سپریم کورٹ کے تبصرے سے ایسا محسوس ہوتا ہے آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے جان بوجھ کر تنازع کھڑا کیا ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاستداں ہیں۔ وہ بغیر کسی وجہ یا محض سنسنی پیدا کرنے کیلئے کوئی ایسا بیان نہیں دے سکتےجس سے انہیں ہزیمت اٹھانی پڑے۔
تروپتی کے مندر کو سیاسی اکھاڑہ بنا کر ہریانہ اور جموں کشمیر میں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش تو نہیں ؟ تصویر: آئی این این۔
سیاست کو مذہب اور عقیدت سے دور رکھنا چاہئے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں مذہب سیاست پر حاوی ہے۔ سپریم کورٹ نے تروپتی مندر لڈو تنازع میں برہمی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ کم از کم بھگوان کو سیاست سے دور رکھیں۔ سپریم کورٹ کے تبصرے سے ایسا محسوس ہوتا ہے آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے جان بوجھ کر تنازع کھڑا کیا ہے۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاستداں ہیں۔ وہ بغیر کسی وجہ یا محض سنسنی پیدا کرنے کیلئے کوئی ایسا بیان نہیں دے سکتےجس سے انہیں ہزیمت اٹھانی پڑے۔ ایسا لگتا ہے لڈو تنازع جموں کشمیر اور ہریانہ انتخابات میں کسان، بے روزگاری اور اگنی ویر جیسے سلگتے مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے دیا گیا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں غیر اردو اخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے۔
عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی کوشش
ہندی اخبار’ نو بھارت ٹائمز‘ ` نے یکم اکتوبر کے اداریہ میں لکھا ہے کہ’’ سپریم کورٹ پہنچتے ہی تروپتی مندر میں مبینہ ملاوٹ شدہ گھی والے پرساد سے جڑا تنازع ختم ہوگیا ہے لیکن سیاست میں دیوی دیوتاؤں کے استعمال کا زیادہ سنگین مسئلہ سامنے آگیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر اس پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے آندھرا کے وزیر اعلیٰ کے رویے پر سخت تنقید کی۔ تروپتی کے پرساد سے جڑے اس تنازع کو بنیاد بنا کر دائر کی گئی ۵؍ عرضیوں پر سماعت جاری ہے لیکن پہلے ہی دن عدالت کے علم میں آیا کہ پرساد میں ملاوٹی گھی کے استعمال کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ سارا تنازع بے بنیاد ثابت ہوا بلکہ یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ آخر کیوں اس پورے تنازع کو طول دیا گیا۔ تروپتی مندر ملک کا ایک بڑا مذہبی مرکز ہے، جہاں سے کروڑوں عقیدت مندوں کی آستھا جڑی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا بیان آنے کے بعد اس پر فطری طور پر ردعمل آنا شروع ہوگئے تھے۔ آندھرا کی حکومت نے جس طرح مندر کو ’پوتر‘ کرنے کی کوششیں شروع کیں، اسے عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنا ہی کہا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اس قسم کا کھیل ہمارے ملک میں کوئی نیا نہیں ہےلیکن سپریم کورٹ کے سخت موقف نے اسے روکنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ آج بھی کئی مندروں میں ذات پات اور جنس کی بنیاد پر لوگوں کے داخلے پر پابندی ہے، جو قطعی مناسب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کو اس پر بھی سخت ایکشن لینا ہوگا۔ ‘‘
مندر کو بھی سیاست کااکھاڑا بنا دیا گیا
ہندی اخبار ’جن ستہ‘ا پنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’تروپتی میں لڈو تنازع پر عدالت عظمیٰ نے سخت الفاظ میں نصیحت کی ہے کہ کم از کم بھگوان کو سیاست سے دور رکھو۔ یہ عوام کی عقیدت کا معاملہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ جب اس معاملے کی تحقیقات جاری تھیں تو پھر میڈیا میں اچھالنے کا کیا فائدہ؟ دراصل یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے کہ مندر میں پرساد کے طور پر بنائے جانے والے لڈو میں ملاوٹ شدہ گھی کا استعمال کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نےیہی سوال کیا ہے کہ اس بات کا ثبوت کہاں ہے کہ یہ وہی گھی ہے جس کا استعمال پرساد بنانے میں ہوا۔ وزیر اعلیٰ نائیڈو نے ایک جلسے میں کہا تھا کہ پچھلی حکومت کے دور میں تروپتی کے پرساد میں جانوروں کی چربی استعمال کی جاتی تھی۔ اس کے بعداس معاملے نے طول پکڑ لیا۔ حالانکہ اس الزام کے جواب میں سابق وزیر اعلیٰ جگن موہن ریڈی نے کہا کہ نائیڈو اپنے سیاسی فائدے کیلئے بھگوان کا استعمال کرسکتے ہیں لیکن تب تک اس حوالے سے تنازع کافی بڑھ چکا تھا۔ نائیڈو کے ارادے اس وقت ایک بار پھر ظاہر ہوگئے جب انہوں نے جگن موہن ریڈی کے تروپتی مندر میں داخلے کے سلسلے میں رکاوٹ کھڑی کردی۔ جگن موہن جب تروپتی مندر جانا چاہتے تھے تب ان سے کہا گیا کہ وہ کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے ساتھ اپنے مذہب کا تصدیق نامہ پیش کریں۔ اس پر جگن موہن نےمندر کا دورہ منسوخ کردیا۔ اس طرح تروپتی مندر کے پرساد کا معاملہ آندھرا پردیش کی دو پارٹیوں کے درمیان سیاسی اکھاڑا بن کر رہ گیا‘‘
نائیڈو کے سامنے ایسی کون سی ضرورت آن پڑی تھی؟
مراٹھی اخبار ’پڈھاری‘اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’حالیہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی ملنے کے بعد وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو نے ایک مختلف موقف اختیار کیا ہے۔ پچھلے ۵؍ سال سے آندھرا پردیش میں جگن موہن ریڈی کی سرکار تھی۔ اس دوران تروپتی مندر کے پرساد میں جانوروں کی چربی استعمال کرنے کا سنسنی خیز الزام عائد کیا گیا ہے۔ نائیڈو کے مطابق جگن موہن ریڈی عیسائی ہیں اور ان کے دور حکومت میں پرساد میں ملاوٹ ہونے سے لوگوں کےمذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ جگن موہن ریڈی جب وزیر اعلیٰ تھے، اُس وقت نائیڈو کو ملاوٹی لڈو کی خبر کیوں نہیں ہوئی؟ملک کے سب سے امیر مندر میں لڈو تنازع سامنے آنے سے ملک بھر میں ہنگامہ ہونا فطری تھا۔ سرکار قائم ہوتے ہی نائیڈو نے اپنے مشیر خاص شیام راؤ کو تروپتی مندر کا اگزیکٹیو افسر مقرر کیا۔ بعدازاں فوراً پریس کانفرنس منعقد کرکے پرساد تیار کرنے میں استعمال ہونے والے گھی میں جانور کی چربی ہونے کاسنسنی خیزالزام بھی عائد کیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ عقیدت مندوں کو روزانہ کھلائے جانے والے کھانے کے معیار پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کیا۔ تروپتی میں یومیہ ساڑھے تین لاکھ لڈو تیار کئے جاتے ہیں۔ لڈو تنازع کا سچ سامنے لانے کیلئے ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، ایسے میں سوال یہ ہے کہ جانچ کے نتائج آنے سے قبل میڈیا میں اسے اچھالنے کی ایسی کون سی ضرورت آن پڑی تھی۔ ‘‘
کیا سرکار کا مندرسے کنٹرول ختم ہوگا؟
انگریزی اخبار ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ `نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ سپریم کورٹ ۳؍ اکتوبر سے تروپتی کے نا م نہاد آلودہ لڈو معاملے کی سماعت شروع کرے گا۔ اس معاملے میں پانچ عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔
نام نہاد اسلئے کہ چندرا بابو نائیڈو نے ۱۹؍ ستمبر کو لگائے گئے ابتدائی الزامات سے دوری اختیار کرلی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ تروپتی مندر کے پرساد میں ملاوٹ کی جارہی تھی۔ لڈو میں استعمال ہونے والے گھی کی جانچ کی گئی تو وہ مندر انتظامیہ کے ایس او پی کے مطابق پایا گیا۔ پیر کو سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ملاوٹی گھی کو لڈو بنانے کیلئے کبھی استعمال ہی نہیں کیا گیا تھا۔ لاکھوں عقیدت مندوں کیلئے سپریم کورٹ کے تبصرہ نے راحت کا سامان مہیا کیا ہے۔ تروپتی کے لڈو جی آئی مارک اور پیٹنٹ ہے۔ ٹینڈرنگ کے عمل اور سپلائی پر شک کرنا، مندر کی عظمت پر ایک بد نما داغ ہے۔ اس الزام نے حکومتوں کا مندروں سے کنٹرول ختم کرنے کے مطالبے کو تقویت فراہم کی ہے۔ خیال رہے کہ ۵؍ میں سے ایک عرضی سرکار کا مندر سے کنٹرول ختم کرنے سے متعلقہ داخل کی گئی تھی۔ ‘‘