کہتے ہیںکہ شرنگا پٹنم کی خون آشام جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اپنے کتوں کا نام ٹیپو رکھنا شروع کیا تھا۔
EPAPER
Updated: June 07, 2023, 4:05 PM IST | Nadir | Mumbai
کہتے ہیںکہ شرنگا پٹنم کی خون آشام جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اپنے کتوں کا نام ٹیپو رکھنا شروع کیا تھا۔
کہتے ہیںکہ شرنگا پٹنم کی خون آشام جنگ میں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اپنے کتوں کا نام ٹیپو رکھنا شروع کیا تھا۔اس اوچھی حرکت سے وہ ٹیپو کی جانفشانی کے سبب ان کے دلوں پر قائم ہیبت اور سماج کے ذہن پر مرتب اثرات کو زائل کرنا چاہتے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی اس تعلق سے لکھتے ہیں ’’برصغیر کے کتے ۲؍ سو سال تک سلطان شہید کے نام سے پکارے جاتے رہے۔ کچھ برگزیدہ شہید ایسے ہوتے ہیں جن کی آزمائش، عقوبت مطہرہ اور شہادت عظمیٰ ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ رب جلیل انہیں شہادت جاریہ سے سرفراز فرماتا ہے۔‘‘
یوسفی کی اس بات پراب یقین ہونے لگا ہے کیونکہ جنگ آزادی میں جام شہادت نوش کرنے والے اولین اور سب سے روشن ناموں میں سے ایک ٹیپو سلطان اتنے سال بعد بھی جبر واستبداد پر یقین رکھنے والے طبقے کی لعن طعن کا شکار ہے۔ شاید طالب علموں کیلئے یہ بات حیران کن ہو کہ وہ جو جوانمردی کی علامت ہے، جس نے ثابت قدمی کی مثال قائم کی اور جس کی موت سے قبل کہی گئی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اسے یوں بدنام و مطعون کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ دراصل اسی سوال کے جواب میں ٹیپو کی بلکہ ہندوستان کی تاریخ پوشیدہ ہے۔ دراصل مغل حکومت کے زوال اور مہاراشٹر میں چھترپتی شیواجی کی وفات کے بعد ایک بار پھر ملک میں’ منو واد‘( اونچ نیچ اور ذات پات کا فلسفہ) نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ شودروں یا اچھوتوں پر وہی ظالمانہ قواعد نافذ کئے جانے لگے جو مغلوں کی آمد سے قبل نافذ تھے۔ جنوبی ہند کے ایک حصے میں دلت خواتین کو قمیص پہننے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر انہیں اپنا سینہ ڈھانکنا ہو تو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ ٹیکس کے نفاذ کا پیمانہ اتنا غلیظ تھا کہ اس کا ضبط تحریر میں لانا بھی جرم ہے۔ ٹیپو نے جب اقتدار سنبھالا تو اس نے دیگر حکمرانوں کی طرح کسی مصلحت یا پالیسی کو اپنے تخت کی پائیداری کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ’حق و باطل‘ کے اصول کے تحت جو اسے درست معلوم ہوا وہی کرتا گیا۔ اس نے فوراً اس شرمناک چلن کو ختم کر وا دیا جس کی وجہ سے کئی اعلیٰ ذات کے حکمراں اور نام نہاد مذہبی پیشوا سلطان کے دشمن ہو گئے۔ دلتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو اس نے سخت سزائیں دینی شروع کیں ۔
یہ وہ عوامل تھے جنہوں نے ٹیپو کے دربارکے اندر اور باہر ایسے عناصر پیدا کئے جو شرنگاپٹنم کی جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوئے۔ یہ بات انگریز خود جانتے تھے کہ ٹیپو سلطان کو کسی قیمت پر شکست دینا ان کے بس میں نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیپو کی ریاست کو تین طرف سے( انگریز؍ پیشوا؍ نظام کے ذریعے) گھیر کر اس پر حملہ کیا گیا جبکہ چوتھی سمت ٹیپو اپنے گھر میں موجود دشمنوں سے گھراان طاقتوں سے لڑ رہا تھا۔ یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہوگا کہ ٹیپو سلطان نے شرنگا پٹنم کی لڑائی اکیلے ہی لڑی تھی ۔ اس کے سارے اہم سردار تو انگریزوں کی طرف ہو گئے تھے۔ ٹیپو کو شکست ہوئی، اس نے موت کو گلے لگا لیا لیکن رہتی دنیا تک کیلئے اپنے پیچھے یہ فلسفہ چھوڑ گیا کہ ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی موت اچھی‘‘ ٹیپو شاید وہ واحد حکمراں ہے جس کا قول ہندوستان میں ضرب المثل کی طرح مشہور ہے جسے اسکولی بچوں سے لے کر سیاسی جغادریوں تک مقابلہ آرائی کے ہر مرحلے میں فخریہ استعمال کرتے ہیں۔
ہندوستانی تاریخ میں غالباً وہ تنہا حکمراں ہے جس کی موت میدان جنگ میں ، لڑتے ہوئے اور ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے ہوئی۔ وہی تلوار جس کا آج سارے عالم میں چرچہ ہے۔ تکنیکی طور شرنگا پٹنم کی لڑائی، جنگ آزادی کا ایک حصہ ہے لیکن اصل میں یہ نسل پرستی اور انصاف پسندی کے درمیان مقابلہ تھا جس میں نسل پرستوں کے اتحاد نے سازشوں کے دم پر بیرونی طاقت کے ہاتھوں ایک انصاف پسند حکمراں اور اس کی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔
عجیب اتفاق ہےکہ ایک بار پھر جبکہ نسل پرست طاقتیں اسی طرح اپنے طبقے کو برتر اور دیگر سماج کو غلام بنانے کی سازشوں پر عمل پیرا ہیں، ٹیپو سلطان دنیا بھر میں بحث کا موضوع ہے۔ شرنگا پٹنم میں ٹیپو کی موت کے بعد انگریزوں کے ذریعے ضبط کی گئی تلوار کو ۲۰۰۳ء میں ڈیڑھ کروڑ میں فروخت کیا گیا تھا جبکہ ۲۰۲۳ء میں اس کے ۱۰۰؍ گنا زیادہ دام لگائے گئے ہیں۔ حال ہی میں لندن کی ایک فرم نے اطلاع دی ہے کہ ٹیپوکی تلوار۱۴۳؍ کروڑ میں نیلا م کی گئی۔ یعنی ٹیپو کی جانبازی کی قیمت ہر دن بڑھ رہی ہے۔ شیر میسور کی حیثیت سے مشہور ٹیپو کی تلوار کے قبضے کا سرا شیر کےمنہ کی شکل میں تھا اور اس کے ہتھے پر خدائے پاک وبرتر کے ۵؍ نام (یا اللہ، یا فتاح یا ناصر، یا حامی، یا معین،) درج ہیں۔ یہ پانچوں نام خدا کے مددگار ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اس تلوار نے نیلامی کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ نوادر اشیا کی نیلامی میں اتنے دام کبھی کسی شے کے نہیں لگائے گئے یعنی اس وقت دنیا کی نوادرات میں ٹیپوسلطان کی تلوار سے قیمتی کوئی شے نہیں ہے۔ یہ خبر ایسے وقت میں آئی ہے جب زعفرانی منافرت کے علمبردار کرناٹک میں ٹیپو سلطان کا نام ونشان مٹانے کی قسمیں کھا رہے تھے۔ یوگی آتیہ ناتھ اس شہید کی آل اولاد کے رکشا چلانے ( ان کی حالت زار )پر خوشی منا رہے تھے۔ ادھر کرناٹک میں ان کی شکست کا اعلان ہوا اور ادھر نیلامی کی شکل میں ٹیپو کی سرخروئی کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔
تلوار کی قیمت بہت چھوٹا واقعہ ہے۔ اس سے بڑی بات اے پی جے عبدالکلام نے اپنی کتاب دی ونگس آف فائر میں لکھی ہے کہ جب وہ خلائی مشن سے متعلق عالمی ادارے ’ناسا‘ ( نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن) کے صدر دفتر پہنچے تو وہاں لابی میں انہوں نے دیکھا کہ ٹیپو سلطان کی بڑی سی تصویر لگی ہوئی ہے ، نیز ان کی کسی جنگ کی پینٹنگ دیوار پر بنی ہوئی ہے۔ عبدالکلام نے پوچھا ’’ یہ تو ہمارے ملک کے حکمراں تھے ان کی تصویر یہاں کیوں لگی ہوئی ہے؟‘‘ اس پر ہندوستان کے اب تک کے سب سے مقبول سائنسداں کو بتایا گیا کہ دنیا کا سب سے پہلا راکٹ ( یا راکٹ کا فارمولہ) ٹیپو سلطان نے ایجاد کیا تھا۔ وہ اپنی جنگوں میں ہاتھ سے بنائے ہوئے راکٹ داغا کرتے تھے جس سے انگریز پریشان تھے۔
ٹیپوسلطان کو دیکھنے کے تین نظریے ہیں، ایک وہ باطل اور تنگ دل نظریہ جو اپرکاسٹ کو سزا دینے پر ٹیپو کو ’پاپی‘ سمجھتا ہے، دوسرا عام ہندوستانی جو اسے جنگ آزادی کا ایک عظیم مجاہد گردانتا ہے ، جبکہ تیسرا عالمی طبقہ ہے جو ٹیپو سلطان کو ایک سائنٹفک سوچ اور ترقی پسند نظریات کا حامل حکمراں تصور کرتا ہے ۔ یہی وہ نظریات تو تھے جس نے ٹیپو کو دلتوں پر ہونے والے مظالم کو ختم کرنے اور ان کے خاطیوں کا قلع قمع کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ حکومت ، مشنری، اور شر پسندوںکی بھیڑکے زور پرٹیپو کو بدنام کرنے کی کوشش کے درمیان اس کی تلوار نے پھر ایک بارسلطان شہید کی سرخروئی اور باطل طاقتوں کی رو سیاہی کا اعلان کیا ہے ۔