• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

میری والدہ کا مخصوص پاندان اور اُن کے ہاتھ کے بنائے گئے پان میوزک ڈائریکٹر اُوشاکھنہ کوبہت پسند تھے

Updated: December 04, 2023, 5:29 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مدنپورہ گھیلابائی اسٹریٹ کی ۷۷؍سالہ انوارالنساء انصاری اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں، مختلف اسکولوں میں ۳۸؍ سال تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعدبحیثیت صدر مدرس پرتیکشا نگر کی سردار میونسپل اردو اسکول سے سبکدوش ہوئیں۔

Anwar Unnisa Ansari. Photo: INN
انوارالنساء انصاری۔ تصویر : آئی این این

مدنپورہ،دوسری گھیلا بائی اسٹریٹ کی اکبری منز ل میں ۷۶؍سالہ انوارالنساء غلام رسول انصاری (عرف انوار) سے علاقے کی معروف سماجی کارکن اور بچت گٹ کی نگراں عائشہ انصاری کےمعرفت ملاقات کا وقت طے ہوا تھا۔اسی سلسلے میں جمعرات ۱۹؍اکتوبرکو میں دوپہر ۲؍ بجے طے شدہ مقام پر پہنچ گیا تھا۔ مقررہ وقت پر محمدی پیلس کی ۱۵؍ویں منزل پر لفٹ سے باہر نکلنے پر ایک فلیٹ کا دروازہ جس طرح کھلا دکھائی دیا، اس سےاندازہ ہورہاتھاکہ انوارالنساء سےاسی فلیٹ میں ملاقات ہوگی۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک خاتون نے مخاطب کرتےہوئےکہا کہ کیا آپ روزنامہ انقلاب سے آئے ہیں ؟ اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے گرمجوشی سے استقبال کیا۔ فلیٹ چھوٹا لیکن بڑے سلیقے سے سجاہوا تھا۔ ۲؍دیواروں سے ۲؍ صوفہ نمابیڈ ، ایک دیوار سے بیٹھنےکیلئے کرسیاں ، جگہ کے اعتبار سے ایک چھوٹی میز اور زمین پر بچھی قالین گھر کی خوبصورتی کو دوبالا کررہی تھی۔دوپہرکےوقت چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی کے احساس سےجھنجھلاہٹ ضرور ہورہی تھی لیکن ۱۵؍ویں منزل کےگھر کی بڑی کھڑکیوں سے آنے والی خوشگوار ہوا کے جھونکوں سے یہ احساس جاتارہا ۔ اسی دوران پینے کیلئے ٹھنڈا پانی ملا، جس کی وجہ سے مزید راحت ملی۔ ان کی پیدائش ملک کی آزادی سے قبل یعنی ۵؍مئی ۱۹۴۷ءکو ہوئی تھی لیکن چہرے پر نئے زمانے کی تازگی تھی۔ رسمی گفتگو کے بعد فوراً میں اپنے موضوع پر آگیا۔
تعلیم سے ملازمت تک کا سفر
 انوار انصاری کی ابتدائی تعلیم محمد عمررجب روڈ کے صفرابادی اسکول میں ہوئی جبکہ ایس ایس سی کی پڑھائی بیلاسس روڈ کے انجمن اسلام سیف طیب جی اسکول سے ہوئی ۔ بعدازیں اعلیٰ تعلیم کیلئے پریل کے ایم ڈی کالج میں داخلہ لیا۔ اسی دوران امام باڑہ ٹیچرس ٹریننگ کالج سے معلمہ کی تربیت حاصل کی۔ ملازمت کیلئے بی ایم سی میں درخواست دی ۔ خوش قسمتی سے۱۵؍دنوں میں ان کی تقرری بھی ہوگئی۔ وکھرولی پارک سائٹ میونسپل اُردو اسکول میں بحیثیت معلمہ ملازمت کرنے کا پہلا تجربہ رہا۔ علاقوں کی معلومات اور لوکل ٹرین میں سفر کی عادت نہ ہونے سےشروع میں پریشانی ہورہی تھی۔کچھ دنوں تک بڑے بھائی نے انہیں اسکول پہنچانے کی ذمہ داری اداکی ۔ بعدازیں ان کی والدہ اس وقت تک انہیں اسکول چھوڑنے اور وہاں سے واپس گھرلانےکی ذمہ داری اداکرتی رہیں ۔ (والدہ انوارکو اسکول چھوڑ کر وہیں کسی کےگھر پررکتی تھیں اور پھر شام کو چھٹی کے بعدانہیں واپس مدنپورہ لے کرآتی تھیں ) جب تک ان کا تبادلہ بائیکلہ کے سائوٹر اسٹریٹ میونسپل اُردو اسکول میں نہیں ہوا، یہ سلسلہ جاری رہا۔سائوٹر اسٹریٹ کےبعد ناگپاڑہ کے اُندریااسٹریٹ اسکول اور پھر پرتیکشا نگر کی سردار میونسپل اردو اسکول میں بحیثیت ہیڈ مسٹریس اپنی خدمات پیش کیں اور یہیں سے وہ سبکدوش ہوئیں۔ انوار بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ 
فساد کے دوران پولیس افسر کی مہربانی
 بابری مسجد کی شہادت پر ہونےوالے فرقہ وارانہ فساد اور پولیس فائرنگ وغیرہ کو بھی انوار نے بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ اس وقت وہ ناگپاڑہ کی اندریااسٹریٹ اسکول میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں ۔ فساد کی وجہ سے طلبہ اسکول نہیں آئے تھےلیکن تدریسی اور غیر تدریسی عملہ اسکول میں موجودتھا۔ اچانک صبح ساڑھے ۱۰؍بجے ایک سرپرست نے آکر بتایاکہ ناگپاڑہ پر پولیس فائرنگ ہورہی ہے ۔ آپ لوگ یہاں سے نکلیں اور اپنے گھر جائیں ۔ یہ سن کر اسکولی عملے کی تشویش بڑھ گئی ۔ یہ تو اچھا تھاکہ بیشتر عملہ اسکول کے اطراف ہی کاتھا ۔صرف انوار مدنپورہ سے تھیں ۔ اسکول کی ہیڈمسٹریس نے کہاکہ انوار چلو میں تمہیں گھر چھوڑکر آتی ہوں ۔انوار نے کہاکہ آپ اپنی جان کیوں خطرہ میں ڈال رہی ہیں ۔ میں چلی جائوں گی لیکن وہ نہیں مانیں ۔ دونوں ساروی ہوٹل (ناگپاڑہ ) کےقریب پہنچیں تو ایک پولیس افسر نےچلّا کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرتےہوئے کہاآپ دونوں کو دکھائی نہیں دے رہا،آگے فائرنگ ہورہی ہے ۔ آپ لوگ آگے نہیں جائیں گی ۔ یہ کہہ کر اس نے دونوں کو ساروی ہوٹل کے قریب روک دیا۔بعدازیں ان سے دریافت کیاکہ آپ کہاں جائیں گی؟ جس پر انہوں نے بتایاکہ میں مدنپورہ جائوں گی یہ میری ہیڈمسٹریس مجھے چھوڑنے آئی ہیں۔ پولیس افسر نے ہیڈمسٹریس کو وہیں روک دیا اور انوار کو ۲؍پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں مدنپورہ ان گھر پہنچایا۔ اس بارےمیں اب بھی جب کبھی ہیڈمسٹریس سے بات ہوتی ہے تو انوار کوسارامنظر یاد آجاتاہے۔
مشہور موسیقاراوشا کھنہ سے گھریلو مراسم
 انوار کے بڑے بھائی اور بھابھی کا تعلق شعر وادب کے علاوہ اس دور کے معروف فلم ساز، نغمہ نگار اورمیوزک ڈائریکٹروں سےبھی تھے۔ اسی وجہ سےباندرہ کلانگرکی ان کی رہائش گاہ پر شاعروں اور نغمہ نگاروں کےساتھ میوزک ڈائریکٹر اُوشا کھنہ اکثر اپنے نغموں کی ریکارڈنگ وغیرہ کیلئے آیاکرتی تھیں ۔ انواراپنی والدہ کے ہمراہ بھائی کے گھر جاتی تھیں جہاں اُوشاکھنہ سے ان کی ملاقات ہوتی تھی۔ اُوشاکھنہ اور انوار کی والدہ کے قریبی مراسم ہونے سےاُوشاکھنہ اکثر ان کی والدہ سےپان کی فرمائش کرتی تھیں ۔ والدہ کا مخصوص پاندان اور گھریلوپان اُوشاکھنہ کوبہت پسند تھا۔ وہ اکثرصرف پان کھانےکیلئے والدہ کے پاس آیا کرتی تھیں ۔ ان کی خواہش پر انوار کی والدہ نے انہیں پان،کتھا، چونااور سپاری سے سجا ایک خوبصورت پاندان بطور تحفہ پیش کیاتھا۔ 
دوران تعلیم فیس کا انتظام بہت مشکل سے ہوا تھا
انواراور ان کے بھائی بہنوں کی پڑھائی کے تعلق سے ان کی والدہ کی جدوجہد اور قربانیاں قابل ستائش تھیں ۔ مالی پریشانی اورغربت کی وجہ سےماں کیلئے اپنے بچوں کی کاپی کتاب خریدنامحال تھا۔ کاپی کتاب کیلئے علی الصباح گرانٹ روڈ،کھیت واڑی پرواقع سوناوالا ٹرسٹ کے دفتر جاکر ۵۔۴؍گھنٹےقطار لگاناوہ آج بھی فراموش نہیں کرپائی ہیں ۔ علاوہ ازیں ٹیچر س ٹریننگ میں داخلہ کی فیس کاقصہ تو اس سےکہیں زیادہ پریشان کن تھا۔اس وقت امام باڑہ ٹیچرس ٹریننگ کالج کی پرنسپل ایک کشمیری خاتون زاہدہ ڈار تھیں ۔ یہ ۶۰ءکی دہائی کی بات ہے۔ ایک روز اچانک انہوں نے ہرطالب علم کو ۲۰۰؍روپے فیس بھرنے کافرمان جاری کردیا۔ انوار کیلئے اسی وقت اتنی بڑی رقم کا انتظام کرنا بہت مشکل تھا۔ گھر پہنچنے پر بیٹی کامایوس چہر ہ دیکھ کرماں بھی پریشان ہوگئیں ۔ دریافت کرنے پرمعلوم ہوا کہ آج ہی ۲۰۰؍روپےجمع کرنا ہے۔ ماں نےبیٹی سےکہاکہ گھبرا مت، میں کوشش کرتی ہوں ۔ گھر کے سامنے دوسری گھیلابائی اسٹریٹ میں ایک اسماعیل بھائی سائیکل والاتھا۔ماں نے گھر کی کھڑکی سےاسماعیل بھائی کو آواز دے کر بلایا۔ گھر آکر انہوں نے ماں سے پوچھا کہ کیا بات ہے نانی، اتنی پریشان کیوں ہو؟ اس کے بعد ماں نے انہیں بتایاکہ میری بیٹی کی ۲۰۰؍ روپے فیس بھرنی ہے۔میرے پاس پیسوں کا انتظام نہیں ہے۔ یہ سن کر تھوڑی دیر کیلئے اسماعیل بھی پریشان ہوگئے، بولے کہ میرے پاس بھی اتنے پیسے نہیں ہیں لیکن میں کچھ دیر میں انتظام کرکے دیتاہوں ۔ اس کے بعد ٹھیک سے ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اسماعیل نے ماں کو ۲۰۰؍ روپے لاکر دیئے۔ اس طرح فیس بھر کرٹیچر ٹریننگ مکمل کرنے کا سفر بھی یادگار ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK