ان کی اس خوش نصیبی کو سلام کرتا ہوں جس کا ذکر الیگزینڈر پوپ نے کیا ہے۔ 
’’خوش نصیب ہے وہ شخص جس کی خواہش چھوٹے آبائی قطعۂ زمین تک محدود ہےاور جو اپنی ہی جنم بھومی کی ہوا میں سانس لینے پر قانع ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK