اردو کارواں کی جانب سے منائے جانے والے اس عشرے میں اردو کی تقریباً ہر صنف سخن کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں جو کالجوں کے طلبہ کو دھیان میں رکھ کر ہی ترتیب دئیے جاتے ہیں ، اس سال آٹھواں عشرہ اردو منعقد کیا گیا جس میں کئی بہترین پروگرام ہوئے اورادباء و شعراء نے بھی انہیں پسند کیا۔
اردو کارواں کے عشرہ اردو کے تحت منعقدہ بیت بازی مقابلے میں شامل طلبہ اور مہمانان۔ تصویر: آئی این این۔
اردو زبان و ادب اور ثقافت کی ترویج و اشاعت کے لئے عروس البلاد ممبئی میں کئی ادارے اورتنظیمیں سرگرم ہیں۔ یہ ادارے اپنے اپنے طور پر اور اپنے اپنے میدان میں نہایت خوش اسلوبی سے یہ ذمہ داری انجام دے رہے ہیں جن میں اردو کارواں بھی شامل ہے لیکن اس تنظیم اور اس کے کام کو جو بات ممتاز بناتی ہے وہ ان کا ’عشرہ ٔ اردو ‘ ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو گزشتہ ۸؍ سال سے نہ صرف جاری ہے بلکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سال حال ہی میں یہ عشرہ اختتام پذیر ہوا ہے اور اس کی وجہ سے اردو حلقوں میں زبان و ادب اور ثقافت کے تعلق سے جتنی ہلچل رہی وہ نہ صرف قابل دید تھی بلکہ اس سے حوصلہ بھی ملتا ہے کہ اس زبان و تہذیب کی آبیاری کرنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس کے ختم ہونے کی تمام باتیں محض اندیشے ہیں ، ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں۔ اردو کارواں جس عشرۂ اردو کا انعقاد کرتا ہے وہ کوئی عام عشرہ یا پروگرام نہیں ہوتا بلکہ نہایت سوچ سمجھ کر اور انتہائی منظم طریقے سے پورے۱۰؍ دن کے پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ ان پروگراموں کی مدد سے اردو کارواں کے ذمہ داران پورے شہر بلکہ پوری ریاست میں اردو کے تئیں زبردست ہلچل شروع کردیتے ہیں جس کا فائدہ بلاشبہ پوری اردو کمیونٹی کو ہوتا ہے۔ عشرہ اردو کے تحت تمثیلی مقابلہ برائے طلبہ ، بیت بازی ، آن لائن مقابلہ برائے ادبی و علمی ریٖل، مقابلہ ٔ غزل سرائی برائے نوجوان شعراء ، مقابلہ افسانچہ خوانی برائے جونیئر کالج اور ڈی ایڈ کالج ، تقریری مقابلہ برائے میونسپل سیکنڈری اسکول (طلبہ)، مونو ایکٹنگ مقابلہ برائے طلبہ ، سالانہ مشاعرہ ، مقابلۂ مقالہ نگاری اور اختتامی پروگرام میں مذاکرہ بعنوان عصر حاضر کا ادب اور جدید تقاضے منعقد کیا گیا۔
اس بارے میں اردو کارواں کے روح رواں اور محب اردو فرید احمد خان نے ہمیں بتایا کہ ’’ اردو کارواں نے اپنی تشکیل کے سال ۲۰۱۷ء سے ہی عشرہ اردو منانے کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اس سے قبل پورے مہاراشٹر میں اردو کی مختلف اصناف سخن پر مبنی خاص طور پر بالغ طلبہ کے لئے دس روزہ پروگرام یا مقابلوں کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔ ہر چند کہ کچھ شہروں میں اپنے اپنے طور پر کچھ تنظیمیں ایسے پروگرام کرتی ہیں لیکن وہ بہت چھوٹے پیمانے پر ہوتے ہیں ، ریاستی سطح پر یا کئی شہروں میں ایک ساتھ پروگرام کا سلسلہ اردو کارواں نے ہی شروع کیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ عشرہ اردو کے پروگراموں کا انعقاد روزانہ ایک نئے کالج کیمپس میں ہوتا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ فروغ اردو کے نام پر ہم صرف مشاعروں کے انعقاد یا بیت بازی کے مقابلوں تک محدود نہ رہیں بلکہ اردو کی دیگر اصناف سخن کو جن میں کچھ معدوم ہوتی جارہی ہیں جیسے داستان گوئی کو بھی اپنے پروگرام میں جگہ دیں۔ فرید احمد خان کے مطابق عشرہ اردو کے مقابلےممبئی، تھانہ، بھیونڈی، ممبرا، کلیان حتیٰ کے اُرن کے بھی تعلیمی اداروں میں منعقد ہوتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کیوں کہ اس میں ۸؍ ویں جماعت سے لے کر جونیئر کالج ، ڈگری کالج اور یہاں تک کے پی ایچ ڈی کے طلبہ بھی شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عشرہ اردو کے مقابلوں کے ذریعے طلبہ کو جو پلیٹ فارم ملتا ہے اس سے ان کی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں ، ان کی خود اعتمادی، تعلیمی اور ادبی معلومات میں اضافہ ہوتا ہےجس کی وجہ سے ان کی مجموعی تعلیمی کارکردگی بہترہوتی ہے۔
سینئر شاعر اور معروف نغمہ نگار احمد وصی نےاس سال کے عشرہ اردو کے ایک پروگرام میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور اس کے علاوہ بھی وہ گزشتہ کئی سال سے اردو کارواں کے پروگراموں میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ’’ اردو کی ترویج و اشاعت اور اس کی ترقی کے لئے ہر تنظیم اپنی اپنی جانب سے کوشش کررہی ہے اور ہمیں ہر کسی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے لیکن جہاں تک بات ہے عشرہ اردو کی تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بہت منفرد اور دلچسپ پروگرام ہوتے ہیں۔ چونکہ اس عشرے کے دوران تقریباً ہر صنف سخن کے لئے پروگرام منعقد ہوتے ہیں اس لئے ان کی انفرادیت بھی برقرار رہتی ہے اور طلبہ کی دلچسپی بھی۔‘‘ احمد وصی نے مزید کہا کہ انہوں نے جس پروگرام میں شرکت کی وہ نئے شاعروں کا مقابلہ تھا جو میرے خیال میں اس سے قبل کبھی منعقد نہیں ہوا۔ اس میں نئے شاعروں کے پڑھنے کے انداز، ترنم میں کیسا پڑھتے ہیں ؟ تحت میں کیسا پڑھتے ہیں ؟ان کا تلفظ ، شعروں میں موجود خیال اور ایسی ہی دیگر چیزوں پر مشتمل مقابلہ تھا جو نہایت کامیاب رہا اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اردو کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ احمد وصی جن کی حال ہی میں شاعری پر مشتمل کتاب’کاغذ نم رہا ‘شائع ہوئی ہے ، نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس عشرہ کے تحت منعقدہ مشاعرے میں بھی شریک ہوئے تھے۔ یہ عام مشاعروں جیسا مشاعرہ نہیں تھا جہاں دھما چوکڑی مچی رہتی ہے بلکہ یہاں باقاعدہ شاعری کی ترسیل ہو رہی تھی اور اس دوران ندیم سیتا پوری جو بنیادی طور پر ہزل گو شاعر ہیں ، نے اپنی ہزل پیش کرکے محفل کو قہقہہ زار بنادیا تھا۔
معروف شاعر ، مدیر ’اردو چینل ‘ اور ممبئی یونیورسٹی میں شعبہ اردو سے وابستہ سرگرم استاذ ڈاکٹر قمر صدیقی نے بتایا کہ ’’ اردو کارواں واقعی مجروح سلطانپوری کے اس مشہور زمانہ شعر کی زندہ تصویر بن گیا ہے کہ ’’میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر/لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ‘‘، فرید احمد خان اور ان کے رفقاء نے جو ننھاپودا آٹھ سال قبل لگایا تھا اب وہ تناور درخت بن گیا ہے اوراس کی چھائوں سے اس وقت شہر و ریاست کی پوری اردو دنیا فیضیاب ہو رہی ہے۔‘‘ قمر صدیقی کے مطابق شہر میں ادبی پروگراموں کا انعقاد بہت کم ہو گیا ہے۔ معدودے چند ہی ادارے ہیں جو اس میدان میں سرگرم عمل ہیں لیکن ان میں اردو کارواں کا عشرۂ اردو سب سے منفرد اور مختلف ہے۔ اس عشرے کے انعقاد کا اردو حلقوں میں کافی اثر ہوتا ہے اور کچھ وقت کے لئے ہی سہی اردو اور اس کی مختلف اصناف سخن پر گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔ چونکہ جونیئر کالج اور ڈگری کالجوں کی سطح پر یہ پروگرام ہوتے ہیں اس لئے ان کا اثر اور بھی زیادہ ہوتا ہے کیوں کہ بڑی کلاسوں کے طلبہ کیلئے اس طرح کے پروگراموں کے انعقاد کا سلسلہ تو تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ عشرہ اردو کے انعقاد کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ یہاں معیار سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا ہے اسی لئے ان کا جو مشاعرہ ہوتا ہے وہ ہلڑ بازی نہیں بلکہ باقاعدہ مشاعرہ ہوتا ہے جہاں شاعری کی جاتی ہے۔
معروف شاعرسدھارتھ شندلیہ نے ہمیں بتایا کہ ’’گنگا جمنی تہذیب کو پروان چڑھانے، اردو کی مختلف اصناف سخن میں مشق سخن بہم پہنچانے اور اردو تہذیب کا ڈنکا بجانے کے لحاظ سے اردو کارواں کے پروگرام بہت اہم ہیں۔ اس سے قبل اردو کارواں کے تحت ہی ’پروفیٹ فار آل ‘ نعتیہ مشاعرہ بھی منعقد کیا جاچکا ہے جس میں غیرمسلم شعراء حضرات نے حضورؐ کی شان میں نعتیں پڑھ کر بھائی چارہ اور ہم آہنگی کےفروغ کا پیغام دیا ہے۔‘‘ سدھارتھ شندلیہ کے مطابق فرید احمد خان اس لحاظ سے قابل مبارکباد ہیں کہ وہ گزشتہ ۸؍ سال سے عشرہ اردو نہ صرف منعقد کررہے ہیں بلکہ ہر سال اسے بہتر سے بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے اردو حلقوں کے سامنے یہ ماڈل پیش کردیا ہے کہ اس طرح کی منفرد کوشش جب تک نہ کی جائے گی تب تک کامیابی نہیں ملے گی۔