پارلیمنٹ میں نظم و ضبط کے نام پر اپوزیشن کے اراکین کو جس طرح سے معطل کیا جا رہا ہے، وہ حیران کن ہے۔
EPAPER
Updated: December 24, 2023, 3:32 PM IST | Priya Darshan | Mumbai
پارلیمنٹ میں نظم و ضبط کے نام پر اپوزیشن کے اراکین کو جس طرح سے معطل کیا جا رہا ہے، وہ حیران کن ہے۔
پارلیمنٹ میں نظم و ضبط کے نام پر اپوزیشن کے اراکین کو جس طرح سے معطل کیا جا رہا ہے، وہ حیران کن ہے۔ یہ ایک طرح کا نیا’ڈسپلن فیسٹیول‘ ہے جس میں یہ سچائی چھپائی جارہی ہے کہ حکومت پارلیمنٹ میں بات چیت اور بحث سے پیچھا چھڑا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اسے بغیر اپوزیشن والی پارلیمنٹ چاہئے جہاں کسی بحث ، کسی رکاوٹ اور کسی مزاحمت کے بغیر اپنی پسند کے تمام بلوں کو وہ دونوں ایوانوں میں پاس کرواسکے۔
افسوس کہ اپوزیشن کے اراکین جس معاملے پر بحث کے متمنی ہیں ، وہ موضوع احتجاج اور ہنگامہ آرائی میں غائب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ حز ب اختلاف پارلیمنٹ کی سیکوریٹی کے دوران چار نوجوانوں کے ایوان میں داخل ہوجانے کے معاملے پر حکومت سے جواب چاہتی ہے۔ اپوزیشن کے اراکین چاہتے ہیں کہ وزیر داخلہ امیت شاہ اس پر ایوان میں آکر بیان دیں ۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ اس معاملے پر باہر تو بیانات دے رہے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں کچھ کہنے کیلئے تیار نہیں ہیں ؟ کیا یہ غیر پارلیمانی مطالبہ ہے یا پھر یہ ایسی کوئی مانگ ہے جسے ناممکن کہا جاسکے؟ اگر وزیر داخلہ ایوان کے اندر وہی کہہ دیں جو وہ باہر کہہ رہے ہیں تو کیا ہوجائے گا؟اس حوالے سےسب سے اہم سوال یہ ہے کہ حکومت اس کیلئے تیار کیوں نہیں ہو رہی ہے؟
اِس وقت دہلی پولیس اس معاملے کے ملزم نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کی اس کوشش کے ساتھ ایک اور نام بھی لامحالہ شامل ہونے والا ہے۔ وہ بی جے پی کے میسور کے رکن پارلیمان پرتاپ سمہا ہیں ، جن کے دستخط سے جاری کئے گئے ’پاس‘ پر یہ نوجوان پارلیمنٹ میں داخل ہوئے۔ جس وقت پارلیمنٹ میں اس موضوع پر بحث ہوگی، اُس وقت یہ سوال خود بخود اٹھے گا کہ وہ کس کی مدد سے لوک سبھامیں داخل ہوئے؟ پرتاپ سمہا کو بتانا پڑے گا جووہ باہر کہہ رہے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو نہیں جانتے.... یا پھر انہیں اس بات کااعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ بھی اس سازش میں شامل ہیں ۔ دونوں ہی صورتوں میں ان کے خلاف کارروائی ہونی چا ہئے۔ پارلیمنٹ کی سیکوریٹی کی سب سے بڑی ذمہ داری اراکین پارلیمان ہی پر عائد ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی نامعلوم شخص کو پاس دے دیتے ہیں تو یہیں سے پارلیمنٹ کی سیکوریٹی سے کھلواڑ شروع ہوجاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پرتاپ سمہا کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کی جانی چاہئے جیسا کہ پاس ورڈ شیئر کرنے کے معاملے میں مہوا موئترا کے خلاف کیا گیا تھا..... لیکن ایوان میں بیٹھے پرتاپ سمہا بڑے فخر سے بلوں کو پاس کرانے میں حکومت کی مدد کر رہے ہیں اور پارلیمنٹ کی سیکوریٹی پر حکومت سے جواب مانگنے والوں کو باہر پھینک دیا گیا ہے۔
اگراس معاملے کا باریک بینی سےتجزیہ کیا جائے تو یہی بات سمجھ میں آئے گی کہ حکومت اپوزیشن کو خاطر میں نہیں لانا چاہتی اور اس کے کسی سوال کا جواب نہیں دیناچاہتی لیکن بات صرف پرتاپ سمہا کو بچانے کی نہیں ہے۔ اب یہ بات بھی پوری طرح سے واضح ہوچکی ہے کہ جو لڑکے پارلیمنٹ میں داخل ہوئے ہیں، وہ کچھ بھی ہوں مگر دہشت گرد نہیں ہیں۔ ان کے پس منظر کی جانچ ہوچکی ہے۔ اگر ان نوجوانوں کا کوئی دہشت گردانہ کارروائی کا ارادہ ہوتا تو وہ رکن پارلیمان پرتاپ سمہا کی لاپروائی کی وجہ سے جہاں تک پہنچ گئے تھے، وہاں سے وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔
یہ سچ ہے کہ یہ بھی انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس قسم کی دخل اندازی جرم ہی ہے، اسلئے انہیں وہ سزا دی جائے گی جس کے وہ مستحق ہیں.... لیکن ذرا سوچیں، اگر یہ لوگ بی جے پی کے رکن پارلیمان کے بجائے کانگریس یا ٹی ایم سی کے رکن پارلیمان یا پھر ایم آئی ایم کے رکن پارلیمان سے پاس بنوا کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئے ہوتے تو کیا ہوتا؟ اُس وقت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بی جے پی کا رُخ کیا ہوتا؟ وہ ایسے کسی بھی رکن پارلیمان کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دیتی اور اس کیلئے سخت ترین سزا کا مطالبہ کرتی۔ وہ پارلیمنٹ میں اس پر بحث بھی چاہتی اور ساری اپوزیشن پر یہ الزام بھی عائد کرتی کہ اس کی وجہ سے پارلیمنٹ بھی محفوظ نہیں ہے... لیکن حقیقت چونکہ کچھ اور ہے، اسلئے بی جے پی کے اراکین نے اپنے ہونٹوں پر مہر لگا رکھی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں اب وہ اس موضوع پر دوسروں کے ہونٹ بھی سل دینے میں مصروف ہے۔اگر بحث ہوتی تو یہ بات بھی سامنے آجاتی کہ پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے پیچھے اُن نوجوانوں کا کیا مقصد تھا؟ اس کی وجہ سے نوجوانوں کی مایوسی کا پتہ بھی چلتا جو فی الحال شور شرابے میں کہیں نظر نہیں آرہا ہےاور جس کا ذکر کرنے پر وزیراعظم اسے دہشت گردوں کا حامی قرار دے رہے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ان ’دہشت گردوں‘ کا اصل ساتھ بی جے پی کے ایک ایم پی نے دیا اور پھر باقی بی جے پی اپنے اس ساتھی کو بچانے میں مصروف ہے۔ تو یہ وہ بحث ہے جس سے بی جے پی اپنے آپ کو اور اپنے وزیر داخلہ کو بچانا چاہتی ہے۔ اس کیلئے اگر اسے پارلیمانی جمہوریت میں بحث اور گفتگو کی روایت کو بھی قربان کرنا پڑے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے ہنگامے کو بی جے پی اب ایک نیا موڑ دے رہی ہے۔ مسلسل دو دن تک جاری رہنے والی معطلی کی غیر جمہوری کارروائی کے بعد اپوزیشن کے کچھ اراکین پارلیمان نے ایوان کے احاطے میں نائب صدر جگدیپ دھنکر کی نقل کی اور راہل گاندھی اس کا ویڈیو بناتے نظر آئے۔ اس سے نائب صدر اور وزیر اعظم کو اتنا دکھ پہنچا کہ انہیں فون پر بات کرنی پڑی۔ وزیراعظم کو اپنی مبینہ توہین کی یاد آگئی جو گزشتہ ۲۰؍ سال سے جاری ہے۔
’سلیکٹیومیموری‘ یعنی منتخب یادداشت اسے ہی کہا جاتا ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ سیاسی محاذ آرائیوں کے درمیان وزیراعظم نے جتنی گالیاں جھیلی ہوں گی، اس سے کہیں زیادہ خود انہوں نے دوسروں کو دی ہیں۔ ان کے ساتھیوں اور بھکتوں کے ذریعہ دی گئی گالیاں بھی اگر اس جوڑ دی جائیں تو جمہوریت شرم سار ہو سکتی ہے۔ ان میں خواتین کے بارے میں انتہائی افسوسناک تبصرے بھی شامل ہیں۔ یہاں ان کی گنتی کا کوئی فائدہ نہیں، لیکن کیا جگدیپ دھنکر کی نقل اتارنا اتنا غیر جمہوری عمل ہے کہ اس کا نوٹس اتنے بڑے پیمانے پرلیا جائے؟ اور خود دھنکر گورنر اور نائب صدررہتے ہوئے جیسی غیر شائستہ حرکتیں اور باتیں کرتے آئے ہیں، کیا ان سے واقعی جمہوریت شرمندہ نہیں ہوتی۔
جمہوریت، مکالمہ اورشائستگی، ان سب کے سوالات بہت نازک ہوتے ہیں۔ مزاحمت اور احتجاج کے بھی کئی طریقے ہوتے ہیں، انہیں میں سےایک مزاح بھی ہے۔ نکڑ ناٹکوں میں لیڈروں کی نقل ایک عام بات ہے۔ دنیا بھر کے اور ہندوستان کے بھی کارٹونسٹ، اپنے اپنے لیڈروں پر طنز و تنقید کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں بی جے پی نے بھی ’انڈیا‘ اتحاد کی میٹنگ کا مذاق اڑاتے ہوئے ایسا ہی ویڈیو جاری کیا تھا۔ پاکستانی جنرل ضیاء الحق اور ہٹلر پر بھی اس طرح کے لطیفے بنے ہیں۔
آئیے اب بنیادی سوال کی طرف چلتے ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ میں بحث سے کیوں بھاگ رہی ہے؟ اور اگر وہ بھاگ رہی ہے تو اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ اپوزیشن کی موجودہ حالت دیکھ کر وزیراعظم طعنہ دے سکتے ہیں کہ اپوزیشن کی جماعتیں وہیں رہنا چاہتی ہے ، جہاں وہ ہے، لیکن اگر وہ اپنے ہی طویل سیاسی سفر پر ایک نگاہ ڈال لیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ اس طرح انانیت پسند ہستیاں اچانک ایک دن مات کھاجاتی ہیں۔
یقیناً اس کیلئے اپوزیشن کو دھنکر کی نقل اتارنے سے کہیں زیادہ مثبت اورکارآمد حل کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ لوہیا کہا کرتے تھے کہ جب سڑکیں سونی ہو جاتی ہیں تو پارلیمنٹ آوارہ ہو جاتی ہے۔ پارلیمنٹ سے نکالے گئے اپوزیشن کو اس خاموشی کو توڑنے کیلئے ایک جنگ چھیڑنی ہوگی اور پھر سڑک کے ذریعے پارلیمنٹ تک پہنچنے کا راستہ بنانا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تومعمولی نقب زن اور چور بھی دہشت گرد ثابت ہوتے رہیں گے، چوروں کے ساتھی بچائے جاتےرہیں گے اور حکومت مجرموں کو کہیں اور تلاش کرتی رہے گی۔