ریاستوں کی بنیاد پر تجزیہ یہی واضح کر رہا ہے کہ بی جے پی کیلئے اس مرتبہ مشکلات ہی مشکلات ہیں اور اس بات کا احساس بی جے پی کی اعلیٰ لیڈر شپ کو بھی ہے۔
EPAPER
Updated: March 03, 2024, 4:44 PM IST
|
Mubasshir Akbar
ریاستوں کی بنیاد پر تجزیہ یہی واضح کر رہا ہے کہ بی جے پی کیلئے اس مرتبہ مشکلات ہی مشکلات ہیں اور اس بات کا احساس بی جے پی کی اعلیٰ لیڈر شپ کو بھی ہے۔ ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح اور اس کے ارد گرد تیار بیانیہ، اپوزیشن کے کسی ایک لیڈر کے بھی پارٹی بدلنے اور اپوزیشن میں نااتفاقی بڑھنے پر تجزیہ نگاروں کے مباحث کی وجہ سے ٹیلی ویژن پر اپوزیشن کے لئے تصویر تاریک دکھائی دیتی ہے۔ یہ اتنی تاریک ہے کہ ’انڈیا‘ اتحاد کے کچھ سخت گیر حامیوں نے اس یقین کی وجہ سے انتخابات کے وقت چھٹیوں کے لئے ٹکٹ تک بک کرا لئے ہوں گے کہ کوئی حقیقی جنگ نہیں ہونے والی ہے، بی جے پی کو آسانی سے اکثریت سے بھی کہیں زیادہ سیٹیں مل جائیں گی لیکن بی جے پی اتنی مطمئن نہیں ہے اور نہ اسے اتنی سیٹیں ملنے کا امکان نظر آرہا ہے۔ کسی بھی سطح کے کسی بی جے پی لیڈر سے پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ اس بار جیتنا اتنا آسان نہیں جیسا ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ءمیں تھا۔ ایسا اس لئے ہےکہ جو انتخابی کاموں میں مصروف رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ صحیح امیدوار کا انتخاب، توازن، وسائل کو جمع کرنا اور ووٹنگ مراکز پرایک ایک ووٹر کو پہنچانا اور اپنے حق میں ووٹ کےاندراج کا فتح و شکست میں اہم کردار ہوتا ہے۔ میڈیا کی روش محض اس کا ایک حصہ ہے۔ بی جے پی کے سرکردہ لیڈران یہ بھی جانتے ہیں کہ رام مندر والا ماحول بنانے میں انہیں کتنی مشقت کرنی پڑی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاستی مشینری کے استعمال، دھاندلی کے الزامات، کم ووٹنگ اورمنقسم اپوزیشن کے باوجود مقامی سطح پر انتخابات میں حقیقی اعداد و شمار کیا رہے ہیں۔ اگر ہم ریاستوں کی بنیاد پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئے گی کہ کہاں بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہے اور کہاں بی جے پی پیچھے رہ سکتی ہے۔ جنوبی ہند سے شروعات کریں تو اس پورے خطے میں جہاں ۵؍ ریاستیں ہیں وہاں کرناٹک کو چھوڑ کر کسی بھی ریاست میں بی جے پی کا قابل توجہ وجود نہیں ہے۔ اس خطے میں کرناٹک، تلنگانہ، آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور کیرالا جیسی ریاستی ہیں۔ یہاں سے کل ملاکر ۱۳۲؍ سیٹیں ہیں جن میں سے اس وقت بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے پاس صرف ۳۰؍ سیٹیں ہیں۔ ان سیٹوں میں سے ۲۵؍ صرف کرناٹک کی ہیں کیوں کہ ۲۰۱۹ء کے الیکشن کے وقت کرناٹک میں بی جے پی برسراقتدار تھی لیکن اس مرتبہ جو حالات ہیں ان میں بی جے پی کو خود بھی یقین نہیں ہے کہ وہ ۲۰؍ سے زیادہ سیٹیں پورے خطے میں جیت سکے گی۔ اب اگر مشرقی ہندوستان کا رخ کریں تو یہاں ادیشہ، مغربی بنگال، جھارکھنڈ اور بہار کی ریاستیں ہیں۔ ان ریاستوں میں کل ملاکر ۱۱۷؍ پارلیمانی سیٹیں ہیں جن میں بی جے پی بہت زور لگاکر ۵۰؍ سے ۷۵؍ سیٹیں جیت سکتی ہے اور یہ بھی تب ممکن ہے جب بی جے پی کے حق میں لہر چلے۔ بنگال میں اس کے پاس ۱۸؍ سیٹیں ہیں جبکہ بہار بھی اس نے سویپ کیا تھا لیکن اب یہاں حالات بہت مختلف ہو گئے ہیں۔ ان دونوں ہی ریاستوں میں بی جے پی ۸۲؍ میں سے ۵۰؍ سیٹیں جیت لے تو بڑی بات ہو گی۔
آر ایس ایس سے جڑی تنظیموں اور بی جے پی کارکنان نے مندر کا ہنگامہ کھڑا کیا۔ ہر جگہ نظر آ رہے بھگوا جھنڈوں کے لئےادائیگی نامعلوم تنظیموں نے کی، ہر جگہ لوگوں کو اکٹھا کیا گیا اور بی جے پی کارکنان گھر گھرپہنچے۔ ان کوششوں سے وہ کٹر ووٹ ہی اکٹھا ہوئے جو پہلے سے ہی جوش میں تھے لیکن بڑے پیمانے پر ووٹرس بی جے پی کے قریب اب بھی نہیں آئے ہیں۔ ’بھارت جوڑو نیائے یاترا‘ کے تعلق سے میڈیا کےمین اسٹریم کا رخ بھلے ہی متعصبانہ ہو لیکن کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی باتیں لوگوں کے دلوں کو چھو رہی ہیں۔ یہ واٹس ایپ گروپس میں شیئر کئےجا رہے ہیں اور اس پر لوگ ایک دوسرے سے باتیں بھی کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی لوگوں سے باتیں کر رہے ہیں اور لوگوں کو اپنے مائیکروفون سے اپنے تجربات شیئر کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ یہ باتیں لوگوں کو پسند آ رہی ہیں۔ اب اگر ہم بات کریں کہ کیا واقعی بی جے پی ۳۷۰؍ سیٹیں جیت لے گی تو فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ بی جے پی مقابلے میں تو ہے لیکن حتمی طور پر وہ کتنی سیٹیں جیتے گی اس بارے میں فی الحال کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اس کا اکثریت تک پہنچنا مشکل نظر آرہا ہے۔
اب اگر ہم شمال مشرقی ریاستوں کا ذکر کریں تو یہاں ۲۵؍ سیٹیں ہیں جن میں سے ۱۴؍ بی جے پی کے پاس ہیں اور ۴؍ اس کے اتحادیوں کی ہیں لیکن منی پور میں جس طرح سے تشدد کا بازار گرم کیا گیا اور وہاں کے حالات سنبھالنے میں ناکامی کا الزام بی جے پی کو جھیلنا پڑ رہا ہے اور اس کا اثر خطے کی تمام ریاستوں کی سیٹوں پر بلاشبہ پڑے گا۔ راہل گاندھی نے منی پور سے ہی اپنی یاترا شروع کرکے ووٹروں کو بالکل واضح پیغام دیا ہے۔ ایسے میں ۲۵؍سیٹوں میں سے بی جے پی کے لئے ۱۰؍ سیٹیں جیتنا بھی مشکل ہو سکتا ہے۔
شمالی ہند اورسینٹرل انڈیا کا رخ کریں تو یہاں بی جے پی کا دبدبہ نظر آتا ہے کیوں کہ یہی وہ خطہ ہے جسے ہندی بیلٹ کہاجاتا ہے اور یہاں پر صرف یوپی میں بی جے پی کے پاس ۶۳؍ سے زائد سیٹیں ہیں، مدھیہ پردیش، ہریانہ، گجرات، راجستھان، چھتیس گڑھ اور اتراکھنڈ میں بی جے پی نے تقریباً یکطرفہ جیت حاصل کی ہے۔ ان ریاستوں میں انڈیا اتحاد جتنی بھی سیٹیں حاصل کرلے گی وہ اس کے لئے بونس ہی کہلائیں گی جبکہ یہ بی جے پی کا بڑا نقصان ہو گا۔ ان ریاستوں میں ہونے والے مقامی انتخابات اور ریاستی انتخابات نے بی جے پی کے لئے خطرےکی گھنٹی ضرور بجادی ہے۔ اگر آزاد تجزیہ نگاروں کی مانیں تو بی جے پی اتر پردیش اور گجرات میں بہت بڑا نقصان نہیں اٹھائے گی لیکن ایم پی، راجستھان، ہریانہ اور چھتیس گڑھ میں اس کی سیٹیں بڑی حد تک کم ہونے کا ماحول بن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی مسلسل ۳۷۰؍ سیٹوں کا راگ الاپ رہی ہے۔ عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ جب کوئی خوفزدہ ہو یا اسے اپنے اوپر اعتماد نہ ہو تو وہ بڑھ بڑھ کر بیان دیتا ہے یا بلاوجہ شور مچاتا ہے تاکہ اس کی ناکامی یا عدم اعتمادی اس شور میں دب جائے۔ بی جے پی بھی فی الحال یہی کررہی ہے۔
اب اگر رخ کریں مہاراشٹر کا تو یہ اتر پردیش کے بعد لوک سبھا کی سیٹوں کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے اور اس وقت بی جے پی یہاں اقتدار میں بھی ہے لیکن مہا وکاس اگھاڑی کے تعلق سے جو سروے کئے گئے ہیں، ان میں اب تک بی جے پی کے لئے کوئی اچھی تصویر سامنے نہیں آئی ہے۔ یہاں مہا وکاس اگھاڑی میں سیٹوں کی تقسیم بھی ہو چکی ہے۔ بی جے پی کے سامنے ہر سیٹ پر اپوزیشن کا ایک متحدہ امیدوارہوگا، یہ سوچ ہی بھگوا پارٹی کی لیڈر شپ کے لئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہو گی۔ ویسے اس وقت بی جے پی کے لئے بڑی پریشانی کا ایک سبب یہ بیانیہ بھی بن رہا ہے کہ اس کے پاس ملک کی تمام پارٹیوں سے لائے گئے گھوٹالے باز، داغدار اور بدعنوان لیڈروں کی کھیپ موجود ہے جنہیں ای ڈی، انکم ٹیکس یا سی بی آئی کا ڈر دکھاکر اپنے ساتھ ملایا گیا ہے۔ یہ بیانیہ اپوزیشن پارٹیاں لگاتار استعمال کررہی ہیں جو اتفاق سے درست بھی ثابت ہو رہا ہے۔ بی جے پی کے ان ہتھکنڈوں سے اپوزیشن پارٹیوں کا بڑا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ بدعنوان لیڈرس ان کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں اور اس کی شبیہ کو خراب کرنے کا کام کررہے ہیں۔ شاید یہ بات بی جے پی لیڈر شپ کی سمجھ میں اب تک نہیں آئی ہے۔