ساتویں صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مسلم طلبہ کی تعلیمی پیش رفتوں کو ٹھوس تعمیری رُخ پر گامزن کیا جائے۔ بہ الفاظ دیگر یہ طے کیا جائے کہ والدین اور اساتذہ طلبہ کو کن شعبوں سے وابستہ ہونے کی تلقین کریں گے۔
EPAPER
Updated: December 07, 2020, 11:49 AM IST
|
Editorial
ساتویں صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مسلم طلبہ کی تعلیمی پیش رفتوں کو ٹھوس تعمیری رُخ پر گامزن کیا جائے۔ بہ الفاظ دیگر یہ طے کیا جائے کہ والدین اور اساتذہ طلبہ کو کن شعبوں سے وابستہ ہونے کی تلقین کریں گے۔ ساتویں صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مسلم طلبہ کی تعلیمی پیش رفتوں کو ٹھوس تعمیری رُخ پر گامزن کیا جائے۔ بہ الفاظ دیگر یہ طے کیا جائے کہ والدین اور اساتذہ طلبہ کو کن شعبوں سے وابستہ ہونے کی تلقین کریں گے۔ ضرورت ایسے شعبوں میں جانے کی ہے جن کی کلیدی اہمیت ہے مثلاً سائنس، تکنالوجی، دفاع، آئی پی ایس، سوشل سروس اور متعدد دیگر بااثر سرکاری ملازمتیں۔ بلاشبہ اس جانب توجہ دی گئی ہے جس کا نتیجہ سول سروسیز کے تعلق سے بڑھنے والی بیداری اور کامیاب نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہے مگراس پر جتنا اصرار ہونا چاہئے اُتنا ہنوز نہیں ہے۔
آٹھویں صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ملت کے تمام فلاحی اداروں کا ایک کنفیڈریشن ہو جس کے ارباب اقتدار یہ طے کریں کہ فلاحی سرگرمیوں کا اجتماعی رُخ کب، کہاں اور کس طرح ہو۔ اس میں ملت کے افراد کا جابجا دکھائی دینا بھی اہم ہدف ہو، تاکہ وہ کبھی سیلاب زدگان کی مدد کرتے ہوئے دکھائی دیں، کبھی پریشان حالوں کی خبری گیری کرتے ہوئے ملیں، کبھی کسی پُرامن جمہوری تحریک کا حصہ بنتے ہوئے نظر آئیں اور کبھی عوام الناس کیلئے خیر کے کاموں کو مستحکم کرتے ہوئے پائے جائیں۔ یہ کام کسی نہ کسی سطح پر اب بھی ہوتا ہے مگر ضرورت ہے کہ اس کا نقش اتنا مؤثر ہوکہ اہم موقعوں پر حکام خود ملت کی تنظیموں کو آواز دیں کہ آئیے آپ کی مدد درکار ہے۔
نویں صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اُن ادارو ںکو اپنے سپورٹ سے خاص طور پر نوازا جائے جن کے ذریعہ برادران وطن فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور جن کی خدمات کو تسلیم کیا جارہا ہے یا سماج کا بڑا طبقہ ان کی خدمات سے واقف ہے اور ان کی قدر کرتا ہے۔ مثلاً دیہی علاقو ںمیں پانی کی فراہمی کا پروجیکٹ، نابینا افراد کی فلاح و بہبود کا پروجیکٹ، بے سہارا خواتین کو سہارا دینے والے اداروں کے پروجیکٹ، قیدیوں کی کاؤنسلنگ کے پروجیکٹ، معذوروں کی تربیت اور معاشی کفالت کیلئے جاری کئے گئے پروجیکٹ اور دیگر۔ یہاں اداروں کا نام لینے سے قصداً گریز کیا گیا ہے کیونکہ اُس صورت میں سب کے ساتھ انصاف ممکن نہیں ہوگا۔ ایسے اداروں کے عطیہ دہندگان کی فہرست میں وابستگان ملت کے نام خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ اس معمولی تناسب کو اگر غیر معمولی تناسب سے نہیں تو قابل ذکر تناسب سے بدلا جاسکتا ہے بالخصوص اس عام تصور کو تقویت بخشنے کیلئے کہ مسلمان کشادہ دل اور مخیر ہوتے ہیں۔ واضح رہنا چاہئے کہ شبیہ بگاڑنے کی منظم کوششوں کے باوجود ملت کے تعلق سے یہ تصور آج بھی عام ہے۔
دسویں صورت یہ ہوسکتی ہے کہ خود کو ایسی قوم کے طور پر منوایا جائے جو قانون کی بالادستی میں اس پر عمل کے ذریعہ یقین رکھتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ عملی کوششوں کے ذریعہ اپنی شبیہ کو درست کیا جائے تاکہ وہ وقت آئے جب لوگ کہیں کہ فلاں شخص مسلمان ہے جھوٹ نہیں بول سکتا، مسلمان ہے قانون نہیں توڑ سکتا، مسلمان ہے اس لئے اُس پر دھوکہ دہی کا الزام یقیناً غلط ہوگا، مسلمان ہے اس لئے بے ایمانی یا خیانت نہیں کرسکتا، ہم نے اسے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا۔
اس دس نکاتی لائحہ عمل کو ان سے زیادہ وقیع اور جامع نکات کے ذریعہ بدلا بھی جاسکتا ہے اور اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کو ۲۸؍ برس گزر گئے اور مسلمانوں کی حالت جوں کی توں بھی نہیں رہی بلکہ زیادہ خراب ہوئی ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ کوئی منشور یا ایجنڈا ایسا ہو جس پر ملت کا ایک ایک فرد عمل کرے اور ا سکی وجہ سے حوصلہ دینے اور اُمید بندھانے والی توانائی ملے