• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کانگریس کی شکست بھلے ہی ہوئی لیکن اس کے ووٹرس کی تعداد بڑھ گئی

Updated: December 10, 2023, 3:20 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

۳؍ ریاستوں میں شکست کے باوجودکانگریس کے مظاہرے نے ملک کے انصاف پسند طبقے کیلئے امید کی کرن کو برقرار رکھا ہے۔

The election result for Congress is disappointing in terms of seats but encouraging in terms of votes. Photo: INN
سیٹوں کے لحاظ سےکانگریس کیلئے انتخابی نتیجہ مایوس کن ہے لیکن ووٹوں کے لحاظ سے حوصلہ افزا ہے۔ تصویر : آئی این این

۳؍دسمبر کو چار ریاستوں کے انتخابی نتائج کا اعلان ہو گیا۔ ۴؍ میں سے تین ریاستوں میں بی جے پی اور ایک ریاست میں کانگریس اقتدار میں آئی۔ خاص بات یہ ہے کے اقتدار مخالف لہر کا اثر مدھیہ پردیش کو چھوڑ کر سبھی ریاستوں میں نظر آیالیکن مدھیہ پردیش کے عوام نے شیوراج چوہان کی حکومت کے تئیں اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔ اس کے بعد مبصرین نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کرنا شروع کر دیا یا یوں کہیں کہ جو میڈیا میں چل رہا تھا، اس کو اپنے انداز میں پیش کرنا شروع کر دیا۔کچھ لوگوں نے جہاں اس شکست کے لئے ای وی ایم کو ذمہ دار ٹھہرایا وہیں کچھ لوگوں نے اس ہار میں بھی جیت کے پہلو نکالنے شروع کر د ئیے۔ جن کو اس ہار میں جیت نظر آئی ان کا خیال ہے کہ کانگریس اب انڈیا اتحاد میں ذرا ڈھنگ سے بات کرے گی۔ اگر جیت جاتی تو وہ بہت حاوی ہوجاتی اور کچھ نے تو کانگریس کو زیادہ ووٹ ملنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسے ہی نتائج لوک سبھا میں بھی آئے تو بی جے پی کو کئی سیٹوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ان سیٹوں کا تجزیہ بھی کیا گیا کیونکہ۲۰۱۹ء میں ان ریاستوں میں بی جے پی کو زبردست کامیابی ملی تھی۔ جہاں تک کانگریس کو زیادہ ووٹ ملنے کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کیوں کہ اسے ۵؍ ریاستوں کے انتخابات میں بی جے پی سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ بی جے پی نے بھلے ہی بے مثال کامیابی حاصل کی ہے لیکن اسے کانگریس کے مقابلے مجموعی طور پر ۱۱؍ لاکھ ووٹ کم ملے ہیں۔ یہ ووٹوں کی اتنی بڑی تعداد ہے کہ اس کی مدد سے کئی سیٹوں کی نتیجے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
 بی جے پی نے بھلے ہی اپنے دم پر چھتیس گڑھ اور ایم پی میں حکومت بنالی ہے جبکہ راجستھان میں روایت کے برقرار رہنے کی وجہ سے وہ اقتدار میں واپس آئی ہے لیکن یہاں شکست کے باوجود کانگریس کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ نے بی جے پی کی راتوں کی نیند حرام کردی ہو گی۔پانچوں ریاستوں میں بی جے پی کو مجموعی طور پر ۴؍ کروڑ ۸۱؍ لاکھ سے زائد ووٹ ملے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ۳؍ ریاستوں میں شکست کے باوجود کانگریس کو ۴؍ کروڑ  ۹۲؍ لاکھ کے قریب ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ 
 ریاستی بنیاد پر اگر اعداد و شمارپر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ چھتیس گڑ ھ میں بی جے پی کو ۷۲؍ لاکھ۳۴؍ ہزار ووٹ ملے جبکہ کانگریس کو ۶۶؍ لاکھ ۲؍ ہزار ووٹ ملے۔میزورم میں بی جے پی کو صرف ۳۵؍ ہزار ووٹ ملے جبکہ کانگریس کو ایک لاکھ ۴۶؍ ہزار سے زائد ووٹ ملے ہیں ۔مدھیہ پردیش جہاں بی جے پی نے غیر متوقع طور پر بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے، وہاں اسے۲؍ کروڑ ۱۱؍ لاکھ سے زائد ووٹ ملے ہیں لیکن کانگریس بھی پیچھے نہیں رہی ۔ اس کی سیٹیں بھلے ہی کم آئی ہوں لیکن اسے ایک کروڑ ۷۵؍ لاکھ سے زائد ووٹ ملے ہیں ۔ جہاں تک راجستھان کی بات ہے تو کانگریس نے یہاں پر فرق کافی کم رکھا ہے۔ یہاں کانگریس کو ایک کروڑ ۵۶؍ لاکھ ووٹ ملے ہیں جبکہ بی جےپی کو ایک کروڑ ۶۵؍ لاکھ سے زائد ووٹ ملے ہیں ۔ یہاں کانگریس کی شکست ہوئی ہے لیکن اس میں بھی پارٹی نے اپنے ووٹ شیئر کو بڑھایا ہے جس پر زعفرانی پارٹی کی بھی نظر ہو گی۔جہاں تک تلنگانہ کی بات ہے تو یہاں کانگریس نے بی جے پی کو بری طرح پٹخنی دی ہے۔ یہاں پر کانگریس کو ۹۲؍ لاکھ سے زائد ووٹ ملے ہیں جبکہ بی جے پی صرف ۳۲؍ لاکھ ووٹ ہی حاصل کرسکی ہے۔ سیٹوں کے تناظرمیں نتائج کو دیکھا جائے تو کانگریس کیلئے یہ مایوس کن ہے لیکن ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پارٹی کیلئے یہ کافی حوصلہ افزا بات ہے کیونکہ اسے ووٹ دینے والوں کی تعداد بہر حال بی جے پی سے زیادہ ہے۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کوملنے والے ووٹوں کا فیصد کافی اچھا ہے مگر سیٹوں میں جو فرق ہے وہ بہت بڑا ہے۔ ووٹوں کا یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ کانگریس ان ریاستوں میں جوابی حملہ کر سکتی ہے کیونکہ ان ریاستوں میں اس کا تنظیمی ڈھانچہ اتر پردیش اور بہار کی طرح کمزور نہیں ہے لیکن اس کے لئے جس نظریاتی مضبوطی، محنت، لگن، تال میل، اتحاد و اتفاق اور ایثار کے جذبہ کی ضرورت ہے فی الحال اس کا فقدان نظر آ رہا ہے۔ پارٹی کے اعلیٰ لیڈران محنت تو خوب کررہے ہیں لیکن وہ محنت زمین تک پہنچانے کا کام جس سطح پر ہونا چاہئے وہ نہیں ہو پا رہا ہے۔
ہر چند کہ حقیقت یہی ہے کہ ان ریاستوں میں بی جے پی اور مودی کی جیت ہوئی ہے جس کا نفسیاتی فائدہ لوک سبھا میں بی جے پی کو ملے گا لیکن ووٹوں کی تعداد بی جے پی کے بھی ذہن میں ہو گی۔ بی جے پی کو یہ بھی اندازہ ہو گا کہ یہ الیکشن ریاستی اور مقامی موـضوعات پر لڑے گئے تھے جبکہ قومی سطح کے موضوعات بالکل مختلف ہیں۔ کانگریس اور انڈیا اتحاد کافی وقت سے بےروزگاری اور مہنگائی کا موضوع اٹھا رہا ہے اور اس الیکشن میں بھی اسے اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کو سلنڈر سستے دام میں دینے کا وعدہ کرنا پڑا۔ اس پس منظر میں کانگریس کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد کافی اہم ہو جاتی ہے کیوں کہ کانگریس کا پیغام ووٹرس تک پہنچا ہے۔  ہر چند کہ انہوں نے دیگرمصلحتوںکو دھیان میں رکھ کر ووٹ دیا لیکن کانگریس جس موضوع پر مسلسل گفتگو کررہی ہے اس کے اثرات ووٹرس کے ذہن پر مرتب ہو رہے ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ لوک سبھا کے نتائج ان ۳؍ ریاستوں کے نتائج سے بالکل مختلف ہوں گے۔ کانگریس کے اس مظاہرے نے ملک کے انصاف پسند اور سیکولر طبقے کے لئے امید کی کرن کو برقرار رکھا ہے۔ 
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کامیابی کا پورا کریڈٹ وزیر اعظم  نریندرمودی کو ملنا چاہئےکیونکہ بی جے پی نے تینوں ریاستوں میں کسی کو بھی وزارت اعلیٰ کا امیدوار نہیں بنایا۔ مدھیہ پردیش میں بھی شیوراج چوہان کو پوری طرح نظر انداز کیا گیا۔ انتخابی پوسٹروں  سے بھی ان کا چہرہ غائب تھا۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی کا سب سے اہم چہرہ سابق وزیر اعلیٰ رمن سنگھ ہیں مگر انہیں بھی دوران انتخابات حاشیے ہی پر رکھا گیا تھا۔ راجستھان میں بھی یہی تجربہ دہرایا گیااور وسندھرا راجے سندھیا کو پوری طرح سے نظر انداز کیا گیا۔ ان ریاستوں کی پوری انتخابی مہم وزیر اعظم مودی کے ارد گرد ہی تھی۔ اب  ظاہر سی بات ہے کہ وہ جسےچاہیں گے وزیر اعلیٰ نامزد کر دیں گے مگر ان حالات میں اس حقیقت کی طرف بھی ہمارا دھیان ہونا چاہئے کہ ہندوستان کے مفاد میں سوچنے والے خود کو  اقلیت میں محسوس کررہے ہیں۔ کھلی سوچ رکھنے والے اور ملک کے مفاد میں سوچنے والے افراد کی تعداد بہت تیزی کے ساتھ سمٹ رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK