اس کے اعمال سے وابستہ فرمایا ہے، ہر عمل پر اس کے مناسب ردّ عمل کا ظہور ہوتا ہے۔ بندوں کے جس قسم کے اعمال آسمان پر جائیں گے، اُنہی کے مطابق اُن کے حق میں آسمان سے فیصلے صادر ہوں گے۔
EPAPER
Updated: November 15, 2024, 4:41 PM IST | Mumbai
اس کے اعمال سے وابستہ فرمایا ہے، ہر عمل پر اس کے مناسب ردّ عمل کا ظہور ہوتا ہے۔ بندوں کے جس قسم کے اعمال آسمان پر جائیں گے، اُنہی کے مطابق اُن کے حق میں آسمان سے فیصلے صادر ہوں گے۔
حق تعالیٰ شانہٗ نے انسان کی سعادت وشقاوت کو اس کے اعمال سے وابستہ فرمایا ہے، ہر عمل پر اس کے مناسب ردّ عمل کا ظہور ہوتا ہے۔ بندوں کے جس قسم کے اعمال آسمان پر جائیں گے، اُنہی کے مطابق اُن کے حق میں آسمان سے فیصلے صادر ہوں گے۔ اعمالِ خیر پر خیر کے فیصلے آئیں گے اور اعمالِ شر پر دوسری نوعیت کے فیصلے ہوں گے۔ انفرادی اعمال پر افراد کے بارے میں شخصی فیصلے ہوں گے اور اجتماعی اعمال پر مجموعی طور پر قوم یا طبقہ کے بارے میں فیصلے ہوں گے۔ اعمال کے ثمرات و نتائج دنیا میں بھی رونما ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ہوں گے۔ اچھے اعمال پر جس طرح اُخروی سعادت مرتب ہوتی ہے، اسی طرح دنیا میں سعادت و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔ اور خراب اعمال پر آخرت کی شقاوت وخسران کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی عذاب کی شکلیں نمودار ہوتی ہیں۔ نیک وبد اعمال کے پورے نتائج کا ظہور تو آخرت میں ہوگا، کیونکہ کامل جزا و سزا کے لئے قیامت کا دن تجویز فرمایا گیا ہے، لیکن بطورِ نمونہ کچھ نتائج یا کم سے کم ان نتائج کی ہلکی سی جھلک دنیا میں بھی رونما ہوتی ہے، تاکہ معاملہ یکسر اُدھار پر نہ رہے، بلکہ کچھ تھوڑا سانقد بھی دے دیا جائے۔
ہمارے یہاں جزا وسزا کے تصور میں دو غلطیاں بہت عام ہوگئی ہیں، عوام وخواص تقریباً سبھی، الاماشاء اللہ! ان میں مبتلا نظر آتے ہیں :
پہلی غلطی: یہ ہے کہ اچھے بُرے اعمال کے نتائج قیامت میں ظاہر ہوں گے، اُسی وقت جزا و سزا بھی ہوگی۔ ہماری اس دنیوی زندگی کا نیک و بد اعمال کی جزا و سزا سے کوئی تعلق نہیں۔ اس زندگی میں نیک و بد اعمال پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا، نہ یہاں کسی کو اپنے کئے کی جزا یا سزا ملتی ہے۔
دوسری غلطی: یہ ہے کہ آخرت کی جزا وسزا پر اگرچہ ایمان ہے، لیکن خواہشات کے غلبہ وتسلُّط، غفلت آمیز ماحول کی تاریکی اور دنیوی لذات کی حلاوت و شیرینی نے آخرت کی جزا و سزا کے تصور کو بہت ہی دھندلا اور مضمحل کردیا ہے۔ اس کا استحضار ہی نہیں رہتا کہ جو اعمال ہم اپنے نامۂ عمل میں درج کرا رہے ہیں، قیامت کے دن اُن کے ایک ایک ذرّہ کا حساب بھی دینا ہوگا:
’’سو جو شخص (دنیا میں ) ذرہ برابر نیکی کرے گا، وہ (وہاں ) اس کو دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا، وہ اس کو دیکھ لے گا۔ ‘‘
(الزلزال:۷، ۸)
اور جن گناہوں کا بوجھ ہم آج لاد رہے ہیں، کل اُسے خود اپنے ناتواں شانے پر اٹھانا ہوگا:
’’اور وہ اپنی پیٹھوں پر اپنے (گناہوں کے) بوجھ لادے ہوئے ہوں گے، سن لو! وہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں۔ ‘‘(الانعام:۳۱)
ہمارے طرزِ زندگی سے ایسا لگتا ہے کہ آخرت کی جزا و سزا کا ہمارے دنیوی اعمال سے کوئی ربط وتعلق نہیں، آخرت کا معاملہ اس دنیا سے یکسر بے تعلق ہے، ہم خواہ کیسے ہی عمل کرتے رہیں، ہم سے کوئی باز پُرس نہیں ہوگی، اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہیں، خود ہی معاف فرمادیں گے۔ ظاہر ہے کہ غفلت کی یہ کیفیت ہماری کھلی حماقت ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے:
’’ہوشیار اور عقلمند تو وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو میں کرلیا اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے عمل کیااور احمق ہے وہ شخص جس نے نفس کو اس کی خواہشات کے پیچھے لگادیا اور اللہ تعالیٰ پر آرزوئیں دھریں۔ ‘‘(مشکوٰۃ، ص:۴۵۱)
الغرض ان دو غلطیوں میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہم اصلاحِ اعمال کی فکر سے بے نیاز ہیں۔ نہ اصلاحِ دنیا کے لئے اصلاحِ اعمال کی فکر ہے اور نہ اصلاحِ آخرت کے لئے۔
قرآن کریم کی آیاتِ بینات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ طیبہ میں اعمال کے دنیوی نتائج بہ کثرت مذکور ہیں، اس سلسلہ کی ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے۔ مؤطا امام مالکؒ ’’کتاب الجہاد باب ماجاء في الغلول‘‘ میں حضرت ابن عباس ؓ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے:
’’جس قوم میں خیانت عام ہوجاتی ہے، ا س کے دل میں رعب ڈال دیا جاتا ہے اور جس قوم میں زنا عام ہوجاتا ہے، ان میں اموات کثرت سے واقع ہونے لگتی ہیں، جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، اس کا رزق بند کردیا جاتا ہے، جو حق کے خلاف فیصلے کرتی ہے، اس میں خونریزی عام ہوجاتی ہے اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے، اس پر دشمن کا تسلُّط ہوجاتا ہے۔ ‘‘
اس حدیث میں جن پانچ گناہوں کے پانچ ہولناک نتائج ذکر کئے گئے ہیں، آج کا معاشرہ پوری طرح اُن کی لپیٹ میں ہے۔ ان پریشانیوں کے ازالہ کی بس ایک صورت یہ ہے کہ ہم اپنی بدعملیوں سے توبہ کریں اور اصلاحِ احوال کے لئے اصلاحِ اعمال کا راستہ اختیار کریں۔
حق تعالیٰ شانہ ‘ ہمارے حال پر رحم فرمائے، ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے اور اعمالِ صالحہ اختیار کرنے کی صورت میں جس ’’حیاۃِ طیبۃ‘‘ کا وعدہ فرمایاگیا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے۔