• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اُس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے

Updated: April 21, 2024, 1:53 PM IST | Literature Desk | Mumbai

آج، ۲۱؍اپریل کو شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبالؔ کے ۸۶؍ویں یومِ ِوفات کی مناسبت سے، علامہ کے فرزند جاوید اقبال کی زبانی اُن کے آخری وقت کی روداد!

Allama Iqbal. Photo: INN
علامہ اقبال۔ تصویر : آئی این این

۲۰؍ اپریل ۱۹۳۸ء کی صبح کو ان کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی۔ انہوں نے معمول کے مطابق دلیے کے ساتھ چائے کی پیالی پی۔ میاں محمد شفیع سے اخبار پڑھوا کر سنا اور رشید حجام سے شیو بنوائی۔ دوپہر کو ڈاک میں جنوبی افریقہ کے کسی اخبار کے تراشے موصول ہوئے۔ خبر یہ تھی کہ وہاں کے مسلمانوں نے نمازِ جمعہ کے بعد اقبال اور مصطفیٰ کمال کی صحت اور عمر درازی کے لئے دعا کی ہے۔ کوئی ساڑھے چار بجے بیرن فان والتھائم انہیں ملنے کے لئےآگئے۔ بیرن فان والتھائم نے جرمنی میں اقبال کے طالب علمی کے زمانے میں ان کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا اور اب وہ جرمنی کے نازی لیڈر ہٹلرکے نمائندے کی حیثیت سے ہندوستان اور افغانستان کا سفر کر کے شاید ان ممالک کے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ ہندوستان کا دورہ مکمل کر چکنے کے بعد وہ کابل جا رہے تھے۔ اقبال اور بیرن فان والتھائم دونوں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک ہائیڈل برگ یا میونخ میں اپنی لینڈ لیڈی، احباب اور اساتذہ کی باتیں کرتے رہے۔ پھر اقبال نے انہیں سفر افغانستان کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ جب بیرن فان والتھائم جانے لگے تو اقبال نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کر کے انہیں رخصت کیا۔ شام کی فضا میں موسم بہار کے سبب پھولوں کی مہک تھی، اس لئے پلنگ خواب گاہ سے اٹھوا کردالان میں بچھوایا اور گھنٹہ بھر کے لئے وہیں لیٹے رہے۔ جب خنکی بڑھ گئی تو پلنگ گول کمرے میں لانے کا حکم دیا۔ گول کمرے میں ساڑھے سات سالہ منیرہ، آپا جان کے ساتھ ان کے پاس گئی۔ منیرہ ان کے بستر میں گھس کر ان سے لپٹ گئی اور ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگی۔ منیرہ عموماً دن میں تین بار اقبال کے کمرے میں جاتی تھی۔ صبح اسکول جانے سے پہلے، دوپہر کو اسکول سے واپس آنے پر اور شام کو سونے سے قبل۔ لیکن اس شام وہ ان کے پہلو سے نہ اٹھتی تھی۔ دو تین بار آپا جان نے اسے چلنے کے لئے کہا مگر وہ نہ مانی۔ یہی کہتی رہی کہ بس تھوڑی دیر اور۔ اس پر اقبال نے مسکراتے ہوئے آپاجان سے انگریزی میں کہا، اسے اس کی حس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے۔ منیرہ اور آپاجان کے اندر چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم، پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین گھنٹے آدھ گھنٹے کے لئے آ بیٹھیں اوران سے کالج میں درسِ قرآن کے انتظامات کے متعلق باتیں کرتی رہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم

رات کو آٹھ ساڑھے آٹھ بجے چوہدری محمد حسین، سید نذیر نیازی، سید سلامت اللہ شاہ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آگئے۔ ان ایام میں میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبد القیوم تو جاوید منزل میں ہی مقیم تھے۔ اقبال کے بلغم میں ابھی تک خون آرہا تھا اور اسی بناء پر چوہدری محمد حسین نے ڈاکٹروں کے ایک بورڈ کی میٹنگ کا انتظام جاوید منزل میں کیا تھا۔ اس زمانے کے معروف ڈاکٹر کرنل امیر چند، الٰہی بخش، محمد یوسف، یار محمد، جمعیت سنگھ وغیرہ سبھی موجود تھے اور انہوں نے مل کر اقبال کا معائنہ کیا۔ گھر میں ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا، کیونکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر رات خیریت سے گزر گئی تو اگلے روز نیا طریق علاج شروع کیا جائے گا۔ کوٹھی کے صحن میں مختلف جگہوں پر اقبال کے اصحاب دو دو تین تین کی ٹولیوں میں کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اقبال سے ڈاکٹروں کی رائے مخفی رکھی گئی، لیکن وہ بڑے تیز فہم تھے۔ احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی موت کا وقت قریب آپہنچا ہے۔ چند یوم پیشتر جب کسی نے ان کی صحت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا تو فرمایا: میں موت سے نہیں ڈرتا۔ بعد ازاں اپنا یہ شعر پڑھا تھا:
نشانِ مرد مومن با تو گویم=چوں مرگ آید تبسم برلب اوست
(میں تجھے مردِ مومن کی نِشانی بتاؤں ؟ جب موت آتی ہے 
تو اس کے لبوں پر تبسم ہوتا ہے۔ )
 پس اس رات وہ ضرورت سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آرہے تھے۔ راقم کوئی نو بجے کے قریب گول کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا کون ہے؟ راقم نے جواب دیا : جاوید۔ ہنس پڑے، فرمایا: جاوید بن کر دکھاؤ تو جانیں۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا: چوہدری صاحب! اسے ’’جاوید نامہ‘‘ کے آخر میں وہ دعا ’’خطاب بہ جاوید‘‘ ضرور پڑھوا دیجئے گا۔ اتنے میں علی بخش اندر داخل ہوا۔ اسے اپنے پاس بیٹھنے کے لئے کہا۔ علی بخش نے بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ چوہدری محمد حسین نے اسے حوصلہ رکھنے کی تلقین کی۔ فرمایا آخر چالیس برس کی رفاقت ہے، اسے رو لینے دیں۔ رات کے گیارہ بجے اقبال کو نیند آگئی۔ البتہ میاں محمد شفیع اور ڈاکٹر عبدالقیوم کے علاوہ راجہ حسن اختر نے اس رات جاوید منزل ہی میں قیام کیا اور باہر دالان میں چارپائی بچھا کر لیٹ گئے۔ راقم بھی حسب ِ معمول اپنے کمرے میں جا کر سو رہا۔ 
 اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لئے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں شدید درد کے باعث بیدار ہو گئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع نے خواب آوار دوا دینے کی کوشش کی، مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ فرمایا: دوا میں افیون کے اجزاء ہیں اور میں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد شفیع ان کے شانے اور کمر دبانے لگے تا کہ درد کی شدت کم ہو، لیکن تین بجے رات تک ان کی حالت غیر ہوگئی۔ میاں محمد شفیع، حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے ان کے گھر گئے، مگر ان تک رسائی نہ ہو سکی اور ناکام واپس آگئے۔ اقبال درد سے نڈھال تھے۔ میاں محمد شفیع کو دیکھ کر فرمایا: افسوس قرشی صاحب بھی نہیں پہنچ سکے۔ تقریباً پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ کر اندر آئے۔ انہیں بھی حکیم محمد حسن قرشی کو بلانے کے لیے کہا۔ وہ بولے: حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے تھے اور اس وقت انہیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اسی پر اقبال نے یہ قطعہ پڑھا:
سرود رفتہ باز آید کہ ناید=نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگار ایں فقیرے=دگر دانائے راز آید کہ ناید
(جو سرود چلا گیا پھر آتا ہے یا نہیں آتا؟ عرب کے خطہ حجاز مقدس سے پھر ٹھنڈی ہوا آتی ہے یا نہیں آتی؟ اس فقیر کا آخری وقت آ گیا ہے (زندگی ختم ہوئی) کوئی دوسرا راز کو سمجھنے والا آتا ہے یا نہیں آتا؟)
 راجہ حسن اخترقطعہ کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن قرشی کو لانے کے لئے روانہ ہوگئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا پلنگ گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے فروٹ سالٹ کا گلاس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ اذانیں ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع صبح کی نماز ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے اور صرف علی بخش اقبال کے پاس تھا۔ اسی اثناء میں اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ دل پر رکھے اور ان کے منہ سے ’’ہائے‘‘ کا لفظ نکلا۔ علی بخش نے فوراً آگے بڑھ کر انہیں شانوں سے اپنے بازؤوں میں تھام لیا۔ فرمایا: دل میں شدید درد ہے اور قبل اس کے کہ علی بخش کچھ کر سکے، انہوں نے ’’اللہ‘‘ کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو پانچ بج کر چودہ منٹ صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے دیرینہ ملازم کی گود میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ 
  طلوعِ آفتاب کے بعد جب راقم اور منیرہ نے ان کے دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو کر ڈرتے ڈرتے اندر جھانکا تو خواب گاہ میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ پلنگ پر سیدھے لیٹے تھے۔ انہیں گردن تک سفید چادر نے ڈھانپ رکھا تھا، جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلہ کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے اور سر کے بالوں کے کناروں پر راقم کے کہنے سے آخری بار لگائے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔ 
(زندہ رُود، ڈاکٹر جاوید اقبال، ص ۷۱۸؍ تا ۷۲۰)
عطیہ بیگم: اقبال سے میری پہلی ملاقات
  پہلی اپریل ۱۹۰۷ء کے لئے مس بیک نے انہی کے الفاظ میں مجھے ’’ایک مخصوص دعوت نامہ ‘‘ بھیجا تاکہ میں ایک ذہین اور طباع طالب علم سے ملاقات کروں جس کا نام محمد اقبال ہے جو کیمبرج سے خاص طور پر مجھ سے ملنے کے لئے آرہے ہیں۔ اس دعوت نامہ نے میرے لئے قدرے دلچسپی پیدا کردی اس لئے کہ اس سے قبل میں نے اقبالؔ کا نام بھی نہ سنا تھا اور چونکہ لندن میں مختلف ہندوستانیوں کے پاس سے میرے پاس ایسے دعوت نامے آیا کرتے تھے اس لئے اس دعوت نامے نے عارضی شوقِ تجسس سے زیادہ اور کوئی جذبہ پیدا نہیں کیا۔ مگر چونکہ مس بیک لندن کے مقیم ہندوستانی طلبہ کی بہبودی کی نگراں تھیں اور ان سے مادر ِ مشفق کا سا برتاؤ کرتی تھیں اس لئے ان کے حکم کی تعمیل لازمی تھی۔ کھانے کی میز پر جو گفتگو ہوئی اس سے میں نے یہ اندازہ کیا کہ اقبالؔ فارسی اور عربی کے علاوہ سنسکرت میں بھی اچھی دستگاہ رکھتے ہیں، بہت بڑے حاضر جواب ہیں اور دوسرے کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے اور حاضرین پر مزاحیہ فقرے کسنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ (اقبال از عطیہ بیگم)
مولانا ظفرعلی خاں : اقبال، میرا دوست
 اقبال سے میری ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب وہ انارکلی والے مکان میں رہا کرتے تھے۔ اس سے پہلے جب میں حیدرآباد میں تھا تو ’’مخزن‘‘ میں ان کی نظمیں دیکھ کر میں نے انہیں ایک خط لکھا جس میں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو خراج تحسین ادا کیا گیا تھا، اقبال نے بھی اس خط کا جواب بہت دوستانہ پیرائے میں لکھا اور یوں میرے اور ان کے درمیان ’’قلمی دوستی‘‘ قائم ہوگئی۔ جب میں لاہور آیا تو انارکلی والے مکان ہی میں اقبال سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ان دنوں وہ جوان تھے، شباب ان کے چہرے سے پھوٹ پھوٹ پڑتا تھا۔ پہلی ملاقات میں وہ مجھ سے کھل گئے اور ایسے بے تکلف ہوئے کہ مجھے ان کی دوستی پر مسرت ہونے لگی۔ اس کے بعد میں ان سے برابر ملتا رہا۔ ان ملاقاتوں میں اس دور کے مسائل، شاعری، فلسفے اور نہ جانے کن کن مسائل پر گھنٹوں ہماری گفتگو جاری رہتی اور جب میں ان سے مل کر لوٹتا ہمیشہ مجھے یہی محسوس ہوتا کہ اقبال کو محض ایک شاعر سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے، وہ ایک عظیم المرتبت فلسفی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ ملت ِ اسلامیہ کی حیات ِ نو کا پیغامبر ہے۔ (علامہ اقبال: اپنوں کی نظر میں )
اقبال: اپنی زبانی
 میں شعر کہنے کے لئے کوئی تیاری نہیں کرتا۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ کوئی خیال دماغ میں ہے جس کا اظہار مفید معلوم ہوتا ہے۔ یہ خیال دماغ میں چکر لگاتا رہتا ہے۔ پھر کسی وقت بغیر ارادے کے نظم کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ بیک وقت پوری رباعی یا نظم موزوں ہوگئی، گویا کسی نے لکھوا دی ہے۔ بعض وقت تو شعر اس تیزی سے نظم ہوتے ہیں کہ ان کا لکھنا دشوار ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد پھر کئی کئی روز تک ایک شعر بھی موزوں نہیں ہوتا۔ کوشش اور ارادہ بھی ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ سال میں چار پانچ ماہ تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں ایک خاص قوت پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بلاارادہ شعر کہتا رہتا ہوں۔ مگر زیادہ تر طبیعت کا رجحان شعرگوئی کی طرف ہوتا ہے۔ ان دنوں عموماً رات کو شعر گوئی کے لئے بیدار رہنا پڑتا ہے۔ میں نے زیادہ سے زیادہ ایک رات میں تین سو اشعار کہے ہیں۔ چار پانچ ماہ کے بعد یہ قوت ختم ہوجاتی ہے تو غور و فکر کے بعد شعر کہے جاسکتے ہیں مگر یہ آورد ہوتی ہے۔ جب شعر کہنے کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ ایک ماہی گیر نے مچھلیاں پکڑنے کے لئے جال ڈالا ہے۔ (اقبال بحیثیت شاعر، مرتبہ رفیع الدین ہاشمی)
یہ بھی ایک پہلو ہے
 زمانہ طالبعلمی میں وہ بعد از نماز فجر بڑی باقاعدگی سے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے اور اکثر ان کے والد صوفی نور محمد ان کے پاس آکر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک روز انہوں نے اقبال کو ایک راز کی بات بتانے کا کہا۔ اقبال نے متعدد بار اپنے والد سے وہ راز کی بات جاننا چاہی، لیکن وہ فردا کا وعدہ کرکے ٹال جاتے۔ یہاں تک کہ اقبال اسکول سے کالج تک پہنچ گئے اور جب لاہور سے وہ فارغ التحصیل ہوکر پہنچے تو ایک بار پھر اپنے والد سے اس راز کی بات کیلئے اصرار کیا جسے وہ مسلسل ٹال رہے تھے۔ اب ان کے والد نے بتایا:’’جب بھی تم قرآن پاک پڑھو تو یہ سمجھ کہ اللہ تعالیٰ تم سے ہم کلام ہے اور قرآن تم نازل ہو رہا ہے۔ ‘‘ اس جملے نے اقبال کے دل پر بہت اثر کیا۔ آخری ایام میں ایک جرمن باشندہ جو اقبال کا بے حد مداح تھا، ملاقات کے لئے آیا۔ اس نے رسمی مزاج پرسی کے بعد اقبال سے بیماری کی تفصیلات جاننا چاہی۔ اقبال نے مسکراتے ہوئے بڑے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا:’’میں مسلمان ہوں اور موت سے نہیں ڈرتا۔ موت جب آئے گی تو مجھے ہنستے ہوئے پائے گی۔ ‘‘(پروفیسر عبدالحق)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK