• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دولت کی فراوانی اورسرپرستوں کی کثرت نے شاعری کوجتنا بےروح کیا، زبان کو اتنی ہی ترقی اورتوسیع بھی دی

Updated: June 16, 2024, 11:51 AM IST | Gopi Chand Narang | Mumbai

اردو کے صف ِ اول کے نقاد، محقق اور ادیب گوپی چند نارنگ کی کل ( ۱۵؍جون کو) دوسری برسی تھی، اسی مناسبت سے ان کا یہ تحقیقی مضمون نذرِ قارئین ہے۔

In the present era, people say that Urdu is dying, it is not so, if you read the history of Urdu, you can imagine that it has flourished more and more due to the harsh conditions it has gone through. Photo: INN
موجودہ دور میں لوگ کہتے ہیں کہ اردو ختم ہورہی ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے ، اردو کی تاریخ پڑھئے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جتنے سخت حالات سے گزری اتنی اور زیادہ پھولی پھلی ہے۔ تصویر : آئی این این

اردو زبان کی پیدائش کا قصہ اس لحاظ سے ہندستانی زبانوں میں شاید سب سے زیادہ دلچسپ ہے کہ یہ ریختہ زبان بازاروں، درباروں اور خانقاہوں میں سر راہ گزر پڑے پڑے ایک دن اس مرتبے کو پہنچی کہ اس کے حسن اور تمول پر دوسری زبانیں رشک کرنے لگیں۔ دکن میں تو خیر اسے سازگار ماحول ملا تھا، اور شاہجہاں آباد کے اردو بولنے والوں نے اردو کو اردوئے معلی کا درجہ تو دے دیا اور اس کی اداؤں اور گھاتوں پر جان بھی دینے لگے، مگر فارسی کا اثر اتنا بڑھا ہوا تھا کہ لوگ اردو میں شعر کہتے ہوئے کتراتے تھے۔ 
مثل مشہور ہے کہ بڑیا پیپل کے پیڑ کے نیچے گھاس بھی نہیں اگتی۔ فارسی کے سائے میں یہی حال اس نوزائیدہ زبان کا تھا۔ یہ ولیؔ کے دیوان کا فیض تھا کہ لوگ فارسی چھوڑ چھوڑ کراردو کی طرف متوجہ ہو گئے۔ گویا مدتوں سے زبان تیار تھی، بس ایک ہلکے سے نفسیاتی سہارے کی ضرورت تھی، وہ سہارا ولیؔ کے اشعار کی مقبولیت نے فراہم کر دیا۔ کم وبیش اسی زمانے میں فضل علی فضلی نے کربل کتھا لکھی۔ اگر اس کی نثر کا مقابلہ اس زمانے کی شاعری کی زبان سے کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ شعر کی زبان تو کسی حد تک منجھ گئی تھی لیکن نثر کی راہ سے کانٹے ابھی نہیں نکلے تھے۔ عام اصول ہے کہ نثر پہلے بڑھتی ہے، شاعری بعد میں ترقی کرتی ہے۔ یہاں معاملہ برعکس تھا۔ زبان تو تیار تھی ہی، بندھ ٹوٹا تو سب سے پہلے طبیعتوں کو شاعری بہا لے گئی، نثر کنارے پر کھڑی دیکھتی رہی۔ 
اس نثر میں اردو کے ابتدائی دور کی معصومیت اور سادگی تو ہے لیکن جملے فارسی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف شعر کی زبان میں دکنیت یعنی بولیوں کے ابتدائی اثرات تھے۔ میر نے تو اپنے محبت آمیز لہجے میں محض اتنا کہا تھا ع معشوق جو اپنا تھا باشندہ دکن کا تھا، لیکن قائم نے جب دعویٰ کیا، 
قائم میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ 
اک بات لچرسی بہ زبان دکنی تھی 
تو در اصل اس احساس کا اظہار کر رہے تھے جس کا ایک ایسے تاریخی دور میں پیدا ہو جانا قدرتی بات تھی، جب زبان کے بننے، سنورنے اور گڑھنے کا عمل جاری تھا۔ یہ مبارک کام کسی فرد واحد یا اکیلے کسی ایک شاعر کا نہیں تھا، بلکہ اس میں مظہرؔ، حاتمؔ، میرؔ، سوداؔ اور قائمؔ و یقینؔ کے دور کے سبھی اردو بولنے اور لکھنے والے شریک تھے۔ اس زمانے میں زبان کو بے انتہا وسعت دی گئی اور ہزاروں نئے لفظ، نئے مصدر، نئے محاورے، نئی تشبیہیں، نئے استعارے زبان میں داخل ہوئے اور زبان کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ اس دور میں ایک طرف اگر کئی ٹھیٹھ ہندی لفظ ہمیشہ کے لئے اردو میں کھپ گئے تو اس کے ساتھ ساتھ کئی فارسی محاوروں اور فقروں کے ترجمے اردو میں رچ بس گئے۔ مثلاً پیمانہ بھرنا (پیمانہ پر کردن)، جامے سے باہر نکلنا (ازجامہ بیرون شدن)، دل ہاتھ سے جانا (دل از دست رفتن)، خوش آنا (خوش آمدن)، جگر کرنا (جگر کردن)۔ 
اس دور کی شاعری میں سپاہیوں، پہلوانوں، ٹپے بازوں، مہاوتوں، آتش بازوں، طوائفوں، بنیوں، طبیبوں، باورچیوں، شکاریوں وغیرہ کے بے شمار الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ رزم و بزم اور شادی بیاہ، موسموں، پھلوں، پھولوں، پرندوں، جانورں، زیوروں، کپڑوں، کھانوں وغیرہ کے سیکڑوں نام اور ان کے بارے میں خاص خاص الفاظ اس دور میں اردو کے سرمایے میں داخل ہوئے اور اردو لفظیات میں زبردست اضافہ ہوا۔ فارسی لفظوں سے جو مصدر بنائے گئے، انہیں سے کچھ اندازہ ہوگا کہ اردو میں اخذ وتصرف کا کیسا مہتم بالشان سلسلہ جاری رہا۔ لرز سے لرزنا، داغ سے داغنا، فرمان سے فرمانا، خرید سے خریدنا، خرچ سے خرچنا، بخش سے بخشنا، نواز سے نوازنا، بدل سے بدلنا، اسی طرح گزر کرنا، عمل کرنا، زحمت کرنا، خراب کرنا، قدر کرنا، تلاش کرنا، شمار کرنا، منت کھینچنا، فرض کرنا، طومار باندھنا، ہامی بھرنا، سروکار نہ رکھنا۔ یہ اور ایسے سیکڑوں دوسرے ماخوذ افعال ہیں جو اس کثرت سے استعمال ہوئے ہیں کہ اردو کے اپنے ہو گئے ہیں۔ 
فارسی الفاظ کے ساتھ ہندی الفاظ کا میل بھی اسی دور میں عروج کو پہنچا۔ دوراہا، بے تکا، گاڑی بان، بے ڈھب، بے گھر، نیک چلن، شرمیلا پن، منہ زور، چور محل، جیب کترا، امام باڑہ، بے فکرا، نودولتیا، چوراہا، پچ رنگا، بے صبرا، تھکا ماندا، بے کل، بدچلن، شرمیلا، پان دان، بے دھڑک، سمجھ دار، سدا بہار، دیوانہ پن، بے لاگ، دغا باز، بسنتی پوش، بیل دار، پھول دار، جامۂ چھینٹ، موتی محل، موتی مسجد۔ میرؔ نے جب کہا تھا:
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیےگا 
کرتے کسی کو سنیےگا تو دیر تلک سر دھنیےگا 
جہاں سے کھولیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے 
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں 
تو شعری جمال وجلال کے یہ دعوے زبان کی لسانی قوت، وسعت، لوچ اور تمول کے بغیر ناممکن تھے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں جب دہلی کی شعری فضائیں میرؔ و سوداؔ کے معاصرین اور ان کے شاگردوں کی زمزمہ سنجیوں سے گونج رہی تھیں، لکھنؤ میں اردو شاعری کی تخم ریزی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ دوسری طرف قرآن شریف کے اردو تراجم کی طرف بھی توجہ ہوچلی تھی اور مرکزی علاقوں سے دور اردو یا ہندوستانی کے اثر سے مرشدآباد اور کلکتے کی لسانی فضاؤں میں بھی تموج پیدا ہونے لگا تھا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب ولیم جونز نے سنسکرت، پہلوی، یونانی، جرمنی اور اطالوی زبانوں کے مشترک جدامجد کا سراغ لگا لیا اور تاریخی لسانیات اور بالخصوص انڈویورپین خاندان کی گم شدہ تاریخی کڑیاں ملائی جانے لگیں۔ 
اسی زمانے میں سامراج کے آلۂ کار کے طور پر گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج میں اردو پر توجہ کی۔ گلکرسٹ نے لغت، قواعد اور زبان پر بیسیوں کتابیں لکھیں اور لکھوائیں اور فورٹ ولیم کالج میں ہندستانی یعنی اردو کے منشی جمع کئے۔ اس تاریخی کام کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر یہاں نثر کی کتابیں سادہ زبان میں نہ لکھی جاتیں تو اردو شاید ایک مدت تک عطا حسین تحسین کی نو طرز مرصع کی ترصیع اور سجع سازی کی بھول بھلیوں میں گم رہتی۔ یوں تو فورٹ ولیم کالج میں حیدر بخش حیدری، شیر علی افسوس، مرزا علی لطف، کاظم علی جواں، مظہر علی ولا، بہادر علی حسینی، نہال چند لاہوری، بینی نرائن جہاں اور کئی دوسرے ادیب تھے جنہوں نے اردو زبان کی علمی حدود کو وسیع کیا لیکن اس دور کی کتابوں میں جو مرتبہ میر امن کی باغ وبہار نے پایا وہ نثر کی کسی کتاب کو نصیب نہ ہوا۔ 
اردو اگر پراکرتی اور عربی فارسی عناصر کے درمیان ایک لسانی توازن کا نام ہے تو میر امن نے اپنی زبردست لسانی جنیس اور انتہائی منجھے اور رچے ہوئے ذوق وشعور کی بدولت اس لسانی توازن کے حسن کا راز پا لیا تھا۔ باغ وبہار کی اردو صرف کوثر و تسنیم ہی میں دھلی ہوئی نہیں یہ گنگا اور جمنا کے آئینے میں بھی اپنا چہرہ دیکھے ہوئے ہے:
’’اب دمڑی کی ٹھڈیاں میسر نہیں جو چبا کر پانی پیوں۔ دو تین فاقے کڑاکے کے کھینچے۔ تاب بھوک کی نہ لا سکا۔ لاچار بے حیائی کا برقعہ منہ پر ڈال کر یہ قصد کیا، بہن کے پاس چلئے۔ لیکن یہ شرم دل میں آتی تھی کہ قبلہ گاہ کی وفات کے بعد نہ بہن سے کچھ سلوک کیا، نہ خالی خط لکھا۔ وہ ماں جائی، میرا یہ حال دیکھ کر، بلائیں لی اور گلے مل کر بہت روئی۔ تیل مالش اور کالے ٹکے مجھ پر سے صدقے کیے۔ ایک دن وہ بہن کہنے لگی، اے بیرن! تو میری آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے۔ تیرے آنے سے میرا کلیجا ٹھنڈا ہوا۔ جب تجھے دیکھتی ہوں، باغ باغ ہوتی ہوں۔ تو نے مجھے نہال کیا۔ لیکن مردوں کو خدا نے کمانے کے لئے بنایا ہے، گھر میں بیٹھے رہنا ان کو لازم نہیں۔ جو مرد نکھٹو ہوکر گھر سیتا ہے، اس کو دنیا کے لوگ طعنہ مہنا دیتے ہیں۔ خصوص اس شہر کے لوگ۔ چھوٹے بڑے بے سبب تمہارے رہنے پر کہیں گے، اپنے باپ کی دولت دنیا کھو کھاکر بہنوئی کے ٹکڑوں پر آپڑا…‘‘
اس نثر سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان نے اپنے لڑکپن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب اس میں ادائے مطلب کی خوبیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ فورٹ ولیم کالج کے بعد اردو نثر جوان ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب کی روشنی کی کرنیں کلکتے سے پھوٹنے لگی تھیں، لیکن ادھر اودھ کی تہذیب اپنے حصار میں بند تھی اور یہ حصار بھی ایسا تھا جس کی اپنی ایک دنیا تھی، اپنی زمین اور اپنا آسمان۔ اس کے سورج، چاند اور ستارے آتش، ناسخ، بحر، سحر، نسیم، وزیر، رند، صبا، قلق اور رجب علی بیگ سرور تھے۔ طلسم ہوش ربا، امیر حمزہ اور بیسیوں دوسری داستانوں کے سلسلے تھے۔ دربار تو ایک تھا، لیکن اس کے سائے میں چھوٹے بڑے درباریوں کے کئی دائرے تھے جن کے اثر سے مشاعرے، شعری ہنر مندی، فن پر قدرت اور زبان دانی کی مہارت کے سب سے بڑے اکھاڑے تھے۔ 
دولت کی فراوانی اور سرپرستوں کی کثرت نے شاعری کو جتنا بے روح کیا، زبان کو اتنی ہی ترقی اور توسیع بھی دی کیونکہ ساری توجہ اب لفظ اور زبان پر صرف ہونے لگی تھی، ہندی کی چندی کی گئی۔ متروکات کے دفتر تیار کئے گئے، لیکن زبان کا پودا اودھ کی فضاؤں میں پروان چڑھتا رہا، جہاں زمین بھی زرخیز تھی اور مٹی بھی نم تھی۔ اس دور میں اردو پر اودھی کے لوچ، نرمی اور گھلاوٹ کی ایسی چھوٹ پڑی جس پر اردو ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔ اس دور کی زبان میں لطافت، رس اور طبیعت کو بہا لے جانے والی کیفیت دیکھنی ہو تو غزل میں نہیں مثنوی اور مرثیے میں دیکھنی چاہئے۔ 
 اس دور کی اردو میں دونوں انتہائیں ملتی ہیں۔ ایک طرف ناسخ کی روایات، رجب علی بیگ سرور کا فسانۂ عجائب اور دیاشنکر نسیم کی گلزار نسیم ہے تو دوسری طرف میر حسن، میر انیس اور مرزا شوق کی بول چال کی چاندنی میں دھلی ہوئی زبان ہے، جس کی سلاست، گھلاوٹ اور روانی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ اردو زبان نظم اور نثر دونوں میں اب اس نقطۂ عروج تک پہنچ گئی تھی کہ منتظر تھی کوئی ایسا باکمال آئے کہ اس کے دونوں ساعد سیمیں تھام لے اور زبان اس کی محبت کے بدلے اس کے سر پر لسانی زر و جواہر سے جگمگاتا ہوا عظمت کا ایسا تاج رکھ دے جس کی چمک رہتی دنیا تک آنکھو کو خیرہ کرتی رہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK