Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

مرد و خاتون کے تعلقات کی بنیاد باہمی محبت پر قائم ہے، انہیں رشتوں کا تقدس ملحوظ رکھنا چاہئے!

Updated: March 15, 2025, 11:21 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

’’ یوم خواتین ‘‘ پر یہ اہتمام کرنا بھی  ضروری ہے کہ ازدواجی، خاندانی اور معاشرتی رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے والی خواتین یا دراڑ پیدا کرنے والوں کی آلۂ کار بننے والی خواتین میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ان کا مرتبہ کیا ہے۔

International Women`s Day was celebrated with great enthusiasm across the world on March 8. Photo: INN
۸؍ مارچ کو دنیا بھر میں یوم خواتین زور وشور کےساتھ منایا گیا۔ تصویر: آئی این این

 گزشتہ سنیچر  (۸؍ مارچ ) یوم خواتین منایا گیا اور اس موقع پر جو اعدادوشمار  سامنے آئے مثلاً سائنس،  ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ (حساب ) اسٹریم میں دیئے جانے والے تقریباً آدھے داخلے لڑکیوں کے ہیں، مسلح افواج میں خواتین کومستقل کمیشننگ دی جارہی ہے اور  میٹر نیٹی لیو یعنی زچگی کیلئے دی جانے والی چھٹی ۱۲؍ ہفتے سے بڑھا کر ۲۶؍ ہفتے کردی گئی  ہے،  وغیرہ۔ ہمارے لئے ایسی تمام خبریں مسرورکن ہیں کیونکہ ہم خواتین کی بہتری کیلئے کئے جانے والے  تمام اقدام کے حق میں ہیں اوراس کا استقبال کرتے ہیں مگر ہم ان اعدادوشمار کے جاری کئے جانے کے بھی متمنی تھے جن سے معلوم ہو کہ ہر منٹ ہمارے ملک میں کتنی خواتین دوران زچگی  موت کی آغوش میں پنا ہ لے لیتی ہیں یا کتنی ہیں جن کی  عزت لوٹ لی جاتی ہے۔ چونکہ جاری کئے گئے اعدادوشمار میں اس بات کا بھی خصوصی ذکر ہے کہ طلاق ثلاثہ پر قانونی پابندی عائد کردی گئی ہے اور اب ایک خاتون تنہا بھی  حج پر جاسکتی ہے اس لئے یہ جاننا ضروری سمجھتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ قانون کی خلاف ورزی کے سبب کتنے مردوں کو جیل ہوئی ہے یا کتنے مردوں پر اس معاملے میں  پہلے شکایت درج ہوئی  اور پھر وہ اپنی اسی بیوی کے ساتھ رہنے لگے جس کو ایک مجلس میں تین طلاق دینے کا ان پر معاملہ درج تھا یا ہندوستان سے کتنی خواتین محرم کے بغیر حج پر گئیں؟ 
 ایک خاتون چاہے اس کی حیثیت ماں کی ہو، بہن کی ہو، بیوی کی ہو، بیٹی اور بہو کی ہو یا عام عورت ہو، وہ احترام وانصاف اور  مساوی سلوک کی مستحق ہے مگر مشکل یہ ہے کہ جیسے جیسے صنفی مساوات کے نعرے میں شدت پیدا ہورہی ہے مردو خاتون  کے ازدواجی تعلق  میں تلخی پید ا ہورہی ہے۔ کہیں کہیں تو ایسے معاملات پیش آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خرچ شوہر سے لینے اور من مانی زندگی گزارنے کا رجحان  بڑھ رہا ہے۔ وہ علاقے محدود ہوئے ہیں جہاں جسم فروشی کی جاتی ہے مگر وہ رجحان عام ہوا ہے جو جسم فروشی کرنے یا اس سے فائدہ اٹھانے کو گوارا کئے ہوئے ہے۔ شاید اس مقام تک ہم ابھی بھی نہیں پہنچے ہیں جہاں  اپنی بیٹی، بہن کی عزت کی طرح دوسروں کی بہن بیٹیوں کی بھی عزت ہمیں عزیز ہو۔ 
 ۵۰؍ فیصد ریزرویشن کے سبب خواتین کو پنچایتوں میں  نمائندگی مل رہی ہے۔ یہ بھی اچھا ہے کہ اگر خاتون اپنا گھر خاندان چلا سکتی ہے تو گاؤں کا انتظام بھی سنبھال سکتی ہے لیکن حقیقت  میں کیا ہورہا ہے ؟ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق ملک میں پنچایت سطح پر منتخب نمائندوں کی  تعداد ۲۲ء۲۹؍ لاکھ ہے۔ ان میں خواتین کی تعداد ۱۵ء۰۳؍ لاکھ ہے یعنی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے آدھے سے کم ہے۔ اس پر بھی جو ہورہا ہے اس کا اندازہ اس سے کیا  جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے خواتین کے بدلے ان کے شوہروں یا رشتہ داروں کے کردار یا عمل دخل کو ختم کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی نے  پچھلے ماہ جو  رپورٹ پیش کی  اس میں ان لوگوں پر جرمانہ لگانے کی بھی سفارش کی جو خواتین نمائندوں کی جگہ لینے کے لئے شوہر یا رشتہ دار ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مطلب  یہ ہے کہ نام  خواتین کا ہے، کام مرد کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس طرز عمل پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے ۔ 
  ایک انٹرویو میں میری زبان سے ایک جملہ نکلا تھا کہ جس کے ساتھ ماں کی دعائیں ہوں ، دنیا کی بہت سی خواتین ماں بن کر اس کے سرپر اپنا آنچل  رکھ دیتی ہیں۔ میرے ساتھ یہی ہوا ، اس شہر میں کئی خواتین نے ماں کا اورکئی خواتین نے بہن کا پیار دیا۔ مگر تجربہ یہ بھی کہتا ہے کہ کوئی کسی کا گھر آباد ہونے میں مدد کرے یہ سب سے برداشت نہیںہوتا۔ مسئلہ  ایسی خواتین کا بھی ہے کہ جودوسروں کے بہکاوے میں آجاتی ہیں۔ ’’یوم خواتین‘‘  پر جہاںخواتین کا  اعزاز واکرام ضروری ہے جنہوںنے ’’ممتا‘‘ نچھاورکی یا ’’بہناپا‘‘ دکھایا اورکسی کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی وہیں اُن عورتوں کی مذمت بھی ضروری ہے جنہوںنے اپنی  ہی بہنوں کے گھر برباد کردیئے، جنہیں یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ سامنے والا ان کی ستائش کررہا ہے، ورغلا رہا ہے یا یہ کہ ہماری زبان میں ’’کُٹنی ‘‘  کا لفظ کیوں اورکیسی خواتین کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ جیت کی خواہش میں ہار کا سودا کرتی رہتی ہیں اورخود بھی نہیں سمجھ پاتیں کہ اپنے حق میں اچھا کررہی ہیں یا برا؟ 
 ’’ یوم خواتین ‘‘  پر جہاں مختلف تقریبات ہوتی ہیں یہ اہتمام کرنا ضروری ہے کہ ازدواجی، خاندانی اور معاشرتی  رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے والی خواتین یا دراڑ پیدا کرنے والوں کی آلۂ کار بننے والی خواتین میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ان کا مرتبہ کیا ہے۔ میں ان تمام خواتین کیلئے باقاعدگی سے دعائے مغفرت کرتا ہوں جنہوں نے ماں یا بہن بن کر میری راہ آسان کی۔ ماں اور بہن کے علاوہ جو خاتون میری زندگی میں ہے وہ بیوی ہے اور ماں کی ہی پسند ہے۔ میں اپنی بیوی کی رفاقت و حماقت دونوں کا قائل ہوں۔  اس میں یہ درس بھی پوشیدہ ہے کہ مرد و خاتون کے تعلقات کی بنیاد باہمی محبت پر قائم ہے۔ یوم ِ خواتین پر یہ پیغام عام کئے جانے کے ساتھ یہ پیغام بھی عام کیا جانا چاہئے کہ مرد اور خاتون رشتوں کا تقدس پامال نہ ہونے دیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK