• Sun, 05 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

الحمد للہ!

Updated: January 02, 2025, 12:40 PM IST | Mumbai

اس عنوان کے تحت رمزی نے چند خطوط (جو ممکن ہے برقی پیغامات رہے ہوں ) کے اقتباسات نقل کئے ہیں جو تڑپا دینے والے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

رمزی بارود عالمی شہرت یافتہ فلسطینیصحافی ہیں جن کے مضامین ترجمہ کرکے اس اخبار میں شائع کئے جاتے رہے ہیں۔ ان کی ہمشیرہ ڈاکٹر سوما بارود چند ماہ قبل اسرائیلی میزائل میں فوت ہوئیں جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے اپنے جس مضمون میں کیا تھا، وہ انقلاب اکتوبر ۲۴ء میں شائع کیا گیا تھا۔ رمزی کے زیر نظر مضمون کی سرخی چونکاتی ہے جس کا اُردو ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا: ’’غزہ سے موصولہ خطوط: الحمد للہ، ہم ٹھیک نہیں ہیں ‘‘۔ (اس جملے میں ’’نہیں ‘‘ پر توجہ دیجئے)۔ 
اس عنوان کے تحت رمزی نے چند خطوط (جو ممکن ہے برقی پیغامات رہے ہوں ) کے اقتباسات نقل کئے ہیں جو تڑپا دینے والے ہیں۔ مثلاً ایک خط ابراہیم نامی کسی شخص کا ہے جس نے لکھا ہے کہ ’’ہماری پوری بستی تباہ کر دی گئی، ہمارا مکان برباد ہوگیا، الحمد للہ، تعریف تو بس خدا کی ہے۔ ‘‘ ایسے کئی پیغامات ہیں جن میں پیغام ارسال کرنے والے نے کسی عزیز کے فوت ہونے کی خبردی ہے تو کسی نے اپنے چہیتوں کے شدید زخمی ہونے اور طبی امداد نہ ملنے کی اطلاع بہم پہنچائی ہے۔ کسی نے بیک وقت کئی اموات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان مختصر مختصر سے پیغامات کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ ان میں تقدیر کا شکوہ نہیں ہے، ہائے ہائے نہیں ہےاور ’’خدا دشمن کو غارت کرے‘‘ جیسے فقرے نہیں ہیں۔ یہ کتنی خلافِ معمول بات ہے۔ ابراہیم کا خط ہر حال میں راضی بہ رضا رہنے کے جذبے اور تباہی و بربادی کے باوجود شکر ادا کرنے کی خو‘ کا غماز ہے، اسی لئے اِس میں بظاہر دو متضاد مگر بباطن ایک دوسرے سے مربوط باتیں (الحمد للہ اور ہم ٹھیک نہیں ہیں ) درج ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کو آزمانا ہو تو مصیبت میں آزماؤ، اہل غزہ پر ایک مصیبت نہیں آئی، مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے مگر اُن کی زبان سے کلماتِ خیر ہی نکلتے رہے اور آزادی کا اعادہ ہی کیا جاتا رہا۔ خود رمزی کی ایک ہفتہ قبل پوسٹ کی گئی نظم لاجواب اور جذبۂ حریت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس کے آخری مصرعوں کا خام ترجمہ کچھ یوں ہوگا:
’’میرا خدا آزادی ہے، ایسی آگ ہے جسے کوئی نہیں بجھا سکتا، ایسا شعلہ جو ہر جبر کا سینہ چیر کر خود کو بلند رکھتا ہے، ایسی روشنی جو راہ دکھاتی اور رہنمائی کرتی ہے، میرا خدا غزہ کا پناہ گزیں ہے، جو اہل غزہ کو آزادی دلانے کیلئے خود لڑ رہا ہے!
رمزی بارود نے مذکورہ خطوط پرانے سال اور نئے سال کی درمیانی شب میں پوسٹ کئے ہیں جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اُنہوں نے نئے سال پر اُمید وابستہ کی ہے کہ یہ سال، جس کا آغاز جشن ِ۲۰۲۵ء کے طور پر منایا جارہا ہے، اہل غزہ کیلئے تخریب و تباہی کے لق و دق صحرا میں اُمیدوں اور آرزوؤں کا گلستاں بن کر مہکے گا اور دُنیا میں جہاں جہاں جبر و استبداد ہے وہاں وہاں راحتوں کے پھول کھلائے گا۔ کہتے ہیں جب تک اُمید فروزاں رہتی ہے، زندگی لشکر ِ ظلمات سے نہیں گھبراتی۔ یہی خصوصیت اہل غزہ کے پیغامات میں ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تباہی کے ملبے پر کھڑے ہوکر اُمید کا دِیا جلایا ہے۔ آزادی کیلئے لڑنے والی قوموں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اُنہیں ڈرایا دھمکایا نہیں جاسکتا۔ وہ دہشت زدہ کرنے والی طاقتوں کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں جس کی مثال مغربی کنارہ کی جواں سال عہد تمیمی نے ۲۰۱۷ء میں پیش کی اور اپنی جرأت و بے باکی کے سبب پوری دُنیا میں مشہور ہوئی تھی۔ ایسی قوموں کے افراد موت کے آگے بھی سینہ تان کر چلتے ہیں اورفتح اپنے نام لکھواتے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK