Inquilab Logo

خلع سے شرعاً طلاق بائن ہی واقع ہوتی ہے

Updated: January 28, 2023, 11:42 AM IST | Mufti Azizur Rehman Fatehpuri | MUMBAI

کیا فرماتے ہیں علماء اس مسئلے کے تعلق سے کہ میاں بیوی خلع نامہ بنانے گئےتھے تو اردو میں جو خلع نامہ بنایا اس میں خلع دے دیا یعنی طلاق بائن دے دیا لکھا

Photo: INN
تصویر:آئی این این

  کیا فرماتے ہیں علماء اس مسئلے کے تعلق سے کہ میاں بیوی خلع نامہ بنانے گئےتھے تو اردو میں جو خلع نامہ بنایا اس میں خلع دے دیا یعنی طلاق بائن دے دیا لکھا،البتہ جب انگریزی پیپر بنایا تو اس میں یہ جملہ لکھا : طلاق، طلاق،طلاق بائن دیا ،پھر اقرار کراتے ہوئے دو مرتبہ اقرار کیاکہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق بائن دے دیا۔ ایسی صورت میں کون سی طلاق واقع ہوگی ؟کتاب و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔ عبداللہ ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ ۔ھوالموفق: خلع سے شرعاً طلاق بائن ہی واقع ہوتی ہے لہٰذا یہ لکھنے کے بعد کہ خلع دےدیا یعنی طلاق بائن دے دیا لکھنے کی بھی ضرورت نہ تھی لیکن لکھ دیا تو کوئی حرج نہیں  نیز یہ لکھنے کی صورت میں مزید کوئی  طلاق بھی واقع نہ ہوگی ۔اس کے علاوہ خلع سے صرف ایک طلاق بائن واقع ہوتی ہے الا یہ کہ خلع دینے والا خود تین کی صراحت کردے زبانی ہویا تحریری لیکن تحریر دوسرے نے لکھی تو یہ ضروری ہے کہ خلع دینے والے نے اسے پڑھا اور سمجھا بھی ہو یا لکھنے والے نے پڑھ کر سنایا ہو، ورنہ اگر لکھنے والا کچھ بھی لکھ دے جب تک اسے یہ علم نہ ہوگا کہ اس نے کیالکھاہے تو اس تحریر پر کوئی حکم نہ ہوگا  لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر طالق نے پڑھایاسنا نہیں اور پڑھا یا سنا ہے تو تین نہیں سمجھ سکا کیونکہ تین کی صراحت نہیں کی تھی  اس صورت میں تین کا حکم نہیں دیا جائےگا۔ یوں بھی اس تحریر میں تکرار اور توضیح کا احتمال غالب ہے جبکہ دو مرتبہ کرانا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق بائن دے دیا کہ دونوں تحریروں کا مقصد صرف ایک طلاق بائن ہے نہ کہ تین اس لئے خلع سے ایک طلاق بائن واقع ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
 آوارہ جانور  
 ہمارے یہاں کچھ حلال آوارہ جانور پھرتے رہتے ہیں جن کا کوئی  مالک نہیں۔ کیا ان کو  ذبح کرکے کھانا درست ہے؟ 
توقیر عالم ،بہار 
باسمہ تعالیٰ ۔ھوالموفق:عام طور سے اس طرح کے جانور وہ ہوتے ہیں جن کو ان  کے مالکان غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے آزاد چھوڑدیتے ہیں۔ ایسے جانوروں سے کسی طرح کا بھی  انتفاع جائز نہیں تاہم یہ اگرچہ بظاہر آزاد ہیں لیکن اصولاً ان کے مالکان ہنوز ان کے مالک ہیں اس لئے اگر کسی جانور کے مالک کا علم ہو اور کوئی شخص اس سے یہ  جانور خرید لے یا انتفاع کی اجازت حاصل کرلے تو جسے مالک اجازت دیدے اس کے واسطے ہر جائز انتفاع درست ہوگا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مالک نے تقرب کی نیت سے تو نہیں چھوڑا لیکن اس کے اوپر جانور کسی وجہ سے بوجھ ہے اسلئے اسے آزاد کردیا اور عام طور پر ہر ایک کو صورت حال کا علم ہے تو اس کے دودھ اور گوشت وغیرہ سے انتفاع جائز ہوگا؛ مگر مکمل احتیاط اور تحقیق کرلی جائے کہ یہ کس طرح کا چھوڑا ہوا جانور ہے ۔واللہ اعلم وعلمہ اتم
 بجلی چوری
   سردی بہت سخت ہے، بچے بہت چھوٹے ہیں اوربیماری کا پورا اندیشہ ہے تو اس صورت میں چوری کی بجلی استعمال کر سکتے ہیں  یا نہیں اور اگر صحیح طریقے سے استعمال کریں تو بجلی کا بل دینے کی حیثیت نہیں  ہے ، اس صورت میں کیا کیا جائے؟ ابراہیم احمد، اترپردیش
 باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: اسلام نے چوری کی سختی کے ساتھ  ممانعت کی ہے ،یہ بدترین اور قابل تعزیر گناہ ہے۔ چوری کی جو تعریف کی گئی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے کے مال کو اس کی مرضی اور علم کے بغیر لینا ،مال چاہے کسی کی انفرادی اور شخصی ملکیت ہو یا اجتماعی اور عوامی، نیز جو حکم شخصی املاک کا ہے وہی ریاستی اور سرکاری املاک کا بھی ہے اس لئے بجلی خواہ کسی کمپنی کی ملکیت ہو یا حکومتوں کی اس کی چوری کسی حال میں بھی جائز نہیں؛ رہی آپ کی ضرورت تو سردی سے بچنے کے اور بھی ذرائع ہیں جو  اختیار کئے جاسکتے ہیں۔ جہاں بجلی نہ پہنچی ہو یا پہنچی ہو مگر بیشتر اوقات غائب رہتی ہو وہاں سردی سے بچنے کے لئے جو ذرائع اختیار کئے جاتے ہیں  وہ آپ بھی اختیار کریں۔ یہ پہلو بھی ذہن میں رہے کہ بل دینے کی حیثیت نہ ہونے کی بناء پر کسی نے بجلی چوری کی پھر گرفت میں آگیا تو جرمانہ عائد ہونے پر کیا کرےگا؟ واللہ اعلم وعلمہ اتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK