پرشانت کشور نے اپنی ایک نئی سیاسی جماعت’ جن سوراج ‘پارٹی تشکیل دی ہے اور انہوں نے حالیہ چار بہار قانون ساز اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں جس کا نتیجہ ۲۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو آئے گا۔
EPAPER
Updated: November 21, 2024, 3:10 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
پرشانت کشور نے اپنی ایک نئی سیاسی جماعت’ جن سوراج ‘پارٹی تشکیل دی ہے اور انہوں نے حالیہ چار بہار قانون ساز اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں جس کا نتیجہ ۲۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو آئے گا۔
ریاست بہار سیاسی اعتبار سے ایک حساس ریاست ہے۔ یہاں گائوں دیہات کی گلیوں سے لے کرشہروں کے چوک چوراہوں پر سیاسی تبصرے کا ماحول عام ہے۔ بالخصوص ریاست کی راجدھانی پٹنہ میں دن رات سیاست کی شطرنجی چال چلتی رہتی ہے اور کون کس کو مات دینے میں مصروف ہے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ جب تک ریاست میں کانگریس پارٹی کا بول بالا تھا اس وقت بس ایک طرف کانگریس تھی اور دوسری طرف حزب اختلاف کی پارٹیاں ، جن میں بایاں محاذ نمایاں تھیں۔ لیکن ۱۹۸۰ء کے بعد جب کانگریس میں بھی اندرونی رسہ کشی کا ماحول شروع ہوا اور ۹۰ ءکی دہائی میں پروان چڑھا، ساتھ ہی ساتھ علاقائی سیاسی جماعتوں کے لئے فضا سازگار ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے کئی نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں مگر انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں مل سکی۔ کانگریس کے قد آور لیڈر ڈاکٹر جگن ناتھ مشرا جب کانگریس سے الگ ہوئے تو انہوں نے بھی بہار وکاس پارٹی بنائی مگر وہ بھی اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوئے۔ چونکہ ۹۰ء کے بعد بہار میں جنتا دل کا زور بڑھا اور لالو پرساد سیاست پر نمودار ہوئے تو دیگر تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی روشنی ماند پڑگئی۔ اسی دور میں رام ولاس پاسوان لالو یادو سے الگ ہوئے اور اپنی لوک جن شکتی پارٹی تشکیل دی۔ نتیش کمارنے بھی الگ ہو کر سمتا پارٹی بنا کر زمینی سطح پر کام کرنا شروع کیا اور بعد میں جب شرد یادو اور جارج فرنانڈس بھی لالو یادو کی جنتا دل اورپھر راشٹریہ جنتا دل سے الگ ہوئے تو نتیش کمار کے ساتھ جنتا دل متحدہ ایک طاقتور سیاسی جماعت کے طورپر بہار کی سیاست کا رخ ہی بدل دیا۔ دریں اثناء بہار میں ذاتی سیاست کا طوفان بھی آیا اور راجپوت ذات کی سیاست کرنے والے آنند موہن نے بہار پیپلس پارٹی بنائی تو یادو سماج کے نمائندہ کے طورپر راجیش رنجن عرف پپو یادو نے بھی اپنی سیاسی جماعت جن ادھیکار پارٹی بنائی اور پوری ریاست میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ لیکن ۲۰۰۵ء کے بعد بہار میں نتیش کمار کی قیادت نے تمام نئی سیاسی جماعتوں کی حیثیت کو صفر کردیا البتہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ بی جے پی کو ہوا کہ اس کیلئے بہار میں نہ صرف زمین تیار ہوئی بلکہ نتیش کمار کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل ہو کر اپنے تنظیمی ڈھانچہ کو مستحکم کیا۔ راشٹریہ جنتا دل بھی کم کم وقت کیلئے نتیش کمار کی اتحادی حکومت میں شامل رہی۔
بہر کیف!ریاست بہار میں علاقائی سطح پر ماضی سے حال تک نئی سیاسی جماعتیں وجودمیں آئی ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ غائب بھی ہوتی رہی ہیں ۔ حالیہ دنوں میں لوک جن شکتی پارٹی کے اندر بھی ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور ایک حصہ لوک جن شکتی پارٹی ( رام ولاس)جس کے قائد چراغ پاسوان ہیں جب کہ دوسرا گروپ لوک جن شکتی پارٹی کے نام سے چل رہا ہے اور اس کے قائد آنجہانی رام ولاس پاسوان کے بھائی پشو پتی ناتھ پارس ہیں۔ واضح رہے کہ حالیہ پارلیمانی انتخاب سے قبل تک پارس مودی کابینہ میں وزیر تھے جب کہ مودی کی نئی کابینہ میں چراغ پاسوان وزیر بنائے گئے ہیں کیوں کہ پارس کے ایک بھی ممبر پارلیمنٹ کامیاب نہیں ہوئے۔ اب جب کہ بہار میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اور اس کے لئے تمام سیاسی جماعتیں سرگرم ہیں ایسے وقت میں پرشانت کشور نے اپنی ایک نئی سیاسی جماعت جن سوراج پارٹی تشکیل دی ہے اور انہوں نے حالیہ چار بہار قانون ساز اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں جس کا نتیجہ ۲۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو آئے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلی انتخاب میں پرشانت کشور کے دعوے کتنے سچ ثابت ہوتے ہیں۔ واضح ہو کہ اب تک پرشانت کشور مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص بی جے پی کے انتخابی مہم کا رکے طورپر کام کرتے رہے ہیں اور نتیش کمار کے بھی بہت قریب رہے ہیں لیکن اب وہ نتیش کمار سے الگ ہو کر ایک نئی سیاسی جماعت کے قائد بن گئے ہیں اور بہار کی سیاست میں ایک ہلچل پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ کتنے کامیاب ہوتے ہیں وہ تو ضمنی انتخاب کے نتائج کے بعد پتہ چلے گا کہ گزشتہ ایک سال سے ریاست گیر سطح پر ان کی سیاسی فعالیت کے اثرات کیا نمایاں ہوئے ہیں ۔ ایک ماہ قبل کبھی نتیش کمار کے ناک کے بال رہے سابق بیروکریٹس رام چندر پرساد سنگھ جنہیں بہار کی سیاست میں آر سی پی کے نام سے جانا جاتا ہے وہ جب جنتا دل متحدہ سے الگ ہوئے تو بی جے پی کے قریب ہوئے لیکن جب ایک بار پھر نتیش کمار بھاجپا اتحاد میں شامل ہوگئے ہیں تو آرسی پی کے سارے سیاسی خواب چکنا چور ہوگئے کہ جس امید پر وہ بی جے پی میں شامل ہوئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے اس لئے انہوں نے یومِ سردار پٹیل یعنی ۳۱؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کیا ہے اور جس کا نام انہوں نے ’’آپ سب کی آواز‘‘ (آسا)رکھا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں بہار کے تمام اسمبلی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پرشانت کشور اور آرسی پی دونوں اسمبلی انتخاب کے ٹکٹ تقسیم میں مسلمانوں کو خاطر خواہ حصہ دینے کی وکالت کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جن سوراج اور آسا دونوں کی طرف مسلمانوں کا رجحان بڑھ رہاہے۔ جب کہ تلخ سچائی یہ ہے کہ پرشانت کشور اور آرسی پی دونوں کا مشن کیا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔
مختصر یہ کہ اس بار بہار قانون ساز اسمبلی کے انتخاب میں صرف این ڈی اے یا انڈیا اتحاد کے درمیان ہی مقابلہ نہیں ہوگا بلکہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے امیدوار کہیں سہ رخی اور کہیں چہار رخی ضرور بنائیں گے اور آزاد امیدوار وں کی بھی کمی نہیں ہوگی کہ این ڈی اے اور انڈیا اتحاد دونوں کے باغی بطور آزاد امیدوار کھڑے ہوں گے اور حالیہ ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کی طرح سب کا کھیل بگاڑیں گے۔ بہار میں چونکہ ذات پات کی سیاست کی جڑیں بہت گہری ہیں اس لئے’ جن سوراج ‘اور ’آسا ‘دونوں اسمبلی وار ذاتی شرح ووٹر کو مدنظر رکھ کر امیدوار کھڑا کریں گے۔ بالخصوص مسلمانوں کے ووٹوں کے انتشار سے بہار اسمبلی کے نتائج بھی اثر انداز ہوں گے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔