گزشتہ پندرہ دنوں سے ’’ترقی یافتہ ہندوستان۔۲۰۴۷‘‘ کی خصوصی مہم کے تحت بہار کےتعلیمی اداروں میں پروگرام ہو رہے ہیں ۔ سمینارومذاکرے ہو رہے ہیںاور آن لائن فیڈ بیک لئے جا رہے ہیں۔بہار کے مختلف کالجوں میں طلبہ یونین قدرے فعال نظر آرہی ہے۔
EPAPER
Updated: December 28, 2023, 7:44 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
گزشتہ پندرہ دنوں سے ’’ترقی یافتہ ہندوستان۔۲۰۴۷‘‘ کی خصوصی مہم کے تحت بہار کےتعلیمی اداروں میں پروگرام ہو رہے ہیں ۔ سمینارومذاکرے ہو رہے ہیںاور آن لائن فیڈ بیک لئے جا رہے ہیں۔بہار کے مختلف کالجوں میں طلبہ یونین قدرے فعال نظر آرہی ہے۔
ان دنوں ملک میں ’’ترقی یافتہ ہندوستان۔۲۰۴۷‘‘ کی مہم چل رہی ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں کو اس خصوصی مہم کیلئے مختلف طرح کے پروگرام منعقد کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ ان پروگراموں کے ذریعہ طلبا ءوطالبات وطن عزیز کی ترقیاتی رفتار سے واقف ہوسکیں، مستقبل میں وہ کیسا ہندوستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے ملک کو تمام شعبے میںکیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور مشورہ بھی طلب کرنا ہے۔بہار میں اس خصوصی مہم کیلئے نہ صرف راج بھون فعال ہے بلکہ ریاست کی تمام یونیورسیٹیاں اپنے دائرہ کار کے کالجوں کوطرح طرح کی ہدایتیں دے رہی ہیں۔ واضح ہو کہ بہار میں یونیورسیٹیوں کے چانسلر گورنر موصوف ہوتے ہیں لہٰذا انہوں نے سب سے پہلے ریاست کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے ساتھ راج بھون میں میٹنگ کی اور اس خصوصی مہم کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ کو جوڑنے کی گزارش بھی کی ۔ ظاہر ہے کہ گورنر موصوف کی ہدایت کے بعد تمام اعلیٰ تعلیمی اداروں کو حرکت میں آنا تھا اس لئے ریاست کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ’’ترقی یافتہ ہندوستان۔۲۰۴۷‘‘ کے پروگراموں کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس پروگرام کو ایک طبقہ سیاسی پروپیگنڈہ قرار دے رہا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ خصوصی مہم ہندوستان کے ایک بڑے طبقے کو سرکاری اسکیموں کے نفاذکی معلومات اور مستقبل کیلئےترقیاتی خاکوں کی تیاری کیلئے مشورہ طلب کرنے کی خاطر چلائی جا رہی ہے ۔ چونکہ حکومت کی طرف سے یہ حکم نامہ جاری ہوا ہے اس لئے حزب اختلاف کو اس پر اعتراض ہے کہ تعلیمی اداروں میں سرکاری اسکیموں کے تعلق سے پروگرام کرنا بہتر نہیں ہے۔لیکن ہندوستان جیسا جمہوری ملک جہاں کی پچاس فیصد آبادی ایسی ہو جس کی عمر پچیس سال سے کم ہو اور ۶۵؍فیصد آبادی جس کی عمر۳۵؍ سال سے کم ہو ایسے ملک میں اس طرح کی مہم ملک وقوم کے مفاد میں ہے۔کیوں کہ نئی نسل اپنے ملک کے ترقیاتی کاموں سے کس قدر مطمئن ہے اور وطن عزیز کو مستقبل میں کیسا دیکھنا چاہتی ہے اگر اس پر بحث ومباحثہ کرایا جا رہا ہے اور پھر ان تمام طلبہ سے انفرادی طورپر رائے لی جا رہی ہے اور اس میں بالکل آزادانہ طورپر اپنی رائے دینی ہے تو یہ ایک قابلِ تحسین قدم ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پچیس سال کی عمر کے طلبہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔یہاں اس حقیقت کو عیاں کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ تعلیمی اداروں میں مختلف سیاسی نظریوں سے وابستگی رکھنے والے طلبہ ہیںاور اس خصوصی مہم میں کہیں بھی کسی خاص سیاسی جماعت کی قید نہیں ہے ۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اس مہم میں جو طلبہ حصہ لے رہے ہیں وہ مثبت اور منفی دونوں طرح کی رائے ظاہر کر رہے ہیںاور بعض طلبہ کی جانب سے مستقبل کا ہندوستان کیسا ہونا چاہئے اس پر اپنا نظریہ پیش کر رہے ہیں۔اگر واقعی حکومت نیک نیتی سے اس مہم میں شامل ہونے والے طلبہ کے اظہارِ رائے کا محاسبہ کرتی ہے اور پھر جو نتائج سامنے آتے ہیں اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتی ہے تو ممکن ہے کہ مستقبل کے ہندوستان کی تصویر کچھ الگ نظر آئے گی۔گزشتہ پندرہ دنوں سے مسلسل اس خصوصی مہم کے تحت تعلیمی اداروں میں پروگرام ہو رہے ہیں ۔ سمینارومذاکرے ہو رہے ہیںاور آن لائن فیڈ بیک لئے جا رہے ہیں۔بہار کے مختلف کالجوں میں طلبہ یونین قدرے فعال نظر آرہی ہے۔اساتذہ اور اداروں کے ذمہ داران سرکاری حکم ناموں کے مطابق اس میں شامل ہو رہے ہیں ۔قومی سطح پر بھی اس پروگرام کو کامیاب بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس وقت ملک میں ۱۱۱۳؍یونیورسٹیاں جن میں سرکاری اور پرائیویٹ بھی شامل ہیں اور ۴۳۷۹۶؍کالجوں کے علاوہ ۱۱۲۹۶؍ایسے تعلیمی ادارے ہیں جہاں مختلف طرح کے کورسوں کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔ ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پورے ملک میں ۴؍کروڑ ۳۳؍ لاکھ ایسے طلبا ء وطالبات ہیں جن کی عمر ۲۵؍ سے ۳۴؍سال کے درمیان ہے۔ دراصل موجودہ حکومت کا نشانہ یہ ہے کہ جس وقت ہماری آزادی کے سو سال یعنی ۲۰۴۷ء میں پورے ہوں گے اس وقت ہمارا ملک عالمی نقشے میں کہاں ہوگا اور اس کیلئے ابھی سے کس طرح کے اقدامات کئے جانے چاہئے بالخصوص ہماری نئی نسل اپنے ملک کی ترقی اور اپنے مستقبل کے تئیں کس قدر سنجیدہ ہیں اس کا بھی اندازہ ہوگا۔بلا شبہ نئی نسل سے مکالمہ ضروری ہے کہ ان کی ذہانت کا اندازہ لگایا جا سکے۔یوں تو مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں اپنے طورپر طرح طرح کی اسکیموں کے خاکے تیار کرتی ہیں اور پھر اس کے نفاذ کیلئے ہدایت نامے جاری کئے جاتے ہیں ۔یہ پہلا موقع ہوگا کہ مرکزی حکومت نئی نسل کو یہ موقع دے رہی ہے کہ وہ آزادانہ طورپر اپنی رائے پیش کریں ۔ یہ سنہری موقع ہے کہ تعلیمی اداروں کے سربراہان اور اساتذہ زیادہ سے زیادہ طلباء وطالبات کو اس خصوصی مہم میں شامل کریں اور اپنی آزادانہ رائے پیش کریں۔چونکہ اس خصوصی مہم کیلئے حکومت نے آن لائن پورٹل بنا رکھا ہے اور اس پورٹل پر طلبہ اپنے موبائل فون یا پھر سائبر کیفے کے ذریعہ اپنی رائے اندراج کرا سکتے ہیں۔بالخصوص اقلیت طبقے کے طلبہ کو اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے اور اپنے احساسات درج کرانے چاہئیں۔ کیونکہ جب کبھی اس طرح کی مہم شروع ہوتی ہے تو بین الاقوامی سطح کی مختلف تنظیمیں حاصل شدہ آرا کا استعمال کرتی ہیں اور ملک کے اندر کیا کچھ ہو رہا ہے اور عوام کیا سوچتے ہیں اس کا خلاصہ بھی کرتی ہیں۔ اس لئے اقلیت طبقے کو اس خصوصی پروگرام میں اپنی حصہ داری کو یقینی بنانےکیلئے مقامی سطح پر بھی بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں جب کبھی اس خصوصی مہم میں حصہ لینے والوں کی تعداد مشتہر کی جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے نہ آئے کہ اقلیت طبقہ ملک کے مستقبل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔میرے خیال میں تعلیمی اداروں میں اقلیت طبقے کے جواساتذہ اور ملازمین ہیں وہ بھی اس میں خصوصی دلچسپی لیں اور اقلیت طبقے کے طلباء وطالبات کو اس مہم میں حصہ لینےکیلئے راغب کریں کہ یہ وقت کا تقاضہ ہے۔n