Inquilab Logo

بیت بازی کے مقابلوں نے مجھے شاعری کی طرف راغب کیا

Updated: February 13, 2023, 3:34 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

نوجوان شاعر احسن عثمانی کے مطابق اسکول اور کالجوں کی ادبی سرگرمیاںطلبہ کی صلاحیتوں کے اظہار کا بہترین پلیٹ فارم ہوتی ہیں ۔ پیش ہے انٹر ویو سیریز کی آٹھویں قسط

Young poet Ahsan Usmani
نوجوان شاعر احسن عثمانی

ادب نما پرنئے سلسلے کے تحت ہم نوجوان ادباء و شعراء سے گفتگو اپنے قارئین تک پہنچارہے ہیں۔اس ہفتے نوجوان شاعر احسن عثمانی سے گفتگو ملاحظہ کریں۔ احسن عثمانی گزشتہ چند برس میں ابھرنے والے نوجوان ادیبوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نےشیوۂ پیمبری کو منتخب کیا ہے۔ وہ بہت تیزی کے ساتھ ممبئی کی ادبی کہکشاں میں اپنا مقام بنارہے ہیں۔ ان کی شاعری میں تازگی و شگفتگی کے ساتھ ساتھ ایک احتجاج بھی ہےجو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے۔ احسن عثمانی کی تاحال تو کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے لیکن بیت بازی کے شائقین کیلئے  ایک کتاب زیر طبع ہے جبکہ ان کا اپنا  مجموعۂ کلام بھی جمع و ترتیب کے مراحل میں ہے۔ اس کے علاوہ تنقید کے حوالے سے اردو شاعری  کے عروضی نظام پر بھی وہ ایک کتاب ترتیب دے رہے ہیں: پیش ہے ان سے گفتگو 
لکھنے کی شروعات کب سے ہوئی ؟
 میرے  لکھنے کا  آغاز ہشتم جماعت سے ہوا  ۔ یہ غالباً ۲۰۰۹ء کی بات ہے، میں انجمن اسلام کرلا میں زیر تعلیم تھا۔ کتابوں سے مجھے بچپن ہی سے لگاؤ تھا، گھر کا ماحول  بہت  مذہبی تھا، نہ ٹی وی نہ ریڈیو۔ میرے  لئے تفریح  اور جستجو کا سامان بس مطالعہ تھا اس  لئے دن رات مطالعے میں ہی مستغرق رہتا تھا۔ ان دنوں مجھے شاعری  پسند نہ تھی ، میں اسے کارِ زیاں سمجھتا تھالیکن کثرتِ مطالعہ کی وجہ سے میرا ذخیرۂ الفاظ  اور خیال آرائی کی صلاحیتیں بھی بڑھتی گئیں مگر باقاعدہ شعر گوئی کا سلسلہ ۲۰۱۴ء کے آس پاس  شروع ہوا۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا سے بھی کافی مدد ملی ۔  
  اگر شاعری پسند نہ تھی تو پھر شاعر کیسے بن گئے؟
  یہ حقیقت ہے کہ  اوائل عمری میں شاعری سے متنفر تھا لیکن  علامہ اقبال کی مقصدیت سے پر شاعری مجھے پسند تھی مگر مہاراشٹر کالج میں داخلے کے بعد آہستہ آہستہ  مجھے شاعری سے  انسیت ہوگئی۔ جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مضمون کی طوالت سے مجھے ویسے ہی ہول آتا تھا  اور کئی مرتبہ پڑھنے والوں کی عدم توجہی نے بھی حوصلہ پست کردیا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میرا میلانِ طبعی بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوئے۔ مجھے شاعر بنانے میں مہاراشٹر کالج کا بھی بڑا ہاتھ رہا۔ یہاں میرے شاعرانہ جوہر کھل کر سامنے آئے۔یہاں بیت بازی  کے مقابلوں  میں بڑی پذیرائی ملی جس نے شوق دو چند کردیا۔شاعری میں اپنی بات مزید  خوبصورتی اور لطافت  کے ساتھ کہی جاسکتی تھی اس  لئے لا شعوری پر یہی میرا وسیلۂ اظہار بنتی چلی گئی۔
کسی خیال کو شعر میں پیش کرنے کی آپ کی کوشش کیا ہوتی ہے؟
 شاعری میں نئے خیال کی کمی گزشتہ سو سالوں سے محسوس کی جارہی ہے  بہت سے واقعات اور محسوسات بیک وقت مختلف لوگوں پر ایک سے ہوتے ہیں اس  لئے کہیں توارد کہیں سرقہ کی الزام تراشیاں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔  خیر میرے  لئے مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدہ اور اپنا مطمحِ نظر ہونا  ضروری ہے۔ خیال جب واضح ہوتا ہے تو اپنے لوازمات خود چن لیتا ہے۔
 مطالعہ یا استاد؟ آپ کسے منتخب کریں گے؟
 اگر مجھ سے کسی ایک کو منتخب کرنے کو کہا جائے تو میں کتابوں کو ہی ترجیح دوں گا کیوں کہ میری تربیت میں کتابوں کا بہت دخل رہا ہے۔ کتابوں کی دنیا اپنے آپ میں ایک ورچوئل ورلڈ ہوتی ہے۔ مطالعے کے دوران ہم اس دنیا کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ میرے نزدیک اچھی کتاب ہونے کا آسان معیار یہی ہے کہ اسے زبردستی نہ پڑھنا پڑے۔ مطالعہ سے ہی  اپنا اسلوب اور طرزِ نگارش  قائم کرنے میں مدد ملتی ہے اس کے علاوہ قلم کار کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ رائٹرس بلاک کا شکار ہوجاتا ہے اس دوران مطالعہ ہمیں آسودگی پہنچاتا ہے اور اسی مطالعے کے نتیجے میں ہم اس بلاک سے باہر نکلتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیکھنے کے عمل میں بہت سے مراحل ہوتے ہیں  بہت ساری چیزیں کسی استاد یا رہبر کے بغیر نہیں سیکھی جاسکتیں اس کے علاوہ  بہت کچھ اہلِ علم کی صحبت اور محفلوں سے سیکھا جاتا ہے۔ 
 آپ کے آئیڈیل کون ہیں؟ 
 میں میرؔ و غالب کو اپنا آئیڈیل کہہ کر اپنا راستہ دشوار نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ وہ  فن کے درجۂ کمال پر فائز ہیں۔میں فیضؔ و فراقؔ کو بھی آئیڈیل تسلیم نہیں کرسکتا کہ ان سے مجھے زمانی  بعد ہے۔ میں  اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں سے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کیفیت میں متاثر رہا ہوں  وہ سب میرے لئے محترم ہیں۔ ممبئی کے گہوارۂ ادب میں ندا فاضلی،جاوید اختر، عبدالاحد ساز اور ارتضیٰ نشاط کو بھی دیکھا ا ور سنا ہے لیکن میرے آئیڈیل  ماہر عروض اور مشہور شاعر عبید اعظم اعظمی  ہیں۔ شعر گوئی  پر انہیں خصوصی ملکہ حاصل ہے نیز علم عروض پر ان جیسی گرفت بہت کم لوگوں کو نصیب ہے۔
بنیادی طور پر آپ کی شاعری کا مقصد کیا ہے؟
 میرے لکھنے کا مقصد بس میرا اظہارِ ذات ہے۔میرے ہونے کا اگر کچھ نشاں مل سکتا ہے تو وہ یہی  ہے۔ جس طرح انسان حیوانِ ناطق ہونے کی بنا پر ممتاز ہے ویسے ہی  میں لوگوں میں اپنے اہلِ قلم ہونے پر شرف محسوس کرتا ہوں کہ رب العزت نے مجھے  اتنے طاقتور وسیلۂ اظہار سے نوازا ہے۔
کیا آپ اپنی اب تک کی  شاعری  سے مطمئن ہیں؟ 
 جی نہیں، محض داد و دہش سے آگے نکل کر اگر ہم اردو شاعری کی روایت کو دیکھیں تو وہ اتنی ثروت مند ہے کہ نئی راہ نکالنا اور اہلِ ادب کی توجہ حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔اردو ادب کی عظیم شعری روایت کا میں جس قدر مطالعہ کرتا ہوں اس قدر احساسِ کمتری محسوس کرتا ہوں۔
ادب میں جونیئر اور سینئر کے  جھگڑے پر آپ کی رائے
  میرے حساب سے تو ادب میں جونیئر یا سینئر ہوتا ہی نہیں ہے۔  ادب کی ایک اچھی بات ہے یہاں حفظِ مراتب نہیں بلکہ ادب میں آپ  نے کیا کارہائے نمایاں انجام د ئیے ہیں وہ دیکھے جاتے ہیں۔ ہاں مشاعروں اور محفلوں میں کچھ  مسائل ہوتے ہیں جو سماجی نظام کا حصہ ہیں۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں ۔ گروہ بندیاں اورشاگرد نوازیاں بھی کوئی نئی بات نہیں ہے یہ سب تو ہوتا ہے لیکن آخر میں معیار ہی کو سند مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ میں اس  لئے کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔
 کیا آج کی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں  ادب کی ضرورت ہے؟ 
 میرے نزدیک ادب، مہذب اور تعلیم یافتہ  لوگوں کی  زندگی کا عکاس ہے لیکن  ادب  صرف مسرت انگیزی ہی نہیں بلکہ المناکی کا بھی بیانیہ ہے۔اچھا ادب پر آشوب حالات میں لکھا گیا۔ آج کی  اس بھاگ دوڑ بھری زندگی میں ادب کی ضرورت پہلے سے دو چند ہے۔ یہ کیمرے کا دور ہے لوگ فی الفور مناظر اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے دیکھتے ہیں، ہر شخص کلپ اور ویڈیو کے وبال میں  مبتلا ہے۔ ایسے میں ادب کی ضرورت بڑھ جاتی ہے تاکہ اس رفتار میں ٹھہرائو لایا جاسکے۔
  کیا متفق ہیں کہ عصری شاعری کا معیار کم ہو رہا ہے؟  
 جی ، لوگ جلد شہرت حاصل کرنے کے لئے معیار کا خیال نہیں رکھتے جبکہ تیز رفتار زندگی میں لوگوں کے پاس مطالعہ کا وقت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ  شاعری کے لحاظ سےمشاعرے اور کوی سمیلن کا بھائی چارہ مہلک ثابت ہوا ہے۔
 موجودہ حالات میں نوجوان ادیبوں کا کردار 
 نوجوان ادیبوں کو چا ہئے کہ اپنی تخلیقات کو محض لائک اور کمنٹ کے پیمانوں پر نہ تولیں بلکہ آپس میں ایک دوسرے کی تخلیقات پر صحت مند تنقیدی محفلیں منعقد کریں۔ اپنی زبان کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے  لئے دامے،درمے ،قدمے ، سخنے کوشش کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کی مدد سے معاشرے کی اصلاح اور فلاح کے  لئے بھی قلم اٹھائیں۔

Bait Bazi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK