• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اشوک کمار کو فلم شائقین نے مسلم سوشل فلموں میں بالخصوص نواب کے کردار میں کافی پسند کیا ہے

Updated: March 14, 2023, 12:02 PM IST | anees amrohvi | Mumbai

فلم ’بے نظیر‘ کے نواب اور ’بہو بیگم‘ میں نواب سکندر مرزا کے کردار میں انہوںنے بہترین اداکاری کی ہے، اسی طرح فلم ’میرے محبوب‘ کے لُٹے پٹے نواب بلند اختر چنگیزی اور کمال امروہی کی فلم ’پاکیزہ‘ کے نواب شہاب الدین کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں

Ashok Kumar`s performance in the film `Kanoon` was much appreciated
فلم ’قانون‘ میں اشوک کمار کی اداکاری کو کافی پسند کیا گیا تھا



 ء  ۱۹۵۴میں بمبئی ٹاکیز سے علاحدہ ہوکر اشوک کمار نے ششدھر مکرجی، گیان مکرجی، رائے بہادر چنی لال اور کمال امروہی کے ساتھ مل کر جب فلمستان اسٹوڈیو کی بنیاد ڈالی تو ایک فلم ’آٹھ دن‘ بنانی شروع کی۔ اشوک کمار کو لگا کہ وہ اداکاری کی طرح فلم کی ہدایتکاری بھی کامیابی کے ساتھ کر سکتے ہیں لہٰذا فلمستان کی پہلی فلم ’آٹھ دن‘کی ہدایتکاری اشوک کمار نے خود کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فلم بُری طرح فلاپ ہو گئی اور اشوک کمار نے مستقبل میں کبھی ہدایتکاری نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اس کے بعد انہوں نے اپنی تمام توجہ اداکاری پر ہی مرکوز کر دی۔ فلم ’آٹھ دن‘ میں اردو کے مقبول افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے بھی  ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا تھا۔ منٹو  اشوک کمار کے قریبی دوست تھے۔
 اشوک کمار نے اداکاری میں کامیابی حاصل کرنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں، انوپ کمار اور کشور کمار کو بھی بمبئی بلا لیا۔ کشور کمار کو گانے کا بہت شوق تھا۔ حالانکہ ان کی آواز اس زمانے کے گلوکاروں، طلعت محمود، محمدرفیع، مکیش، منّا ڈے اور مہندر کپور جیسی تو نہیں تھی مگر انہوںنے اپنے اسٹائل سے گلوکاری میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ کشور کمار ہرفن مولا قسم کے آدمی تھے۔ فلم میں اداکاری اور گلوکاری کے علاوہ موسیقی بھی دیتے تھے اور فلمسازی اور ہدایتکاری میں بھی ان کو دخل تھا۔ ۱۹۵۸ء میں کشور کمار کی بنائی فلم ’چلتی کا نام گاڑی‘ میں تینوں بھائیوں نے مزاحیہ کردار ادا کئے تھے اور بڑے بھائی کے کردار برج موہن میں اشوک کمار نے بھی جم کر کامیڈی کی تھی۔ اس فلم کے بعد ہی اداکارہ مدھوبالا نے کشور کمار سے شادی کر لی تھی۔ انوپ کمار بھی فلموں میں مزاحیہ کردار ادا کرتے رہے۔
 تقریباً اُسی زمانے میں اشوک کمار نے بمبئی فلم انڈسٹری سے بمل رائے جیسے باصلاحیت ہدایتکار کو متعارف کرایا اور ان کی ہدایت میں ۱۹۵۳ء میں فلم ’پرنیتا‘ بنائی گئی جس کی ہیروئن میناکماری تھیں۔ بمل رائے اور اشوک کمار میں طے یہ ہوا تھا کہ جو فلم اشوک کمار بنائیںگے اس  کے ہدایتکار بمل رائے ہوںگے۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا مگر بمل رائے اپنے وعدے سے ہٹ گئے، اسلئے دونوں کے تعلقات خراب ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد ۱۹۶۳ء میں جب فلم ’بندنی‘ کیلئے بمل رائے نے اشوک کمار کو سائن کرنا چاہا تو انہوںنے انکار کر دیا مگر بعد میں اداکارہ نوتن کے اصرار پر وہ بمل رائے کی ہدایت میں اس فلم میں کام کرنے پر رضامند ہو گئے۔ فلم ’بندنی‘ اشوک کمار کی بہترین فلموں میں سے ایک  ہوئی اور بہت کامیاب رہی۔ اس کے بعد اشوک کمار نے بمل رائے کی کئی فلموں میں اداکاری کی۔ حالانکہ اشوک کمار فلم کے کردار میں ڈھلنے کیلئے کچھ بھی کر سکتے تھے کیونکہ وہ ایک کمیٹڈ اداکار تھے مگر ۱۹۶۴ء میں ریلیز فلم ’چترلیکھا‘ کیلئے جب ہدایتکار کیدار شرما نے ان سے گنجا ہونے کیلئے کہا تو اشوک کمار نے صاف انکار کر دیا۔
 اشوک کمار کے دادامنی بننے کی بھی دلچسپ کہانی ہے۔ دراصل ان کی چھوٹی بہن ستی رانی اکثر بمبئی ٹاکیز آیا کرتی تھیں کیونکہ ان کے شوہر ششدھر مکرجی بھی وہیں کام کرتے تھے لہٰذا وہ بنگالی تہذیب کے مطابق اشوک کمار کو بڑے بھائی کے بجائے داداموڑیں کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔ بنگالی میں مڑیں کو موڑی کہا جاتا ہے اور انگریزی، ہندی اور اردو میں ’ڑ‘ کی جگہ’ ن‘ کا استعمال ہوتا ہے لہٰذا وہاں کے باقی لوگ بھی اشوک کمار کو دادامنی ہی کہنے لگے اور پھر تو پورے ہندوستان میں ان کا یہ لقب مشہور ہو گیا۔
  ستی رانی اور ششدھر مکرجی کے بیٹے جوائے مکرجی نے بھی کئی مقبول فلموں میں ہیرو کے کردار ادا کئے۔ مزاحیہ اداکار دیوین ورما اشوک کمار کے داماد ہیں اور اداکارہ وحیدہ رحمان اشوک کمار کی منہ بولی بہن تھیں اور ہر برس اُن کو رکشا بندھن کے تیوہار پر راکھی  باندھتی تھیں۔ اشوک کمار کی بیٹی پریتی گانگولی کے بعد اُن کی نواسی انورادھا پٹیل نے بھی فلموں میں اداکاری کی مگر یہ دونوں ہی کامیاب نہ ہو سکیں۔ انورادھا نے ایک فلم ’ لَو اِن گوا‘ میں اشوک کمار کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ اشوک کمار کبھی رات کی شفٹ میں شوٹنگ پر نہیں جاتے تھے مگر ۱۹۷۰ء میں منوج کمار کی فلم ’پورب اور پچھم‘ کیلئے انہوںنے لگاتار ایک ماہ کا وقت دیا اور کئی بار رات  میں بھی شوٹنگ میں حصہ لیا۔
 اشوک کمار نے کافی لمبے عرصے تک ہندوستانی گولڈن اسکرین پر اپنی ہیرو کی پہچان کو کامیابی کے ساتھ برقرار رکھا، مگر جب چہرے پر عمر کے نشان زیادہ واضح ہونے لگے تو انہوںنے ۶۰ء کی دہائی میں اپنے کردار بدلنے شروع کر دئیے اورکریکٹر آرٹسٹ کے طور پر فلمیں سائن کرنی شروع کر دیں۔ ۱۹۶۰ء میں ریلیز ان کی فلم ’قانون‘ بے حد کامیاب رہی جس میں انہوںنے ایک جج کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد کریکٹر رول والی ان کی فلمیں لگاتار آنی شروع ہو گئیں۔ ۱۹۶۱ء میں ’دھرم  پُتر‘ اور ’اُمید‘، ۱۹۶۲ء میں ’راکھی، نقلی نواب، مہندی لگی میرے ہاتھ، اسی کا نام دنیا ہے، برما روڈ اور’آرتی‘ وغیرہ، ۱۹۶۳ء میں ’یہ راستے ہیں پیار کے، استادوں کے استاد، میری صورت تیری آنکھیں،میرے محبوب، گمراہ، گرہن، بندنی اورآج اور کل،۱۹۶۴ء میں ’دوج کا چاند،چترلیکھا اوربے نظیر، ۱۹۶۵ء میں’اونچے لوگ، بھیگی رات، آکاش دیپ وغیرہ ہیں۔
  ۱۹۷۵ء میں امیتابھ بچن اور جیا بہادری کی فلم ’مِلی‘ میں بھی اشوک کمار نے مِلی کے باپ کا یادگار کردار ادا کیا۔ ۱۹۸۴ء میں دوردرشن کے پہلے ٹی وی سوپ ’ہم لوگ‘ میں سوتردھار (راوی) کا کردار ادا کیا جو کافی عرصہ تک چلا اور اشوک کمار کی مقبولیت عوام میں بنی رہی۔ ۱۹۸۶ء میں انہوںنے ٹی وی سیریل ’بھیم بھوانی‘ اور’کراس روڈ‘ میں بھی کام کیا۔ ٹی وی سیریل ’بھارت ایک کھوج‘ میں بھی انہوں نے اداکاری کی۔ اس کے علاوہ اس عرصے میں ان کی لگاتار کریکٹر اداکار کے طور پر فلمیں بھی آتی رہیں۔ ۱۹۹۷ء میں اشوک کمار کی اداکاری والی آخری فلم ’آنکھوں میں تم ہو‘ ریلیز ہوئی اور اس کے بعد صحت کی خرابی کی وجہ سے انہوںنے فلموں میں کام کرنا ترک کر دیا۔
 اشوک کمار کی پسندیدہ اداکارائوں میں گیتا بالی، مدھو بالا، میناکماری، سچترا سین اور نوتن کے نام خاص طور پر لئے جا سکتے ہیں۔ مینا کماری نے ۱۸؍فلموں میں اشوک کمار کے ساتھ اداکاری کی ہے۔ اشوک کمار کے عشق کی بھی کئی داستانیں مشہور ہوئیں۔ سب سے پہلے لیلا چٹنس کا نام ان کے ساتھ جوڑا گیا۔ اس کے بعد فلم ’سمادھی‘ کی تکمیل کے دوران وہ خود اداکارہ نلنی جیونت پر عاشق ہو گئے، جس کے نتیجے  میں اُن کی بیوی نے سگریٹ کم کرنے کے بہانے سے اپنی بیٹی بھارتی کو اشوک کمار کے ساتھ شوٹنگ پر بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ کافی دنوں بعد نروپا رائے کے نام کے ساتھ بھی اشوک کمار کا نام جوڑا گیا۔ اِن دونوں نے لگاتار ایک ساتھ ۱۵؍فلموں میں کام کیا تھا۔ اس کے باوجود اشوک کمار نے ہمیشہ اپنے آپ کو ایک ذمہ دار شوہر اور شفیق باپ کے طور پر ثابت قدم رکھا اور اداکاری کے پیشے سے بھی جڑے رہے۔
 اشوک کمار نے کئی مسلم سوشل فلموں میں بڑی کامیاب اداکاری کی ہے اور ایسے کرداروں میں وہ نہ صرف پسند کئے جاتے تھے بلکہ مسلم کردار ان پر خوب جچتے بھی تھے۔ فلم ’بے نظیر‘ کے نواب اور ’بہو بیگم‘ میں نواب سکندر مرزا کے کردار میں انہوںنے میناکماری کے ساتھ بہترین اداکاری پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ فلم ’میرے محبوب‘ کے لُٹے پٹے نواب بلند اختر چنگیزی اور کمال امروہی کی مشہور زمانہ فلم ’پاکیزہ‘ کے نواب شہاب الدین کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ فلم ’پیار کیا ہے پیار کریںگے‘ میں عبدالرحمان کا کردار اور فلم ’آپ کے دیوانے‘ میں انشااللہ خاں، ’فلم بڑھتی کا نام داڑھی‘ میں گلفام اور فلم ’دھرم پُتر‘ میں نواب بدرالدین، فلم ’ہمایوں‘ میں ہمایوں اور میناکماری کے ساتھ فلم ’نجمہ‘ میں یوسف کے کرداروں کو بھلا کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ بی آرچوپڑہ کے ایک ٹی وی سیریل میں انہوںنے بہادر شاہ ظفر کا کردار بھی بخوبی ادا کیا تھا۔ ان کا اردو کا تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی بھی بہت اعلیٰ درجے کی تھی اور ان کے بدن پر چوڑی دار پائجامہ کے ساتھ شیروانی بھی خوب سجتی تھی۔
 اشوک کمار کو پہلی بار ۱۹۶۲ء میںپہلا فلم فیئر ایوارڈ فلم ’راکھی‘ کیلئے دیا گیا تھا۔ ۱۹۶۸ء میں دوسری بار اُن کو فلم ’آشیرواد‘ کیلئے ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں انہیںسب سے بڑا فلمی اعزاز ’دادا صاحب پھالکے‘ پیش کیا گیا۔ فلم ’گمراہ‘ کیلئے  انہیں نیشنل ایوارڈ دیا گیا اور بعد میں ملک کے باوقار اعزاز ’پدم شری‘ سے بھی نوازا گیا۔
 ۱۰؍دسمبر ۲۰۰۱ء کو تقریباً ڈھائی برس طویل بیماری کے بعد ممبئی کے اپنے چمبور والے پُرانے مکان میں اشوک کمار نے آخری سانس لی اور اس دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK