• Wed, 27 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ارنب گوسوامی کے بدلے ہوئے تیور، ٹی آر پی کی مجبوری یا کوئی اور دباؤ؟

Updated: July 31, 2023, 6:08 PM IST | Nadir | Mumbai

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا صارفین اور ٹی وی ناظرین اس وقت انگشت بدنداں رہ گئے جب ببانگ دہل حکومت کی دلالی کرنے والے ارنب گوسوامی کو انہوں نے منی پور معاملے پر براہ راست بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے دیکھا۔

Manipur Pranab Goswami`s latest show everyone is wondering what happened to him?
منی پور پرارنب گوسوامی کا حالیہ شو دیکھ کر سبھی حیران ہیں کہ انہیں ہو کیا گیا ہے؟

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا صارفین اور ٹی وی ناظرین اس وقت انگشت بدنداں رہ گئے جب ببانگ دہل حکومت کی دلالی کرنے والے ارنب گوسوامی کو انہوں نے منی پور معاملے پر براہ راست بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے دیکھا۔   ہر کوئی اس بات  پر حیران تھا کہ آخر ارنب کو ہو کیا گیا ہے جو حسب عادت حکومت کا دفاع کرنے  کے بجائے یوں منی پور کے وزیر اعلیٰ کو برخاست کرنے کی مانگ کرنے لگے، ریاست کی خواتین کو انصاف دلانے کا مطالبہ کرنے لگے اور تو اور اس کیلئے بی جے پی کو یہ سبق تک پڑھا دیا کہ وہ دیگر ریاستوں  جیسے راجستھا ن اور چھتیس گڑھ کی مثال دے کر منی پور کے حالات  پردہ نہیں ڈال سکتی۔
حیرانی سب کو ہے مگر اس بات پر یقین کسی کو نہیں ہے کہ ارنب گوسوامی کے اندر راتوں رات یہ تبدیلی ان  کے ضمیر کی  آواز کے سبب آئی ہے ۔ ہر کوئی اس میں کوئی ’مصلحت یا حربہ‘ تلاش کر رہا ہے۔ اگر ماہرین کی بات مانیں تو اس میں ’مصلحت ‘ ہی کا دخل ہے ضمیر کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پہلی وجہ تو اس تبدیلی کی یہی ہے کہ منی پور  میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی والا جو ویڈیو سامنے آیا ہے اس کے بعد حکومت کے دفاع کا کوئی راستہ نہیں بچتا، اس کی ہر حال میں نہ چاہتے ہوئے بھی مذمت کرنا لازمی ہے۔ یہ تو صرف اسمراتی ایرانی کا جگر ہے کہ وہ چیخ چیخ کر چھتیس گڑھ اور راجستھان کے معاملات اچھال کر منی پور جیسے سنگین ترین معاملے کو دبانے کی ناکام کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا نے بڑے جذباتی انداز  میں حکومت سے کہا ہے کہ ’’ اگر آپ کوئی کارروائی نہیں کرتے ہیں تو ہم کارروائی کریں گے۔‘‘ 
چیف جسٹس کے اس بیان نے اقتدار کے نشے میں چور لیڈران سے لے کر کارکنان تک کی نیندیں اڑا دی ہیں کیونکہ شفاف طریقے سے جانچ ہوئی تو کئی پردہ نشیں  عریاں ہو سکتے ہیں اور کئی سفید پوش میلے  دکھائی دے سکتے ہیں۔ اور یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں ہےکہ حکومت کے ہر جرم میں گودی میڈیا برابر کا شریک ہے ۔ ان  میں سے کئی چینلوں کے مالک باقاعدہ بی جے پی کے رکن ہیں۔ کیا پتہ ان میں سے کس کس کے ہاتھ کالے ہوں اور عدالتی جانچ میں ان کالے ہاتھ والوں کو دھر لیا جائے۔ دوسرا پہلو  یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان  مظلوم خواتین کی بے بسی کا ویڈیو ۷۷؍ دنوں بعد دنیا کے سامنے آیا ۔ الزام ہے کہ تقریباً ڈھائی ماہ تک منی پور کی شرمناک صورتحال کو چھپا کر بلکہ دباکر رکھا گیا۔ جب آپ حالات کو چھپانے کا الزام لگاتے ہیں تو وہ الزام حکومت پر نہیں بلکہ میڈیا پر ہوتا ہے کیونکہ یہ کام میڈیاکا ہے کہ وہ سماج میں ہو رہے جرائم یا غیر قانونی کاموں کو دنیا کے سامنے لائے۔ حکومت کا کام تو اس کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔  میڈیا یہ کام ۹؍ سال پہلے بند کر چکا ہے۔ اب اس نے اپنی ذمہ داری حکومت کا دفاع اور نریندر مودی کی تشہیر تصور کر لیا ہے۔ ایسی صورت  میں گزشتہ ۳؍ ماہ کے دوران عوام کو جب بھی منی پور کے حالات معلوم کرنے ہوں تو وہ سوشل میڈیا ہی  پر سرچ کرتے ہیں۔
اس دوران ممکن ہے کہ ٹی آر پی کیلئے لڑنے والے ٹی وی چینلوں کو یہ احساس ہوا ہو کہ انہوں نے منی پورکے حالات پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں اپنے ہزاروں ناظرین کو کھو دیا ہے۔ ان روٹھے ہوئے ناظرین کو دوبارہ ٹی وی کے سامنے کھینچ کر لانے کیلئے ان چینلوں کو ضروری معلوم ہو رہا ہے کہ اب وہ منی پور کے حالات دکھائیں۔ اور اب اگر وہ اس سلگتی ہوئی ریاست کے حالات دکھاتے ہیں تو وہ کس طرح  دکھائیں گے؟ کیونکہ لاوا تو پھٹ چکا ہے، آگ تو پھیل چکی ہے اب اسے روکنا ممکن نہیں ہے ،اب ہوا کا رخ بدل چکا ہے۔ حکومت کا دفاع ممکن ہی نہیں  رہا۔ اگر میڈیا اسی روش پر رہا جس کی وجہ سے منی پور اس حال تک پہنچا ہے تو جو رہی سہی ٹی آر پی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی لہٰذا سوشل میڈیا صارفین کو اپنی طرف کھینچنے کا یہی طریقہ ہے کہ سچ دکھایا جائے اور حکومت سے سوال کیا جائے ۔   
 تیسری اور ٹھو س وجہ جو ارنب جیسےدفلی برداروں  کے رنگ بدلنے کی  ہو سکتی ہے وہ ہے ملک کی سیاسی فضا میں آ رہی تبدیلی۔ یاد رہے کہ کرناٹک الیکشن کے نتائج نے اچھے اچھوں کے اندازے کو غلط ثابت کر دیاتھا۔ راہل گاندھی کی شبیہ اس الیکشن سے پوری طرح تبدیل ہو گئی۔ الیکشن سے قبل نکالی گئی بھارت جوڑو یاترا میں راہل نے گودی میڈیا کے کسی چینل کو انٹرویو نہیں دیا تھا بلکہ سوشل میڈیا والوں ہی کو اپنا حال سنایا تھا۔  عوامی سطح پر ملنے والی  ہمدردی کو انہوں نے بخوبی کیش کیا۔ بنگال کے پنچایت الیکشن میں بی جے پی کا رنگ اور بھی اڑا دیا۔ الیکشن کے ماہرین واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ لوک سبھا الیکشن میں مودی کے ہاتھ سے دہلی کا تخت بھلے ہی نہ چھینا جا سکے لیکن ریاستوں میں تبدیلی آنی لازمی ہے ۔ اسی خوف سے مہاراشٹر میں بی جے پی نے بیک اپ ٹیم کےطور پر این سی پی کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ راہل گاندھی نے اس بار ’انڈیا‘ کے نام سے جو اتحاد قائم کیا ہے اس میں بیشتر زمینی لیڈر ہیں جو اپنی اپنی ریاستوں میں مضبوط ہیں۔ اگر ریاستوں میں بی جے پی کے پیر اکھڑنے شروع ہو گئے تو گودی میڈیا کا کھڑا رہ پانا بھی دوبھر ہو جائے گا کیونکہ ان ملنے والے اشتہارات کا بڑا حصہ ریاستی حکومتوں کی جانب سے آتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK