ان دنوں ریاست میں یہ ہوا گرم ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار جلد ہی اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں اور ہریانہ، مہاراشٹر، جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ بہار میں بھی انتخاب کے خواہاں ہیں ۔ اگرچہ ریاست بہار کی کئی اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور راجیہ سبھا کی دو سیٹوں کیلئے بھی ضمنی انتخاب ہونا ہے۔
نتیش کمار۔ تصویر: آئی این این۔
حالیہ پارلیمانی انتخاب کے نتائج کے بعد ریاست بہار میں ایک طرف ہر ایک سیاسی جماعت اپنی فتح اور شکست کا احتسابی جائزہ لے رہی ہے تودوسری طرف بر سراقتدار قومی جمہوری اتحاد کی حکومت جس کی باگ ڈور نتیش کمار کے ہاتھو ں میں ہے، وہ قدرے زیادہ فعال نظر آرہی ہے۔ اندرونِ خانہ سے چھن چھن کر یہ خبر بھی آرہی ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی خواہش ہے کہ ریاست میں موجودہ اسمبلی کی مدت کار مکمل ہونے سے قبل ہی اسمبلی انتخاب کرایا جائے۔ ایسا کیوں ؟ آئیے اس کا جائزہ لے لیا جائے:
نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ اور ان کے اتحادی بی جے پی، لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس پاسوان) اور جیتن رام مانجھی کو ریاست میں پارلیمانی انتخاب میں خاطر خواہ فائدہ پہنچا ہے اور اس وقت ان کیلئے سازگار ماحول دکھائی دے رہا ہے۔ عوام کو اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے کہ اسمبلی کا انتخاب قبل از وقت ہو لیکن سیاسی بساط پر شطرنج کی چالیں تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی چلی جاتی ہیں۔ اس لئے اگر وزیر اعلیٰ نتیش کمار اسمبلی انتخاب قبل از وقت چاہتے ہیں تو وہ زمینی حقیقت کی بنیاد پر ہی ایسا کہہ رہے ہوں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی انتخاب میں انڈیا اتحاد کو جو امید تھی وہ پوری نہیں ہو سکی ۔ اگر راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو اپنے گھریلو سیاسی مفادسے اوپر اٹھ کر انتخابی میدان جیتنے کی جدوجہد کرتے تو شاید کچھ اور ہی نتیجہ ہوتا۔ واضح رہے کہ ایک طرف وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ساتھ انتہائی پسماندہ، دلت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی وجہ سے اعلیٰ طبقے کے ووٹروں کی صف بندی ہوئی تو دوسری طرف نتیش کمار کی اپنی شبیہ اور ان کے ذریعہ کئے گئے ترقیاتی کاموں نے ان کے حق میں فضا سازگار کی۔ اس کے برخلاف، انڈیا اتحاد کی طرف سے تیجسوی یادو خود تو فعال رہے اور دن رات انتخابی جلسوں کے ساتھ ساتھ فضا ہموار کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر انتخابی اجلاس میں ان کے ساتھ کوئی دلت، انتہائی پسماندہ، مسلمان اور اعلیٰ طبقے کا کوئی ایسا چہرہ نہیں تھا جس سے عوام میں ایک مثبت پیغام جاتا۔ مسلمانوں سے دوری بنائے رکھنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ ادھر چند برسوں سے سیکولر سیاسی جماعتوں کو یہ خوف ہے کہ وہ اگر مسلم چہرے کو آگے رکھیں گے تو اس سے ان کانقصان ہوگا۔ ہم نہیں جانتے کہ مسلمانوں سے دوری بنانے کی کوشش اگر حکمت عملی ہے تو کتنی کارگر ہوگی مگر یہ طے ہے کہ مسلم طبقہ بھی اتنا نادان نہیں ہے کہ وہ ان احتیاطوں کو نہ سمجھے۔ ارریہ جیسی سیٹ پر راشٹریہ جنتا دل کے امیدوار کا ناکام ہونا اور پھر چھپرہ میں بھی لالو یادو کی صاحبزادی روہنی اچاریہ کو شکست فاش ہونا یہ اشارہ ہے کہ بہار میں کس طرح کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے۔ اس تلخ حقیقت سے تو کسی کو انکار نہیں کہ جہاں مسلم امیدوار ہوتے ہیں وہاں یادو طبقے کے ووٹوں میں بھی بکھرائو نظر آتا ہے جبکہ مسلم رائے دہندگان ایمانداری سے سیکولر جماعتوں کے ساتھ رہتے ہیں گو کہ اس کا نقصان بھی ریاست کے مسلمانوں کو ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ پارلیمانی انتخاب کے نتائج کے بعد سیتا مڑھی پارلیمانی حلقہ سے نو منتخب جنتا دل متحدہ کے ممبر پارلیمنٹ دیویش چندر ٹھاکر نے تو اعلانیہ کہا کہ وہ مسلمانوں اور یادوؤں کا کوئی کام نہیں کریں گے۔ انہوں نے اس کی وضاحت بھی کی ہے کہ ان کے حلقے کے مسلمانوں اور یادوؤں نے انہیں ووٹ نہیں دیاہے۔ ظاہر ہے کہ دیویش چندرٹھاکر نے جو کچھ کہا ہے اور اس پر جنتا دل متحدہ کی طرف سے کوئی وضاحتی بیان نہیں آیا ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ ریاست میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا تو پہلے سے ہی موقف صاف ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی پارلیمانی انتخابی جلسوں میں مسلمانوں کے متعلق اپنا نظریہ پیش کر چکے ہیں لیکن جنتا دل متحدہ کے سپریمو نتیش کمار نے کبھی بھی اس طرح کا بیان نہیں دیا اور وہ صرف اور صرف اپنے کام گنا کر وو ٹ مانگتے رہے۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ خود دیویش چندر ٹھاکر پارلیمانی انتخاب لڑنے سے پہلے بہار قانون ساز کونسل کیلئے ترہت (مظفرپور) گریجویٹ حلقے سے انتخاب لڑتے رہے اور ایک سال پہلے جب کونسل کا انتخاب ہوا تھا تو اس وقت ریاست میں جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل کی اتحادی حکومت تھی۔ اس وقت نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو تھے اور انہوں نے بھی دیویش چندر ٹھاکر کی کامیابی کے لئے مہم چلائی تھی۔
بہر کیف! ان دنوں ریاست میں یہ ہوا گرم ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار جلد ہی اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں اور ہریانہ، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات کے ساتھ بہار میں بھی انتخاب کے خواہشمند ہیں۔ اگرچہ ریاست بہار کی کئی اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور راجیہ سبھا کی دو سیٹوں کے لئے بھی ضمنی انتخاب ہونا ہے۔ میرے خیال میں نتیش کمار کے حوالے سے جس طرح کی سیاسی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اس میں بہت زیادہ دم نہیں ہے۔ ویسے سیاست میں کب کیا ہو جائے یہ کہنا مشکل ہے بالخصوص نتیش کمار کی سیاست کو سمجھنا کسی معمہ سے کم نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جنتا دل متحدہ کا قومی اجلاس دہلی میں اسی ماہ کے آخری ہفتہ میں ہونے جا رہا ہے اس میں کون سا لائحہ عمل تیار ہو تا ہے اور پارلیمنٹ میں مودی حکومت کے اعتماد حاصل کرنے کے بعد سیاسی فضا میں کس طرح کی تبدیلی آتی ہے، اس کا انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن اس حقیقت سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ برسراقتدارپارٹی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اتحاد بھی اسمبلی انتخاب کی تیاری میں لگ گیا ہے بالخصوص راشٹریہ جنتا دل کے اتحادی کانگریس اوربایاں محاذ بھی حرکت میں ہیں اور اسمبلی انتخاب کے مدنظر اپنا لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں۔ دراصل بہار میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے یہ اعلان کیا ہے کہ اسمبلی انتخاب سے پہلے پانچ لاکھ سے زائد بیروزگاروں کو روزگار دیا جائے گا اور اس کیلئے مختلف محکموں کی طرف سے اسامیوں کے اعداد وشمار بھی ذرائع ابلاغ میں آنے لگے ہیں۔ وزیر اعلیٰ خود اس میں دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کی طرف سے یہ بیانات بھی جاری کئے جا رہے ہیں کہ پارلیمانی انتخاب میں انہوں نے جو روزگار کے متعلق وعدہ کیا تھا اسے جلد پورا کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ ایسا ماحول اس لئے بنایا جا رہا ہے کہ کبھی بھی اسمبلی انتخاب کااعلان ہو سکتا ہے۔