• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پہلے جیسی کامیابی نہ ملنے سے ’بھکت‘ ناخوش ہیں!

Updated: September 01, 2024, 11:11 AM IST | Mumbai

زیر نظرمضمون میں اُن عناصر کی سوشل میڈیا پوسٹس کا جائزہ لیا گیا ہے جو مودی بھکت کہلاتے ہیں۔ بے شمار پوسٹس کا جائزہ لینے کے بعد مضمون نگار نے اُن کے بارے میں اپنا تاثر ظاہر کیا ہے۔

Prime Minister   Narendra Modi
وزیر اعظم نریندر مودی

دائیں بازو کے وہ عناصر جو اکثر موضوع بحث بنتے ہیں، ایسے ’’انفلوئنسرس‘‘ ہیں جنہیں ہم عموماً ’’بھکت‘‘کے نام سے جانتےہیں۔ مَیں نے ان کی پوسٹس کا جائزہ لینے میں کافی وقت صرف کیا ۔ گزشتہ پورا ہفتہ مَیں نے یہی کیا اور سوشل میڈیا پر بھکتوں نے جو کچھ لکھا اور اس میں سے جتنا کچھ میسر آیا، مَیں نے یکسوئی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد مجھ پر جو تاثر قائم ہوا،وہ درج ذیل ہے:
 (۱) سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھکتوں کے ٹولے میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہیں بااثر کہا جائے۔ ان میں جو مشہور، مقبول یا پاپولر کہلاتے ہیں اُن کے ویورس ( پوسٹس دیکھنے، سننے اور پڑھنے والوں) کی تعداد رویش کمار اور دھرو راٹھی سے بدرجہا کم ہے۔ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ سوشل میڈیا پر فعال تمام بھکت حکومتی دعوؤں ہی کو دُہراتے ہیں۔ جب حکومتی دعوے بآسانی عوام تک پہنچ رہے ہوں تو بھکتوں کے ذریعہ وہی باتیں کون سنے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سارے بھکت ہمیشہ غصہ میں دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے اُنہیں وہی لوگ دیکھتے ہیں جو اُن جیسا ذہن رکھتے ہیں، عام لوگ ہمیشہ غصہ اور برہمی والی باتیں کیوں دیکھیں یا سنیں؟
 (۲) بھکتوں کے ٹولے کو اس بات کا غم ہے کہ ۴؍ جون کا نتیجہ اُن کے حساب سے خاطرخواہ کیوں نہیں آیا۔ کوئی دوسری پارٹی ہوتی تو اس کے حامی خوش ہوتے کہ اکثریت نہ ملنے کے باوجود حکومت برقرار رہی اور وزراء بھی وہی ہیں جو پہلے تھے مگر وہ خوش نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنے آقا کی ویسی ہی بالادستی چاہتے ہیں جیسی کہ پہلے تھی۔ اس سے ان میں جو ’’احساس ِ اقتدار‘‘ پیدا ہوا تھا وہ ۴؍ جون کو پاش پاش ہوگیا۔ بھکتوں کو یہ بھی غم ہے کہ ’’نیو انڈیا‘‘ کا جو شور و غلغلہ انہوں نے مچا رکھا تھا، وہ آن واحد میں ختم ہوگیا۔ 
 (۳) بھکتوں کو اب بھی ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو اکثریت کا نہ ملنا اس لئے ہے کہ اپوزیشن کی سوشل میڈیا ٹیموں نے بہت نقصان پہنچایا اور پارٹی کو ۲۴۰؍ پر سمیٹ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ خاص طور پر وہ جس پروپیگنڈہ کو بی جے پی کے حق میں نقصاندہ سمجھتے ہیں وہ ریزرویشن کے خاتمے اور آئین کی تبدیلی کے دعوؤں سے متعلق ہے۔ بھکت یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بی جے پی نے ریزرویشن اور آئین کی تبدیلی سے متعلق دعوؤں کا، جسے وہ فیک نیوز کہتے ہیں، بھرپور اور کرارا جواب دیا ہوتا تو پارلیمانی انتخابات کے نتائج کچھ اور ہوتے اور پارٹی کم از کم ۳۰۰؍ سیٹیں جیت لیتی۔
 یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ جو لوگ (بھکت) یہ باتیں سمجھ رہے ہیں یا کہہ رہے ہیں وہ خود ریزرویشن مخالف ہیں کیونکہ ان کا تعلق شہری علاقوں سے اور ذات پات کے اعتبار سے ان کی وابستگی اعلیٰ ذاتوں سے ہے۔ ان کی اول و آخر کوشش یہی ہوتی ہے کہ اعلیٰ ذاتوں کے مفادات کو ملحوظ رکھیں۔ ان کی پوسٹس کا جائزہ لینے سے ایسا نہیں لگتا کہ اُنہیں یہ احساس ہے کہ ان کا ریزرویشن کے خلاف برہم ہونا رائے دہندگان پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بھکتوں کا غصہ اُس شخص پر بھی ہے جسے امیت مالویہ کے نام سے شہرت حاصل ہے اور جو بی جے پی کے سوشل میڈیا کے ذمہ دار رہے ہیں۔ البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ امیت مالویہ سے کیوں ناراض ہیں۔ 
 (۴) بھکت اس بات پر بھی برہم ہیں کہ اُن کی پارٹی یعنی بی جے پی نے دیگر پارٹیوں کے لیڈروں اور سیاستدانوں کو اپنی صفوں میں شامل کیا بالخصوص مہاراشٹر میں۔ ہم بھی ان سے اتفاق کرینگے کہ اس سے بی جے پی کو نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ بھکتوں کا یہ احساس جتنا بدعنوانی مخالف جذبہ کی بنیاد پر ہے اُتنا ہی نظریاتی بنیاد پر بھی ہے۔ اس احساس کا تعلق بی جے پی کے سیکولرازم کی بات کرنے اور سب کو جوڑنے کی کوشش سے بھی ہے جو اُنہیں ناپسند ہے۔ اُنہیں الیکشن کے دوران جے پی نڈا کا یہ کہنا بھی پسند نہیں آیا کہ ہمیں آر ایس ایس کی پہلے جیسی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔ اس سے پہلے اُنہیں ’’سب کا ساتھ‘‘ کے نعرہ پر بھی اعتراض تھا جو پرانا ہونے کے باوجود برقرار ہا۔
 (۵) بھکتوں کو مودی حکومت کا بار بار یوٹرن لینا بھی اچھا نہیں لگا۔ وہ اس سیاسی نزاکت سے واقف نہیں ہیں کہ اپنی ہر بات منوا لینے کا دور ختم ہوگیا اور اب اگر وزیر اعظم کو اپنا منصب پچانا ہے تو اُنہیں حلیف پارٹیوں کی سننی پڑے گی۔ بھکتوں کو وقف بل اور لیٹرل انٹری معاملے پر حکومت کا طرز عمل بالکل پسند نہیں آیا۔
 (۶) بھکتوں کو لگتا ہے کہ ابھی جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ وقتی اور عارضی ہے اور حالات بدل جائینگے۔ فی الحال اُنہیں پارٹی کے فیصلوں سے تو ناراضگی ہے مگر اُن کی بہت سی باتیں پڑھنے اور سننے کے باوجود کہیں ایسا نہیں لگا کہ وہ نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوں۔ اُن کے نزدیک مہنگائی اور بے روزگاری کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ مودی کے طرز حکمرانی پر ناز کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر کڑھ رہے ہیں کہ رائے دہندگان نے مودی کو اکثریت نہیں دلائی، مودی کی گیارنٹی کا لحاظ نہیں کیا اور اُن کی کارکردگی کے مطابق ووٹ نہیں دیا۔ 
 (۷) بھکتوں کی ایک ’’خوبی‘‘ اُن کا لڑنے بھڑنے والا مزاج ہے۔ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کیلئے وہ کبھی اچھے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ اُنہیں عالمی حالات کا علم ہے نہ ہی وہ درمیانی راستہ پر یقین کرتے ہیں، مصلحت اور مصالحت سے بھی اُنہیں بیر ہے۔ 
 کافی وقت سوشل میڈیا کی پوسٹس کا جائزہ لینے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا کہ ان میں بے عقلی زیادہ ہے اور وہ اپنے قاری یا سامع کو کوئی ایسی چیز نہیں دیتے جو کارآمد ہو اور جس کی وجہ سے اُنہیں ایک سے زائد مرتبہ دیکھا اور سنا جائے۔ بہ الفاظ دیگر، مجھے بھکتوں کی رائے، اُن کے خیالات، اُن کے تاثرات وغیرہ جان کر شدید مایوسی ہوئی۔ اسی بنیاد پر مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ وزیر اعظم مودی کو کبھی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ جیسے جیسے وزیر اعظم ملی جلی سرکار کی راہ پر آگے بڑھتے جائینگے، ان کی مایوسی بھی بڑھتی جائیگی اور یہ اُن کا اثاثہ ثابت نہیں ہوسکتے۔ زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ وہ مودی کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنیں گے۔ وہ اُنہیں کچھ نیا نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اُن کی ایک ہی خواہش ہے کہ مودی ویسے ہی رہیں جیسے وہ ۲۰۱۴ء کے بعد تھے یا ۲۰۱۹ء کے بعد۔اُنہیں مودی کا وہی انداز پسند ہے جو دو مرتبہ پانچ سالہ دور میں سامنے آیا۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK