شمیم طارق اردو کے حقیقی ’ برانڈ ایمبسڈر ‘ ہیں۔ وہ اقبال ؔ کے اُس جگنو کی مانند ہیں جنہیں علامہ نے ’شب کی سلطنت میں دن کا سفیر‘ کہا ہے۔ اُن کا سراپا آج بھی ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا ماہنامہ ’شاعر‘ کے مدیر افتخار امام صدیقی نے بیان کیا ہے،’’اُلجھے سنورے بال، سوچتی ہوئی آنکھوں پر عینک، اُس کے پس منظر میںدیدہ ور آنکھیں، خوش لباس، قدرے تُنک مزاج، جوعالموں کا خاصّہ ہے۔
شمیم طارق اردو کے حقیقی ’ برانڈ ایمبسڈر ‘ ہیں۔ وہ اقبال ؔ کے اُس جگنو کی مانند ہیں جنہیں علامہ نے ’شب کی سلطنت میں دن کا سفیر‘ کہا ہے۔ اُن کا سراپا آج بھی ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا ماہنامہ ’شاعر‘ کے مدیر افتخار امام صدیقی نے بیان کیا ہے،’’اُلجھے سنورے بال، سوچتی ہوئی آنکھوں پر عینک، اُس کے پس منظر میںدیدہ ور آنکھیں، خوش لباس، قدرے تُنک مزاج، جوعالموں کا خاصّہ ہے۔ مذہبی خاندان، شور اورخامشی میں گُم، بے نیاز طبیعت، ہمہ رنگ فکری دائرے، انکساری کا سفر، رفتار میں تیزی، اپنی رو میں بہنا، تنقید،تخلیق، شاعری، صحافت، ادارت، مبصر، لفظوں کے مصور، خاندانی شرافت کے امین، مطالعہ در مطالعہ سانسیں، ہوش اُڑادینے والے انکشافات، بالیدہ روح، بے قرار دل، عشق، موسیقی، شاعری، یہ ہیںبُوٹا قد، وجیہہ شمیم طارق۔‘‘
یہ تعارف نہیں کوزے میں دریا ہے۔ ہرعنوان ایک داستان ہے۔ حسن، حق اورادراک سے ہم رشتگی نے انہیں درویش بنا دیا ہے۔ اُس کا ماننا ہے کہ ملٹن، اقبالؔ، تلسی داس، الگ الگ مذہبوں اور تہذیبوں سے ہم رشتہ ہونے کے باوجودنسانی وحدت، انسانی اکرام، انسانی فلاح اور استحصال سے پاک معاشرے کی تشکیل کا پیغام دیتے رہے ہیں۔ شمیم طارق میں آزدانہ سوچ تو ہے مگر آوارگیٔ فکر نہیں۔
اکبرؔ الہ آبادی نے جو کام اپنی ظرافت سے لیا شمیم طارق نے وہی کام اپنی صحافت سے لیا ہے۔ دونوں ناصحِ قوم اور نام چیں صوفی ٹھہرے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کی بے راہ روی ہو یامسلمانوں کے تعلیمی اداروں کی بے ضابطگی، مسلم معاشرے کی زبوں حالی ہو یا مسلم دانشوروں کی خاموشی۔ ایسے ہر موقع پر اُن سے چپ نہیں بیٹھا گیاہے۔ قوم و ملّت کی کمزوریوں، شہ زوریوں، ناسمجھیوں اور کج فہمیوں پر انگشت نمائی کی ہے اور پیر و جواں کو روکا اور ٹوکا ہے۔ شکر ہے کہ ان کی باتوں کا کبھی بُرا نہیں مانا گیا۔ بلکہ ان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہواکیونکہ ان کی نیت اور دل میں کھوٹ نہیں، خلوص ہے۔ وہ ایسے بُت شکن ہیں جو کوئے بُتاں میں کل بھی مقبول تھے اور آج بھی ہیں۔
ان کی نئی کتاب ’عارفانہ اور متصوفانہ اشعار‘ کے محرک انقلاب کے ایڈیٹر جناب شاہد لطیف ہیں۔ عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تشریح و تفیہم کا یہ سلسلہ اپریل سے اکتوبر ۲۰۲۴ء تک جاری رہا۔ ان مضامین کی مقبولیت دیکھتے ہوئے ادارہ ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی نے اسے ۲۰۲۵ء میںبڑے اہتمام سے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ یہ کتاب اس وقت پیشِ نظر ہے۔ ۱۴۴؍ صفحات پر مشتمل، دیدہ زیب،ساتھ نبھانے میں آسان، آسانی سے دل میں اور بک شیلف میں جگہ بنا لے۔ سرورق کا رنگ اور آہنگ صوفیانہ۔ انتساب کا منفرد انداز خانوادۂ کاظمیہ (کاکوروی) کے لائق فرزند پروفیسر مسعود انور علوی کے نام جن کے پاکیزہ ذوق مطالعہ نے شمیم صاحب کے اس سلسلۂ مضامین کو بے حد پسند کیا۔ صفحہ۶؍ پر شمیم صاحب کا ایک شعر جگمگا رہا ہے۔ قاری اس شعر کی گہرائی میں چلا جاتا ہے تو عجیب منظر ہوتا ہے:
وہ جو حرف شعلہ سرشت تھا تری جیت بھی مری ہار بھی
میں قلندری کی ترنگ میں وہی کہہ گیا سرِ دار بھی
کتاب میں خواجہ میر دردؔ تا سیّد امین اشرف بیس شعراء کے منتخب صوفیانہ اورمتصوفانہ اشعار کی تشریح کی گئی ہے۔ زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ طرزِ تحریر دلنشین ہے۔ یہ شمیم صاحب کی چوبیسویں تصنیف ہے۔ یوں تو اس کتاب کی کئی باتیں قابلِ ذکر ہیں مثلاً اس میں چند ایسے شاعروں کا دیدار ہوا ہے جنہیں پہلے نہیں دیکھا گیا تھا۔ ان میں شاہ تراب علی قلندراور بیدم شاہ روارثی کی تصویریں قابلِ ذکر ہیں۔’حرفِ انکسار‘ میں مصنف فرماتے ہیں کہ ’عارف سے مراد پہچاننے والایا حق کی معرفت رکھنے والااور عارفانہ سے مراد عارف کی مانند ہے۔ عارف اور عارفانہ کے مفہوم کی تفہیم کے ساتھ ہی مصنف نے اس سوال پر کہ ’متصوفانہ کیفیات کو فراقؔ ، فیض ؔ ، مخدومؔ اور جاں نثار اخترؔ نے بھی شعر کا جامہ عطا کیا ہے تو کیا انہیں یا ان کے شعروں کوبھی عارفانہ اور متصوفانہ فکر کے دائرہ میں لایا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں شمیم صاحب کہتے ہیں کہ اگر ان کی شاعری میں ایسے خیالات یا کیفیات نظم ہوئی ہیں تو انہیں صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ کتاب میں متذکرہ شاعروں کے اشعار کی بھی خوب تشریح کی گئی ہے جو یقیناً پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
ایک عرصہ سے راقم الحروف کو غالب کے ایک شعر نے مغلوب کر رکھا تھا لیکن کتاب میں اس کی فکر انگیز تفہیم نے دماغ روشن کردیا۔ غالبؔکا یہ شعر تو آپ نے سناہوگا:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
کلامِ غالبؔ کے اکثر شارحین نے اس شعر کی تشریح میں اسے غالبؔ کی روشن خیالی اور دین ِ اسلام سے انحراف کا اشاریہ قرار دیا ہے۔ شمیم صاحب اس باب میں سوال اٹھاتے ہوئے جو بات کہتے ہیں وہ دل کو لگتی ہے۔ فرماتے ہیں ’اگر کوئی شخص کنویں میں کود کر یا دریا میں چھلانگ لگا کر یا پہاڑ سے نیچے کی طرف جست لگا کر مرجانا چاہتا ہو تو اس کو آگے سے بچائیں گے یا پیچھے سے؟ یقیناً پیچھے سے پکڑ کر۔ غالبؔ یہی کہہ رہے ہیں کہ نیا تمدن اور نئے حکمراں مجھے اپنی طرف راغب کررہے ہیں مگر میں جس دین کا ماننے والا ہوں اس کے مبادیات مجھے ٹس سے مس ہونے نہیں دیتے۔ ہزار کلیسا میرے سامنے ہوں مگر کعبہ پر ایمان یا اس سے رشتہ اتنا مستحکم ہے کہ ٹوٹ نہیں سکتا۔ فراق، فیض اور جاں نثار کے یہاں ایسے اشعار مل جاتے ہیں جنہیں تصوف کے پس منظر کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ فیض ترقی پسند شاعر ہیں مگر ان کی شاعری غنائیت کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ پاکستان کے اشفاق احمد فیض کے دوست مگر فکر و عقیدے میں ان سے مختلف تھے۔ انہوں نے فیض کو ملامتی صوفی کہا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’یہ ادب، یہ صبر، ایسا دھیما پن، اس قدر درگزر، کم سخن اور احتجاج سے گریز صوفیوں کے کام ہیں۔ ان سب کو فیض صاحب نے اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے۔ اوپر سے ملامتی رنگ یہ اختیار کیا ہے کہ اشتراکیت کا گھنٹہ بجاتے پھرتے ہیںکہ کوئی قریب نہ آئے۔‘‘ اس باب میں شمیم صاحب نے فیض کے کئی اشعار نقل کئے ہیں جو ان کے صوفی ہونے کی دلالت کرتے ہیں، مثلاً :
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
فیض کا مشہور شعر بھی اسی قبیل کا ہے :
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے،کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
جاں نثار اخترترقی پسند شاعر تھے۔ صوفی خاندان سے متعلق تھے۔ منکر خدا نہیں تھے۔ اسلام کو ایک مکمل مذہب تصور کرتے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو جیکٹ کی جیب سے سگریٹ کی ڈبیا بر آمد ہوئی تھی جس پر چند شعر لکھے ہوئے تھے۔ ان شعروں میں دردمندی دُعا میں اور شکایت مناجات میں ڈھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے:
اے خدا چند گھرانوں پہ ہے اکرام ترا
بات تو جب ہے کہ رحمت تری گھر گھر برسے
ایک اور شعر ملاحظہ کریں:
تمام عمر کی نظارگی کا حاصل ہے
وہ ایک درد جو آنکھوں میں ڈھل گیا ہے میاں
ان شعروں پر تبصرہ کرتے ہوئے شمیم طارق فرماتے ہیں: ’’یہ درد مندی تصوف کی حقیقت اور روایت سے ان کی مخلصانہ وابستگی کی عطا ہے۔ وہ مذہبی شخص نہیں تھے مگر ڈھونگی باباؤں سے اچھے تھے۔‘‘
مختصر یہ کہ یہ کتاب تصوف سے دلچسپی رکھنے والوں کیلئے خصوصی اہمیت کی حامل ہے لیکن اردو کے بالغ نظر قارئین کیلئے بھی مفید اور کارآمد ہے۔ نیز تصوف پر تحقیقی کام کرنے والوں کیلئے مینارۂ نور بھی۔ شمیم طارق کا دائرہ کارایک دریا کی طرح وسیع و عریض ہے ۔ تصوف ان کی دلچسپی کا موضوع ہے۔ یقیناً یہ کتاب اس موضوع کو اور وسعت دے گی۔ میں اپنی بات کو انہی کے ایک شعر پر ختم کرتا ہوں:
کتابِ زیست صداقت ہے حرفِ حق ہوں میں
پیمبروں کا پڑھایا ہوا سبق ہوں میں