• Thu, 05 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اڈانی کی بدعنوانی، راہل کے سوال اور عوام کی بے حسی

Updated: December 01, 2024, 4:38 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

اڈانی گروپ پریکے بعد دیگرے لگنے والے الزامات اور اس کا تنازعوں میں گھرا رہنا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے، حکومت کی جانب سے اس کی پشت پناہی اور کلین چٹ کی وجوہات بھی سمجھ میں آتی ہیں مگر عوام کا یوں خود کولُٹتا ہوا دیکھنا اور خاموش تماشائی بنا رہنا حیران کن ہے۔

According to some reports, a New York court has also issued a warrant for Adani`s arrest. Photo: INN
بعض رپورٹوں کے مطابق نیویارک کی ایک عدالت نے اڈانی کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کردیاہے۔ تصویر : آئی این این

۲۰۱۴ء میں  وزیراعظم مودی کے برسراقتدار آنے کےبعد اڈانی گروپ جس تیزی سے قومی منظر نامے پر چھایا ہے اور جس طرح اس نے ہندوستانی معیشت اور وسائل کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا، اس کی مثال ملنامشکل ہے۔ جس گروپ کی کُل مالیت ۲۰۱۴ء میں  ۷ء۱؍ ارب ڈالر تھی وہ گروپ اب ۵؍ہزار ۷۷۰؍ کروڑ کے اثاثوں کا مالک بن چکا ہے۔ ہم سب نے اپنی آنکھوں سے یہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جس اڈانی کا نام ۲۰۱۴ء میں  خال خال ہی لوگ جانتے تھے، وہ گروپ آج ملک کے وسائل کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے، ہندوستان کا کون سا گوشہ ہے جہاں اڈانی موجود نہیں ہے اور ہندوستان کےبعد اپنے پر پُرزے نکالتے ہوئے یہ گروپ بیرون ملک بھی اپنے کاروبار کوفروغ دے رہا ہے مگر اِدھر کچھ برسوں  میں  یکے بعد دیگرے منظر عام پر آنے والے تنازعات اور سنگین الزامات سے ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں  ہے اورجوکچھ بھی اب تک پردہ کے پیچھے تھا، وہ بے نقاب ہوا چاہتا ہے۔ 
 یہ الزام عام ہے کہ اڈانی گروپ کی یہ غیر معمولی ’ترقی‘ وزیراعظم مودی اور ان کی حکومت کے مرہون منت ہے۔ اس کےکئی وجوہات ہیں  بلکہ کئی بار شواہد بھی منظر عام پر آچکے ہیں مگر ’’سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا‘‘ کے مصداق ہر بار شواہد کہیں کھوکر رہ جاتے ہیں اور اڈانی گروپ کی ’ترقی‘ کی رفتار پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہوجاتی ہے۔ یہ صاف نظرآتا ہےکہ اڈانی گروپ اگر ترقی کررہاہے تو اس کی وجہ حکومت کی عنایتیں  ہیں  مگرنہ عدالتوں نے کہیں  کوئی پکڑ کی، نہ وزیراعظم مودی کی قیادت والی حکومت میں  اُن اداروں سے اس تعلق سے کوئی امید کی جاسکتی ہے جو ۲۰۱۴ء سے پہلے نہ صرف آزاد اور خود مختار کہلاتے تھے بلکہ نظر بھی آتے تھے۔ ایسے میں  غیر ملکی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد اڈانی گروپ پر یکے بعد دیگرے جو الزامات لگ رہے ہیں  ، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اپنے گھر کی بات گھر میں  دبائی جاسکتی ہے مگر بات جب گھر سے باہر نکل جائے تو پھر اسے دبایا نہیں  جاسکتا۔ 
  اڈانی کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ مادھوی پوری بُچ کی قیادت میں سیبی نےبھلے ہی انہیں کلین چٹ دے دی ہو اور جانبداری کے انتہائی سنگین الزامات کے باوجود مودی حکومت نےبھلے ہی اب تک مادھوی پوری بُچ کو سیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا (سیبی) کی سربراہی کے اہم عہدہ سے نہ ہٹایا ہومگر امریکہ میں  موجود سیبی جیسے ادارہ ’’یو ایس سیکوریٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن ‘‘ نے بہت کچھ پکڑ لیا ہےجس کی قیمت نہ صرف اڈانی کو چکانی پڑے گی بلکہ ہندوستان کےباہر اپنے کاروبار کو پھیلانے کے ان کے عزائم کی تکمیل کی راہ میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ 
  ’’یو ایس سیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ‘‘کا یہ الزام کہ اڈانی گرین اینرجی جو سولر انرجی یعنی شمسی توانائی کا کاروبار کرتی ہے، نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں  میں زائد از ۲۰؍ سال تک سولر اینرجی کی سپلائی کاٹھیکہ حاصل کرنےکیلئے ۲۲۰۰؍ کروڑ  روپے سرکاری اہلکاروں  میں تقسیم کردیئے، اس لحاظ سے اہم ہےکہ امریکی عدالت میں  اس ضمن میں ’فرد جرم‘ عائد ہوگئی ہے اورکچھ رپورٹوں کے مطابق نیویارک کی ایک عدالت نے اڈانی کی گرفتاری کا وارنٹ بھی جاری کیاہے۔ بجلی سپلائی کے ان ٹھیکوں  سے اڈانی گروپ کو ۲؍ بلین امریکی ڈالر کا منافع ہونے کی امید تھی۔ امریکہ میں  اڈانی گروپ کے خلاف فرد جرم عائد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ گروپ نے وہاں سے۳؍ بلین ڈالر کا سرمایہ حاصل کیا ہے جسے مبینہ طور پر ہندوستان میں  رشوت دینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اڈانی گروپ کیخلاف ’یو ایس سیکوریٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن ‘ نے صرف الزامات ہی نہیں لگائے بلکہ ثبوت بھی پیش کئے ہیں۔ 
 ہنڈن برگ رپورٹ کے بعد یہ دوسرا بڑا معاملہ ہے جس نے اڈانی گروپ کی چولیں ڈھیلی کر دی ہیں۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ اتنا بڑا کارپوریٹ گروپ انتہائی کم عرصے میں اس طرح یکے بعد دیگرے تنازعات کا شکار ہو۔ ہنڈن برگ نے جو الزامات عائد کئے تھے وہ اسٹاک مارکیٹ کے اصولوں  کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ضوابط کے ساتھ کھیل کر کےفائدہ اٹھانے کے تھے۔ وہ الزامات بھی سنگین تھے مگر اتنےنہیں تھے جتنے اب کی بار امریکہ میں  لگے ہیں۔ ہنڈن برگ معاملے میں   جانچ تشفی بخش نہیں  ہوئی۔ سیبی نے مایوس کیا اور سپریم کورٹ  نے جو ہدایات دیں   وہ بھی ناکافی ثابت ہوئیں۔ اب جبکہ سیبی کی سربراہ مادھوی پوری بچ خود الزامات میں گھری ہوئی ہیں تو اڈانی کے ساتھ جانبداری اورانہیں جان بوجھ کرکلین چٹ دینے کےالزامات میں بھی تقویت نظرآتی ہے۔ 
 اڈانی گروپ نےجس طرح ہنڈن برگ رپورٹ کے بعد الزامات کو بے بنیاد قرار دیکر خارج کردیاتھا، بالکل اسی طرح امریکی عدالت میں فرد جرم کے معاملے میں  بھی اس نے زبانی جمع خرچ کے ذریعہ اپنا دفاع کیا ہےمگر یہ ناکافی ہے اور جوالزامات عائد ہوئے ہیں وہ غیر جانبدارانہ جانچ کےمتقاضی ہیں۔ ورنہ اس سے کاروباری محاز پر ملک کی ساکھ متاثر ہوگی اور ہندوستان کی دیگر کمپنیاں  بھی بیرون ِملک مشکوک ہوجائیں  گی۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہنڈن برگ معاملے میں اڈانی کی جانچ نہ ہونے کے بعد ہنڈن برگ نے ہی سیبی سربراہ اور اڈانی کی مبینہ جگل بندی کو ظاہر کرکے نہ صرف عوامی سطح پر سیبی کے اعتماد کوکمزور کردیا ہے بلکہ اسکے ذریعہ اڈانی گروپ کو دی گئی کلین چٹ کو بھی مشکوک کردیا ہے۔ اڈانی گروپ کا بار بار یوں تنازعات میں گھرنا اس بات کا بین ثبوت ہےکہ’’سب کچھ ٹھیک ٹھاک‘‘ نہیں ہے۔ اس کےباوجود اگر مناسب جانچ نہیں ہورہی تو اس کی وجہ حکومت کی پشت پناہی اور مودی سے اڈانی کی قربتوں  کو قرار دیاجاسکتاہے مگر یہ حیرت انگیز ہے کہ ہندوستان کے جن عوام کو ٹوجی گھوٹالے نے منموہن سرکار سے اتنا بدظن کیا کہ اسے اقتدار سے بے دخل کردیا، وہی عوام اڈانی کے معاملے میں یوں  خاموش تماشائی کیوں   ہیں ؟ عوامی سطح پر اس ضمن میں  بے چینی کیوں نہیں  پیدا ہورہی ہے؟ کیا اسلئے کہ حکمراں محاذ نے انہیں مذہبی منافرت کی افیم کچھ اس قدر چٹادی ہے کہ وہ خود کو لُٹتا ہوا دیکھ کر بھی اسلئے خاموش ہیں کہ جو حکومت ملک کے وسائل یکے بعد دیگرے مبینہ طور پر اڈانی کو سونپ رہی ہے، وہ ’عبدل‘کی چوڑی بھی ٹائٹ کررہی ہے، اسی لئے وہ مطمئن ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK