• Mon, 03 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

فن اور فنکار کے درمیان عمر حائل نہیں ہوتی

Updated: February 03, 2025, 5:57 PM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai

یہی وجہ ہے کہ عمر کی ۷۰؍ بہاریں دیکھنے کے باوجود محمد جمشید انصاری میں نہ تو فن سے عدم دلچسپی پیدا ہوئی نہ ہی وہ یہ سوچ کر رُکے کہ بس، بہت ہوچکا۔ آج بھی سال بھر میں ۱۲۔۱۵؍ فنی نمونے اُن کے ذوق کی تسکین کا باعث بنتے ہیں

Artist Muhammad Jamshed Ansari. Photo: INN
آرٹسٹ محمد جمشید انصاری۔ تصویر: آئی این این

آرٹسٹ محمدجمشید انصاری عمر کی ۷۰؍بہاریں دیکھنے کے باوجود فنی ریاضت، لگاؤ اور انہماک کے معاملے میں آج بھی جوان ہیں۔ انہوں نے شوقیہ طور پراسے اپنایا اور دورِ حاضر کے تقاضوں سے نہ صرف اسےہم آہنگ کیا بلکہ الگ راہ اپناتے ہوئے جدت پیدا کی مگر اس تمکنت کے ساتھ کہ اپنے فن پاروں کو نہ تو فروخت کیا نہ ہی اپنے فن کی قیمت لگنے دی۔ نام سرچ کرنے پرگوگل اور فیس بک میں بھی ان کی خطاطی کے متعد دنمونے سامنے آجاتے ہیں۔ مختلف اخبارات و رسائل میں انہیں جگہ دی گئی اور ان کی ستائش کی گئی۔ انہوں نے اسماء حسنیٰ، آیات ِ قرآنی، کلمہ ٔ توحید اور اسمِ محمدؐ کو ایسے خوبصورت اور دل نشین قالب میں ڈھالا ہے کہ دیکھنے والے کی نگاہیں مرکوز ہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ ان کی رہائش گاہ پر الگ الگ انداز میں بنائی گئی خوبصورت پیٹنگز آویزاں ہیں۔ کہیں سورۂ فاتحہ کا طغرہ ہے تو کہیں کلمۂ طیبہ کا، کہیں کسی گھنے درخت اور رنگ برنگے پھولوں میں اسمِ پاک کو نمایاں کیا گیا ہے۔ 
 تلاش معاش میں ۵۰؍ سال قبل ممبئی آنے کے بعد، اِس وقت سہار ولیج گاؤں (اندھیری) میں مقیم محمد جمشید انصاری کا آبائی وطن جون پور ہے۔ یہ وہاں کے مشہور محلہ ’ملاّٹولہ ‘کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے جون پور میں ہائی اسکول پاس کیا۔ ان کے بڑے بھائی جو ٹاٹا (جمشید پور ) میں ملازم تھے، انہیں بھی بغرض ملازمت لے گئے مگر وہاں کی آب و ہوا اور کام راس نہ آیا تو بڑے بھائی افضال احمد انصاری نے یہ کہہ کر گھربھیج دیا کہ ’’بھیا، تمہا را جو جی چاہے کرو۔ ‘‘ یہ ایک طرح سے مستقبل کے ایک باصلاحیت فنکار کی گلوخلاصی تھی۔ اس کےبعد جمشید صاحب نے لکھنؤ یونیورسٹی میں آرٹس (کمرشیل) میں داخلہ لیا اور ۵؍ سالہ کور س مکمل کیا کیونکہ انہیں بچپن ہی سے آرٹس سے دلچسپی تھی۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ۱۹۷۴ء میں ممبئی کیلئے رخت سفر باندھا تو اُن کے والد کاتب محتشم نے اُن کے ہی محلے میں رہنے والے اور اُردو بلٹز سے وابستہ مشہور خطاط محمد علی کے نام خط لکھا کہ جمشید ممبئی جارہے ہیں، ان کی مدد کرنا۔ خط پڑھنے کے بعد محمد علی نے ان کا تعاون کیا، یہ الگ بات کہ کافی تگ ودو کے باوجود محمدجمشید کو اردو بلٹز نہیں بلکہ ہندی بلٹز میں ملازمت ملی اور وہ ۲۵؍ سال (اخبار جاری رہنے) تک وابستہ رہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’اوٹی ٹی پر اداکارہی اہم نہیں ہوتا، کہانی کا موضوع بھی اہمیت رکھتاہے ‘‘

ممبئی آمد کے بعد اور بلٹز میں ملازمت ملنے سے پہلے کا ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ بغرض ملازمت محمدجمشید اپنے بہنوئی کے ہمراہ ریڈیو کی جادوئی آواز اور پروگرام ’بناکا گیت مالا‘کے ذریعے دلوں پرراج کرنے والے امین سایانی سے ملاقات کیلئے گئے۔ امین سایانی نے محبت اورخوش خلقی کا مظاہرہ کیا اور ملازمت دینے کیلئےآرٹ ڈائریکٹر کے نام ۴؍ دسمبر ۱۹۷۶ء کو سفارشی خط بھی دیا۔ مگراتفاق سے اس وقت ایمرجنسی کا دور تھا، ڈائریکٹر نے حالات سازگار نہ ہونے کا عذر پیش کیا اور ملازمت دینے سے معذرت کرلی۔ ملازمت تو نہیں ملی مگر امین سایانی کی قدردانی اورشفقت محمدجمشید کو آج بھی یاد ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’ آج بھی وہ خط میری فائل میں محفوظ ہے۔ ‘‘
  اسی طرح کا ایک خط جون پور شاہی مسجد کے امام معروف بزرگ مولانا ظفر احمدؒ نے بھی ۱۷؍ نومبر ۲۰۰۹ء کو لکھا تھا۔ مولانا نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ آپ (محمد جمشید) شاہی مسجد جون پور کی تصویر کشی کرکے مجھے دیں۔  
مولانا ظفر صاحب ؒ کا خط بھی اسی طرح محفوظ ہے۔ مولانا نے اپنے خط میں ستائشی اور دعائیہ کلمات تحریر فرماتے ہوئے لکھا تھا: ’’خطاطی اور طغرانویسی، فنون لطیفہ میں دقیق وعظیم فن ہے، جمشیدسلمہ اس فن میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ ‘‘ اس خط میں مولانا نے جمشید صاحب کے دادا منشی کاتب عبدالمجید کا ذکرکرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’وہ مشہور خطاط تھے، ان کے استاد حضرت جدّی علامہ مولانا محمد محسن ؒکے شاگرد تھے۔ محمد جمشید ان خطوط کو بزرگوں کی یادگار قرار دیتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: محمدرفیع: ایک گلوکار کے دامن میں کیا کیا تھا جس میں سے دیگر گلوکاروں نے کچھ نہ کچھ چن لیا

آرٹسٹ محمدجمشید نے بتایا کہ’’ میں نےکسی استاد سے نہیں سیکھا، جو کچھ ہے وہ اپنے شوق سے حاصل کیا ہے۔ جب میں بلٹز میں ملازمت کررہا تھا تو وہاں مختلف زبانوں کے اخبارات آتے تھے، ان میں الگ الگ انداز اور ڈیزائن میں سرخیاں لگی ہوتی تھیں، خاص طورپر پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات میں۔ انہیں بغور دیکھتا اورمشق کرتا، اس طرح میں نےیہ آرٹ سیکھا جو میرا محبوب مشغلہ قرار پایا۔ ‘‘ 
 عمر کی اس منزل میں بھی آپ فنی کاوشوں میں مصروف رہتے ہیں تو کتنے ماہ میں کسی پینٹنگز کو مکمل کرتے ہیں اور سال بھر میں کتنی پینٹنگز یا طغرے تیار ہوجاتے ہیں ؟ اس سوال پر محمد جمشید نے کہا ’’کچھ متعین نہیں ہے اور نہ ہی کسی کا تقاضہ رہتا ہے۔ اس لئے کبھی ایک ماہ میں ایک سے زائد ہوجاتی ہے تو کبھی ایک بھی نہیں۔ اسی طرح پور ے سال میں کبھی ۱۰؍ کبھی۱۲؍ تا ۱۵؍ تو کبھی ۲۰؍ فن پارے مکمل ہوجاتے ہیں۔ جب دل چاہتا ہے اور ذہن یکسو رہتا ہے تو فنی مصروفیت ہی پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔ ‘‘ n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK