امریکی خواتین ٹرمپ کی پالیسی سے نالاں تو ضرور تھیں لیکن ٹرمپ کے نعرے کہ ’میں جنگ نہیں چاہتا ہوںاور میں اینٹی وار ہوں‘ اس لئے امریکی خواتین نے اپنی ناراضگی دور کردی اور ٹرمپ کو ووٹ دیا۔
EPAPER
Updated: January 07, 2025, 4:41 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
امریکی خواتین ٹرمپ کی پالیسی سے نالاں تو ضرور تھیں لیکن ٹرمپ کے نعرے کہ ’میں جنگ نہیں چاہتا ہوںاور میں اینٹی وار ہوں‘ اس لئے امریکی خواتین نے اپنی ناراضگی دور کردی اور ٹرمپ کو ووٹ دیا۔
سال کے آخری دن یعنی نیا سال شروع ہونے سے کچھ گھنٹے قبل امریکہ میں دو بڑے حادثے ہوئے۔پہلا حادثہ یہ تھا کہ کسی شخص نے نیا سال منانے والی بھیڑ پراپنی گاڑی چڑھا دی جس کی وجہ سے پینتیس افراد ہلاک اور کئی شدید زخمی ہوئے۔ گاڑی چڑھانے والے نوجوان کوگرفتار بھی کرلیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ اس کا نام جبار شمس الدین تھا ۔ دوسرا حادثہ یہ ہوا تھا کہ ٹرمپ کی رہائش گاہ کے سامنے ایک گاڑی پھٹ گئی تھی جس میں آتش گیر مادہ تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے بھی لوگوں کو تکلیف پہنچی تھی لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد یہ معلوم ہوا کہ گاڑی چلانے والے کا حادثہ محض ایک حادثہ تھا۔ یہ معلوم ہوا کہ گرفتار ہونے والا نوجوان خالص امریکی تھا۔ وہ ٹیکساس میں پیدا ہوا تھا اور امریکی فوج میں حصہ بھی لیتا تھا۔ وہ خالص عیسائی تھا اور اس واقعہ سے چند روز قبل اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا تھا اور مسلمان ہوگیا تھا۔ اس قسم کی خبر آتے ہی سنسنی میں کچھ کمی پیدا ہوگئی۔ یہاں یہ بات یاد رکھئے کہ سنسنی کو کم کرنے والوں میں دو بہت اہم نام تھے۔ پہلا نام رچرڈ گرینل کا تھا اور دوسرا ایلون مسک کا تھا۔ ان دونوں نامو ں کو یاد رکھنے کی کوشش کیجئے کیونکہ ٹرمپ کی صدارت کے عہدے میں یہ نام بار بار آپ کے سامنے آتا رہے گا۔رچرڈ گرینل کا اس لئے کہ وہ ٹرمپ کے بہت قریبی ساتھی اور ایک سینیٹر ہیں ۔ ٹرمپ کی پچھلی صدارت میں بھی وہ بہت کم ہی عہدوں پر رہے تھے۔ ایلون مسک کا نام آپ جانتے ہی ہیں ۔ وہ یو ٹیوب کے حریف ٹیوٹرکے مالک ہیں جسے اب ایکس کے نام سے جانا جاتاہے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ ایلون مسک نے ہندوستان میں ٹیوٹر لگایا تھا لیکن مودی سرکار سے ان کا جھگڑا ہوا تھا۔ وہ یو ٹیوب کی طرح اپنے ٹیوٹر سے ہر وہ جملہ نہیں نکال دینا چاہتے تھے جو نریندر مودی کی حکومت پر اثر انداز ہو۔اب سنا ہے کہ وہ ایک نیا سیٹیلائٹ لا رہے ہیں جس کا نام ’سن لائٹ‘ ہے۔ اس سیٹیلائٹ کے آنے کےبعد دنیا میں کوئی خبر چھپی نہیں رہے گی اور نہ انٹر نیٹ کی رفتار کم ہونے سے اس پر کوئی اثر پڑے گا۔خیال رہے کہ حال ہی میں منی پور میں ہونے والے حادثات کی خبر اس لئے نہیں ملی کہ وہاں حکومت نے ’انٹر نیٹ ریٹ‘ کم کردیا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔ایک بات کا اور خیال رہے کہ امریکی صدارت کے معاملے میں بہت خبریں ایسی تھیں کہ جو جھوٹ پر مبنی تھیں اور پوری ایمانداری سےاس میں ہمارا یہ کالم بھی شامل تھا۔ وجہ یہ تھی کہ امریکی میڈیا ایک عجیب کھیل کھیل رہا تھا۔ وہ کبھی کہتا تھا کہ جوبائیڈن جیت رہے ہیں ، کبھی کہتا تھا کہ ٹرمپ جیت رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ساری دنیا کی میڈیا پر اس کا اثر تھا اور ہم بھی اس سے متاثر ہوئے تھے۔چنانچہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کی ہندوستانیت کی وجہ سے ہم بھی اس سے خوش تھے لیکن جب نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ یہ سب واہمہ تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دو ایسی باتیں ہوئی تھیں کہ ان کا لوگوں کو بہت کم علم تھا۔پہلی بات یہ کہ امریکہ میں خواتین کی بہت بڑی تعداد ڈونالڈ ٹرمپ کو ناپسند کرتی تھی۔ اس کی وجہ ٹرمپ کی اسقاط حمل کے بارے میں پالیسی تھی۔ امریکی خواتین اس سے نالاں تھیں ۔ اسقاط حمل کی بھی ایک عجیب کہانی ہے۔ہم کم از کم اپنی کتاب قرآن حکیم کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ بچے کی پیدائش کے بارے میں جتنا مفصل حاصل یہاں لکھا ہےدنیا کی دوسری کتابوں میں نہیں لکھا ہے۔ اسقاط حمل کی بات تو نہیں لیکن ہماری کتاب میں کہا گیا ہے کہ اگرحمل کے وقت حاملہ بردار خاتون اور نئی پیدا ہونے والی مخلوق میں صرف ایک ہی جان بچانا ہوتو پہلے حاملہ بردار خاتون کی جان بچائی جائے۔اس کے علاوہ اسی کتاب میں بچے کی پیدائش کا مکمل حال بھی لکھا ہے۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں اسقاط حمل کی معیاد پانچ چھ ہفتے رکھی گئی ہے۔ تو امریکی خواتین ٹرمپ کی اس پالیسی سے نالاں تو ضرور تھیں لیکن ٹرمپ کے نعرے کہ ’میں جنگ نہیں چاہتا ہوں اور میں اینٹی وار ہوں ‘ اس لئے امریکی خواتین نے اپنی ناراضگی دور کردی اور ٹرمپ کو ووٹ دیا۔کچھ یہیں حال امریکہ میں پھنسے ہوئے غیر امریکی شہریوں پر تھاجو عام طو رپر ڈیموکریٹ پارٹی کو ووٹ دیتے تھے لیکن اس بار انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا اور ٹرمپ کی بڑی فتح کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کا آنا کسی کے لئے اچھا اور کسی کے لئے برا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعدامریکہ اور یورپ کی تاریخ بدل سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ڈاکٹر منموہن سنگھ: خاموشی کی طاقت کا استعارہ
ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ وہائٹ ہاؤس میں رہائش پذیر ہوتے تو وہ یوکرین کی جنگ نہیں ہونے دیتے۔ ان کے صدر بننے کے بعد وہائٹ ہاؤس میں ان کے پہنچنے کی تاریخ بیس جنوری ہے تو ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ وہائٹ ہاؤس پہنچ کر یوکرین کی جنگ کے بارے میں ان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ایسا تو نہیں ہے کہ وہ وہاں پہنچتے ہی یہ کہہ دیں کہ یوکرین کی جنگ بند ہوگئی ہے، کیونکہ جنگ کا شروع ہونا جتنا دشوار ہوتا ہے جنگ کو ختم کرنا بھی اتنا ہی دشوار ہوتا ہے لیکن یہ درست ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکہ اور یورپ کی تاریخ بدل سکتی ہے۔ ایک بات اور یاد رکھئے، یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ ٹرمپ کا آنا ہندوستان کے لئے بہت اچھا نہیں ہے۔ایسانہیں ہوگا، ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات بہرحال معمول پر ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ٹرمپ اور نریندر مودی میں ہنسی مذاق کا جو رشتہ تھا وہ غیر محفوظ ہوجائے گالیکن دوسری طرف ٹرمپ کے آنے کی وجہ سے پاکستان کی حالت بہتر ہوجائے گی۔ ٹرمپ کے آنے کے بعدعمران خان نے کہا تھا کہ ٹرمپ کے آنے کی وجہ سے پاکستان کی طرف امریکہ کا رویہ بدلے گا اور یہ سچ بھی ہے۔ ایک بار پھر یاد رکھئے کہ جوبائیڈن نے اپنے چار سالہ دور اقتدار میں ایک بار بھی عمران خان سے بات نہیں کی تھی،ٹرمپ ،گرینل، ایلن مسک اور چند دوسری وزارتیں ایسی لوگوں کو دی ہیں جو عمران خان سے دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دوہفتے قبل رچرڈ گرینل نے اپنےایکس پر یہ اعلان کیا تھا کہ عمران کو چھوڑ دو (فری عمران)۔ گرینل کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی چند ہی گھنٹوں میں ان کے اس پیغام کو دیکھنے اور اس کو پسند کرنے والوں کی تعداد تیرہ لاکھ ہوگئی۔ گرینل کو یہ لگا کہ پورا پاکستان عمران خان میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ایک بات اور بھی یاد رکھئے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد زلمئے خلیل زاد کو کوئی اہم شعبہ دیا جاسکتا ہے۔زلمئے خلیل زاد اور عمران خان ٹرمپ کی صدارت کے زمانے میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے فرار کے بعد عمران خان سے بہت اچھے روابط قائم ہوئے تھے۔ہم ہندوستانیو ں کو ان تمام حالات سے بہت باخبر رہنا پڑے گاکیونکہ ٹرمپ کے آنے کے بعد دنیا کی تاریخ میں بڑی بڑی تبدیلیاں ہو ں گی۔