• Fri, 31 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

اللہ نے آپؐ کو اتنا ہی نہیں سکھایا جتنا قرآن میں منقول ہے بلکہ وحیٔ خفی بھی نازل ہوتی رہی

Updated: January 31, 2025, 3:35 PM IST | Advocate Noor Elahi | Mumbai

آپؐ کی حیات ِ طیبہ ساری کائنات ِ انسانی کے لئے معیار اور نمونۂ تقلید ہے۔ آپؐ نے ہمہ پہلو بھرپور زندگی گزار کر اپنے قول و فعل و تقریر سے جو عملی رہنمائی بہم پہنچائی وہ سنت ِ نبویؐ کی حیثیت سے ہمارے لئے شریعت ہے۔

Madinah Munawwarah. Picture: INN
معلم و شارح کتاب اللہ کی حیثیت سے آپؐ نے جو کچھ فرمایا اور کتاب اللہ پر عمل کرکے قرآنی احکام کا جو منشا متعین فرمایا وہ ہمارے لئے اسی طرح ماخذِ شریعت ہے جس طرح اللہ کی کتاب ماخذ ِ شریعت ہے۔ تصویر: آئی این این

اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو تلاوت ِ قرآن، تزکیہ ٔ نفوس، کتاب و حکمت کی تعلیم اور کتاب اللہ کی تبیین (بیان، وضاحت) و تشریح کی ذمہ داری تفویض فرمائی۔ نیز آپؐ کو نمونۂ تقلید، قاضی اور حاکم و فرمانروا قرار دیا اور ان جملہ مناصب سے متعلقہ فرائض و ذمہ داریوں کو حضورؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بحیثیت رسول انجام دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو متعدد قسم کے تشریعی اختیارات تفویض فرمائے جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
 بحیثیت معلمِ کتاب و حکمت آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا گیا:’’بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسولؐ بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ ‘‘ (آل عمران:۱۶۴) 
یہی مضمون سورۃ البقرہ:۱۲۹؍ اور ۱۵۱؍ اور سورۃ الجمعہ:۲؍ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ 
تلاوت ِ قرآن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب آپؐ پر قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپؐ پہلے اُسے مردوں کے سامنے تلاوت کرتے اور پھر خواتین کے سامنے۔ (ترجمہ سیرت ابن اسحاق)
 جہاں تک کسی کتاب کی تعلیم کا تعلق ہے، اس سے مراد کتاب کے مضامین کی توضیح و تشریح ہے اور تعلیم کا مقصود یہ ہے کہ معلم کتاب کے جن مضامین کی تشریح ضروری سمجھتا ہے، ان کی وضاحت کرتا جاتا ہے۔ یہ طریقۂ تعلیم معروف ہے۔ بعض اوقات طلبہ بھی کتاب کے مشکل مقامات کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور معلم ان کے جواب دے کر اشکالات حل کرتا ہے۔ تعلیم کتاب و حکمت کا مضمون اگرچہ پوری طرح واضح تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپؐ سے فرمایا: ’’ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کیلئے وہ (پیغام و احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ ‘‘ (النحل:۴۴)
رسول اللہ ﷺ نے کتاب کی توضیح و تشریح اپنی ذاتی رائے سے نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے اللہ کی وحی کے مطابق انجام دی۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’(اے حبیب!) آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں، بے شک اسے (آپ کے سینہ میں ) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے، پھر جب ہم اسے (زبانِ جبریل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں، پھر بے شک اس (کے معانی) کا کھول کر بیان کرنا ہمارا ہی ذِمّہ ہے۔ ‘‘ (القیامہ: ۱۶؍تا۱۹)
یہ آیات صاف بتا رہی ہیں کہ قرآن کریم کے جمع کرنے، آنحضرتؐ سے تلاوت کرانے اور آپؐ کی زبانِ وحی ترجمان سے قرآن کی تشریح کرانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد کے مطابق قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری آنحضرت ؐ کے ذریعے پوری فرمائی ہے اسی طرح قرآن کے بیان یعنی اسکی تشریح و توضیح کا کام بھی آپؐ سے لیا۔ مولانا عبدالماجد دریابادی سورہ القیامہ کی آیت۱۹؍ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں :
’’قرآن کو رسولؐ تک بجنسہٖ پوری حفاظت کے ساتھ پہنچادینا جو حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا تھا، اس کا انصرام تو فرشتہ کی وساطت سے ہوا۔ اب رہا دوسرا وعدۂ الٰہی یعنی قرآن کی تبیین (بیان، وضاحت) و تشریح، یہ کس کے ذریعہ سے ہوگی؟ یہ رسول کے ذریعہ سے۔ گویا حق تعالیٰ سے رسول ؐ تک متن قرآن پہنچانے کا ذمہ دار تو فرشتۂ وحی ٹھہرا ، اور رسولؐ سے امت تک متن ِ قرآن و شرح ِ قرآن پہنچانے کے ذمہ دار رسول کریمؐ قرار پائے۔ ‘‘
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تفہیم القرآن ج ۶، ص۱۶۹؍ پر اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
’’اس سے صریح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعے سے آپؐ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں ہے۔ اس لئے کہ قرآن کے احکام و فرامین، اس کے اشارات، اس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا جو مفہوم و مدعا آپؐ کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن میں درج ہوتا تو یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا یا اس کی تشریح کردینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں مل جاتا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالب ِ قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہرحال الفاظِ قرآن کے ماسوا تھی۔ یہ وحی ٔ خفی کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں قرآن سے ملتا ہے۔ ‘‘
بحیثیت شارع، آنحضرتؐ کا منصب یہ ہے کہ انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم آپؐ کے ذریعے سے بھیجا اور یہ فریضہ آپؐ کے سپرد فرمایا کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق قرآنی احکام کی توضیح و تشریح فرمائیں اور عملی حالات پر انہیں منطبق کرکے لوگوں کو ان احکام کا ٹھیک ٹھیک منشا سمجھائیں اور ان کی تعمیل کا طریقہ سکھائیں۔ چنانچہ معلم و شارح کتاب اللہ کی حیثیت سے آپؐ نے جو کچھ فرمایا اور کتاب اللہ پر عمل کرکے قرآنی احکام کا جو منشا متعین فرمایا وہ ہمارے لئے اسی طرح ماخذِ شریعت ہے جس طرح اللہ کی کتاب ماخذ ِ شریعت ہے۔ اگر آپؐ کی تشریح و تفسیر ِ قرآن کو نہ مانا جائے تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم اپنے دعویٔ ایمان میں کس حد تک مخلص ہیں۔ 
 قرآن کریم نے رسول اکرم ﷺ کو ہمارے لئے نمونۂ تقلید قرار دیا۔ فرمایا گیا:
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسولؐ اﷲ (کی ذاتِ مبارکہ) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے ہر اُس شخص کیلئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔ ‘‘ (الاحزاب:۲۱)
 آپؐ خیرالبشر ہیں اور آپؐ کی حیات ِ طیبہ کائنات ِ انسانی کےلئے معیار اور نمونۂ تقلید ہے۔ آپؐ کی یہ صفت رسالت کے اعتبار سے ہے اور آپؐ ہمارے لئے مامور من اللہ رہنما اور پیشوا ہیں۔ آپؐ نے ہمہ پہلو بھرپور زندگی گزار کر اپنے قول و فعل و تقریر سے جو عملی رہنمائی بہم پہنچائی وہ سنت ِ نبویؐ کی حیثیت سے ہمارے لئے شریعت ہے۔ 
 بحیثیت ِ شارع رسولؐ اللہ کا ایک منصب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو قاضی مقرر فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے:
٭ ’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ ‘‘ (النساء:۶۵)
٭ ’’ بیشک ہم نے آپ کی طرف حق پر مبنی کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ لوگوں میں اس (حق) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اللہ نے آپ کو سمجھا دیا ہے۔ ‘‘ (النساء:۱۰۵)
٭ ’’اور فرما دیجئے: جو کتاب بھی اللہ نے اتاری ہے میں اُس پر ایمان رکھتا ہوں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف کروں۔ ‘‘ (الشوریٰ:۱۵)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے رسولؐ کی حیثیت سے ہی قاضی ہیں اور ایک شخص کے ’’ایمان بالرسالت‘‘ کی صحت کا تقاضا ہے کہ وہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ قاضی تسلیم کرلے۔ چنانچہ آپؐ نےمختلف مقدمات میں وقتاً فوقتاً جو فیصلے صادر فرمائے وہ ہمارے لئے شریعت ہیں اور ماخذِ قانون ہیں۔ 
٭ بحیثیت شارع رسول اکرم ﷺ کا ایک منصب یہ ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے ہوئے مطاعِ مطلق (جس کی مکمل اطاعت کی جائے) حاکم و فرمانروا ہیں۔ امام ابوبکر احمد بن علی جصاص نے احکام القرآن کے باب وجوب طاعۃ الرسول ﷺ میں تحریر کیا:
’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اطاعت کر وہ اللہ کی اور اطاعت کر وہ رسولؐ کی (النساء: ۵۹) ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت کی جائے۔ (النساء:۶۴)جس نے رسولؐ کی اطاعت کی بے شک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء:۸۰) ان آیات میں اللہ عز و جل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے وجوب کی تاکید فرمائی اور بیان کیا کہ رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور علی ہذا القیاس رسولؐ کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پس وہ لوگ ڈریں جو رسولؐ کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں ) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا۔ (النور:۶۳)
 اللہ تعالیٰ نے رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی پر وعید سنائی ہے اور رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی اور آپؐ کی لائی ہوئی شریعت کو تسلیم نہ کرنے والوں یا اس میں شک کرنے والوں کو خارج از ایمان قرار دیا ہے۔ یہ مضمون سورہ النساء کی آیت نمبر ۶۵؍ میں بالصراحت بیان کیا گیا ہے۔ 
مندرجہ بالا اقسام کے تشریعی اختیارات کے علاوہ اس بارے میں آپؐ کے مزید اختیارات کے لئے مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں :
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسولؐ تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسولؐ کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو۔ ‘‘ (الانفال:۲۴)
’’ (یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے) جو اس رسولؐ کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانب ِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں ) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کیلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ ‘‘ (الاعراف:۱۵۷)’’اور جو کچھ رسولؐ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ ‘‘ (الحشر:۷)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK