راجستھان، ٬مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی ہائی کمان اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرسکا کیونکہ اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
EPAPER
Updated: December 17, 2023, 12:57 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
راجستھان، ٬مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی ہائی کمان اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرسکا کیونکہ اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
راجستھان، ٬مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی ہائی کمان اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرسکا کیونکہ اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ تھوڑا بہت ڈر راجستھان میں وسندھراسے تھا مگر ایسا لگ رہا ہے کہ انہوں نے بھی ہتھیار ڈال دیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ راجستھان کے نئے وزیر اعلیٰ بھجن لال شرما کا نام انہوں نے ہی پڑھ کر سنایا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پارٹی نے یہ تبدیلی اسلئے کی ہے تا کہ اسے لوک سبھا انتخابات جیتنے کے بعد آئندہ ۱۰؍ برسوں اس کیلئے کوئی خطرہ نہ ہو۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مراٹھی اخبارات نے اس پرکیا کچھ لکھا ہے؟
سامنا (۱۴؍دسمبر)
اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’بی جے پی نے اسمبلی انتخابات میں کسی چہرے کو وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش نہیں کیا تھا۔مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان اور راجستھان میں وسندھرا راجے سندھیا کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔اسی وقت طے ہوچکا تھا کہ اگر انتخابات کے نتائج حسب منشا آ ئے توشیوراج سنگھ چوہان اور وسندھرا راجے سندھیا کا کانٹا نکال کر دونوں ریاستوں کا پورا کنٹرول بی جے پی اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔بالآخر ایسا ہی ہوا۔چھتیس گڑھ میں رمن سنگھ کو اسمبلی اسپیکر بنا دیا گیا۔ دہلی کو ان سے زیادہ خطرہ بھی نہیں تھا۔اڈوانی دور کے آخری سپاہی شیوراج سنگھ چوہان کے بجائے غیر معروف لیڈر موہن یادو کو وزیر اعلیٰ منتخب کردیا گیا۔راجستھان میں وسندھرا راجے سندھیا کو ہٹا کر پہلی بار ایم ایل اے بننے والے بھجن لال شرما کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ اس میں کوئی حیران کن یا چونکانے والی بات نہیں ہے۔بی جے پی کی موجودہ قیادت سے کوئی اور امید بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس سے قبل گجرات میں قانون ساز اسمبلی کیلئے منتخب ہونے والے بھوپیندر پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا۔وہیں مہاراشٹر میں وزیر اعلیٰ کا حلف لینے کیلئے بے چین دیویندر فرنویس کو نائب وزیر اعلیٰ بنا کر انہیں جھٹکادیا گیا تھا۔ بی جے پی کے تینوں نو منتخب وزرائے اعلیٰ اے بی وی پی کے کارکن رہ چکے ہیں ۔انہیں سیاست اور انتظامیہ کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہے اور سب سے اہم بات تینوں عوامی لیڈر نہیں ہیں ۔اسلئے پچھلے ۱۰؍ برسوں میں صدر جمہوریہ ٬نائب صدر جمہوریہ اور گورنر کے عہدوں پر غیر معروف چہروں کو منتخب کیا گیا تھا۔ اب یہی پالیسی وزیر اعلیٰ کیلئے اپنائی گئی ہے۔ راجستھان کی وسندھرا راجے سندھیا اور مدھیہ پردیش کے شیوراج سنگھ چوہان اب کیا کریں گے؟یہ سب سے بڑا سوال ہے۔شیوراج سنگھ چوہان ’ماما‘ نے کہہ دیا ہے کہ وہ مرنا پسند کریں گے لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ اب دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے؟‘‘
پربھات (۱۳؍دسمبر)
اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’بے جے پی نے راجستھان ،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں تین نئے چہروں کو وزیر اعلیٰ کی کمان سونپ کر ایک منفرد روایت قائم کی ہے۔راجستھان میں بھجن لال شرما کو وزیر اعلیٰ بنا کر سب کو حیران کردیا ہے۔ یہاں کئی تجربہ کار لیڈر وزیر اعلیٰ کی ریس میں شامل تھے۔وسندھرا راجے سندھیا بھی اپنے حامی ایم ایل ایز کی صف بندی کرکے دباؤ بنانے کی کوشش کررہی تھیں لیکن پارٹی نے سبھی تجربہ کار لیڈروں کو کنارے کرکے پہلی بار منتخب ہونے والے بھجن لال شرما کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔تینوں ریاستوں میں نئے چہروں کو موقع دے کر مودی، شاہ نے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔علاوہ ازیں وہ یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ بی جے پی میں اب انہیں چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نہیں بچی ہے۔تینوں ریاستوں میں نئے چہروں کو وزیر اعلیٰ بناکر بیک وقت کئی پیغامات دینے کی کوشش کی گئی ہیں ۔ پہلا نمایاں پیغام یہ دیا ہے کہ کسی بھی ریاست میں کتنے بھی بڑے اور قدآور لیڈر کی اب کچھ نہیں چلے گی۔دوسرا پیغام یہ دیا ہے کہ بی جے پی نہ صرف سبھی ذاتوں کا احترام کرتی ہے بلکہ انہیں اعلیٰ منصب پر فائز بھی کرتی ہے۔چھتیس گڑھ میں قبائلی لیڈر کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ مدھیہ پردیش میں او بی سی لیڈر کے گلے میں وزیر اعلیٰ کا ہار پہنایا گیا ہے اور راجستھان میں برہمن برادری کا وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا ہے۔ تیسرا اور سب سے اہم پیغام کہ پارٹی بغیر کسی لحاظ کے کسی بھی جونیئر اور نا تجربہ کار لیڈر کو اعلیٰ عہدے پر فائز کرسکتی ہے۔مدھیہ پردیش جیسی ریاست میں شیو راج سنگھ چوہان نے اکیلے ہی پارٹی کو کامیابی دلائی، اس کے باوجود بی جے پی اعلیٰ کمان شروع ہی سے انہیں نظر انداز کررہا تھا۔ان کی امیدواری کا اعلان تاخیر سے کیا گیا۔مودی نے انتخابی جلسوں میں شیوراج سنگھ چوہان کا نام لینے سے بھی گریز کیا۔اس کے باوجود سابق وزیر اعلیٰ نے پوری ایمانداری سے پارٹی کیلئے کام کیا اور شاندار جیت دلائی۔راجستھان میں بھجن لال شرما کو وزیر اعلیٰ بناکر پارٹی نے وسندھرا راجے سندھیا کی سیاسی بالا دستی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔اب دیکھنا دلچسپ ہوگا یہ شیو راج سنگھ چوہان اور وسندھرا راجے سندھیا پارٹی کے اس فیصلے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟‘‘
سکال(۱۴؍دسمبر)
اخبار نے لکھا ہے کہ ’’راجستھان، ٬مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں جیت حاصل کرنے کے ۱۰؍ دن بعد `کون بنے گا وزیر اعلیٰ؟ کے سوال کا جواب مل گیا ہے۔ بی جے پی نے تینوں ہی ریاستوں کے قد آور اور لیڈروں کو کنارے کرکے نئے چہروں کو موقع دیا ہے۔ اس بار لوک سبھا الیکشن کو ذہین میں رکھتے ہوئے بی جے پی نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں ذات پات کے مساوات کو کمال ہوشیاری سے برتا ہے۔ چھتیس گڑھ میں قبائلی وزیر اعلیٰ ٬مدھیہ پردیش میں اوبی سی اور راجستھان میں برہمن سماج کا وزیر اعلیٰ بنا کر سبھی طبقوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تینوں ہی ریاستوں میں ایسے وزیر اعلیٰ بنائے گئے ہیں جن کا ہندوتوا پر زیادہ بھروسہ ہے۔۲۰۱۴ء میں نریندر مودی کےوزیر اعظم بننے کے بعدبی جے پی کو ایک نیا روپ ملا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں مودی اور شاہ نے پارٹی پر اپنی گرفت کافی مضبوط کرلی ہے۔کانگریس کی ہائی کمان پالیسی پر بی جے پی ہمیشہ تنقید کرتی ہے لیکن من مانے فیصلہ لینے میں وہ کانگریس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔‘‘