• Mon, 03 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

شہربھیونڈی: پا ورلوم نگری سے ای کامرس کا مرکز بننے کا سفر

Updated: February 03, 2025, 5:49 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Bhiwandi

حالیہ چند برسوں میںیہ شہر بڑی تبدیلیوں سے گزرا ہے ، اب یہ ایشیا کا سب سے بڑا ویئرہاؤس ہب بن چکا ہےجو معیشت وملازمت کے نئے دروازے کھولتا ہے

Bhiwandi has now become a hub of warehouses and this hub is not like this small city, but is the largest warehouse hub in the whole of Asia. Photo: INN
بھیونڈی اب گوداموں کا مرکز بن چکا ہےاوریہ مرکز اس چھوٹے شہر کی طرح نہیںہے بلکہ پورے ایشیا میں گوداموں کا سب سے بڑا مرکز (ویئرہاؤس ہب) ہے۔۔تصویر: آئی این این


کم وبیش ۱۰؍ لاکھ کی آبادی والےشہربھیونڈی کو ممبئی کا ’سیٹیلائٹ شہر‘ کہا جاتا ہے۔ یہ شہر ابھی ترقی یافتہ تو نہیں ہے لیکن یہاں مستقبل کے امکانات ومواقع موضوع بحث بن رہے ہیں۔ پاورلوم صنعت اس شہر کی وجہ شہرت رہی ہے لیکن اب صرف یہی صنعت اس شہر کی شناخت نہیں ہے۔ پاورم صنعت تو یہاں کی ’ گھریلو فیکٹری ‘ ہے۔ اس تعلق سے بھی شہرکے ترقیاتی پلان میں خصوصی زون بنانےکی تجویز ہےلیکن گزشتہ کچھ برسوں میں شہری حدود کی جو توسیع ہوئی ہے، ان میں کئی ایکڑکی خالی زمینوں پر بڑے بڑے گودام تعمیر کئے گئے ہیں۔ یہ گودام بڑی بڑی ملکی اورغیر ملکی کمپنیوں کے ہیں۔ یہ شہر اب گوداموں کا مرکز بن چکا ہےاوریہ مرکز اس چھوٹے شہر کی طرح نہیں ہے بلکہ پورے ایشیا میں گوداموں کا سب سے بڑا مرکز (ویئرہاؤس ہب) ہے۔ ان کمپنیوں میں امیزون اور فلپ کارٹ جیسی بین الاقوامی کمپنیاں بھی شامل ہیں جن کی مصنوعات کی سپلائی بھیونڈی کے گوداموں سےہوتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: محمدرفیع: ایک گلوکار کے دامن میں کیا کیا تھا جس میں سے دیگر گلوکاروں نے کچھ نہ کچھ چن لیا

 اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اب بھیونڈی ای کامرس کمپنیوں کا بھی مرکز ہےاور اس پاورلوم کے شہر کیلئے یہ ایک بہت بڑی اور اہم تبدیلی ہے۔ مختلف ذرائع سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق فلپ کارٹ اورامیزون جیسی کمپنیوں نے ہندوستان میں گوداموں کے مراکز میں سے ایک چوتھائی حصے پراپنے گودام قائم کئے ہیں۔ اس حصہ میں بھیونڈی کا بہت بڑا حصہ شامل ہے۔ بھیونڈی میں کشیلی رانال روڈ ، انجورپھاٹا سے مانکولی ، مانکولی سے دیوا اور دیوا سے کلیان بائے پاس اور واڈپے تک گوداموں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہے۔ ایک ا ندازے کے مطابق بھیونڈی اور اس کے اطراف میں کم وبیش ۲۵؍ ملین (۲؍ کروڑ ۵۰؍ لاکھ) مربع فٹ کی جگہ پرگودام بنائے گئے ہیں جو شہر کی معیشت کو ایک نیا رُخ دیتے ہوئےنظر آرہےہیں۔ یہ بھیونڈی کے پا ورلوم نگری سے ای کامرس کا مرکز بننے کا سفر ہے، شہر کے ایکسپورٹ امپورٹ کےمرکز ی مقام بننے کاسفر ہے، یہ ایک صنعت سے دوسری صنعت میں ڈھلنے ، ضم ہونے ، منتقل ہونے کا سفر ہے، ایک مکمل تغیر کاسفر ہے۔ 
 بھیونڈی ملک کی معاشی راجدھانی ممبئی سے محض ۵۰؍ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہےاور اہم بات یہ ہےکہ اسے ممبئی میٹروپولیٹن ریجن سے جوڑنے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ یہاں میٹروریل نیٹ کاجال بچھایا جارہا ہے اور توقع ہےکہ شہر میں ۲؍ سال کے عرصے میں میٹروٹرین چلنےلگے گی۔ یہ میٹرولائن ۵؍ ہے جس کے ذریعے تھانے بھیونڈی اور کلیان کو جوڑاجارہا ہے۔ 
  ان ویئر ہاؤسیز سے شہر میں ملازمت کو ایک نیا رجحان ملا ہے۔ یہاں امیزون ، فلپ کارٹ ، نائیکا ، پیپرفرائے ، گروفرس اور بگ باسکٹ جیسی عالمی کمپنیوں کے گودام ہیں جن میں سیکڑوں ملازمین برسر روزگار ہیں۔ اس کے علاوہ بی ایل آر لاجسٹک ، اسکوائر فٹ سولوشنز ، باکس اسپیس سولوشنز، وِنس انڈیا لاجسٹک ، ساکشی لاجسٹک ، کے ڈی لاجسٹک ، واراداشے انٹرپرائزیز اورنہ جانے کتنے نام ہیں۔ ان میں تھرڈ پارٹی لاجسٹک فرم بھی شامل ہیں جن میں کوریئر خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں ڈی ایچ ایل ، بلیو ڈارٹ ، ڈی ٹی ڈی سی ، ڈیلہیوری اور سیف ایکسپریس کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کمپنیوں میں ملازمتیں اور اسامیوں کے اشتہار مقامی سطح جاری کئے جاتے ہیں۔ کچھ وہاٹس ایپ گروپ میں بھی اشتہارات فارورڈ کئے جاتے ہیں اور ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ قابل ذکر ہےکہ ایسی کمپنیوں میں پانچویں سے دسویں پاس تک کے نوجوانوں کو بھی ملازمت دی جاتی ہے۔ 
 دیکھا جارہا کہ شہر میں نوجوان اپنے آبائی پیشے پاورلوم سے جڑنے کی بجائے ان کمپنیوں میں ملازمت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ سیکڑوں نوجوان کسی نہ کسی طرح سے ان کمپنیوں سے جڑے ہیں۔ دسویں اور بارہویں کامیاب لڑکےبھی ایسی ملازمتوں کی طرف تیزی سے راغب ہورہے ہیں۔ ایسے لڑکوں کو زیادہ تر پکنگ اور پیکنگ اور ڈیٹا انٹری وغیرہ کے جاب مل جاتے ہیں۔ ان کمپنیوں میں شہر کے نوجوانوں کو خصوصی سہولیات بھی ملتی ہیں اورانہیں ٹراویل میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: بھیونڈی کے اُردو اسکول میں مراٹھی تقریری مقابلے کی ۵۱؍ سالہ منفرد روایت

 ایک جانب جہاں شہر واطراف کی خالی زمینیں گوداموں کیلئے استعمال ہوئی ہیں وہیں دوسری جانب شہر کے کنارے پر واقع علاقوں مانسرور، ملت نگر، کھنڈوپاڑہ اور اوچت پاڑہ میں ڈیولپمنٹ کے کام انتہائی تیزی سے ہورہے ہیں۔ ونجار پٹی سے لے کرچاوندرا تک کے علاقے کی تصویر بدل چکی ہے۔ جہاں کبھی جنگلات ہوا کرتے تھے وہاں اب عمارتوں کا پورا جال پھیلا ہوا ہے۔ ان علاقوں کو پاش سمجھا جاتا ہےبالخصوص ملت نگر اور مانسرور کو۔ ان علاقوں میں پرانی بھیونڈی کے علاقوں کے مقابلے ایف ایس آئی بھی زیادہ ہے اور ۷؍ منزلے سے زیادہ عمارتیں بنانے کی اجازت بھی یہاں بہ آسانی مل جاتی ہے۔ 
 یہ شہر نہایت تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے۔ بھیونڈی کو ۲۰۰۱ء میں کا رپوریشن کا درجہ دیاگیا تھاجس کے بعدمہا نگر پالیکا نے ۲۰۰۳ء میں پہلا ڈیولپمنٹ پلان جاری کیا تھا۔ اس کے مطابق اب شہر میں ڈیولپمنٹ پروجیکٹ اور ترقیاتی کام بڑے پیمانے پراورتیزی سے جاری ہیں۔ شہر کی سڑکوں کو کنکریٹ کا بنانے کا کام بھی جاری ہے۔ شہرسے گزرنے والی ممبئی ناسک شاہراہ کی توسیع کاکام بھی شباب پر ہے۔ اس کے علاوہ میٹروشروع ہوجانے کے بعدشہر کی کنکٹی ویٹی کو کافی رفتار مل جائے گی۔ شہری یہاں میٹروشروع ہونے کا بے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔ 
 اس کے علاوہ شہر کو لوکل ٹرین سے جوڑنے کی بھی کوشش ہورہی ہےلیکن یہ ذرا مشکل ہے۔ میٹروشروع ہونے کے بعدلوکل ٹرین نیٹ ورک کی ضرورت اتنی نہ رہے لیکن فی الوقت جو روٹ ہے وہ سینٹرل ریلوے پر کوپر ریلوے اسٹیشن سے جڑا ہوا ہے اور اب اس روٹ پر عوامی آمدورفت میں اضافہ ہوا ہے۔ بہر حال میٹروکے آغاز کے بعدیہ ذریعہ آمدورفت کافی بہتر ثابت ہوگا۔ 
 اس دوران ایک اور تبدیلی مشاہدہ میں آئی ہے۔ اس کا تعلق فوڈ ڈیلیوری ایپ سے ہے۔ زومیٹو اورسویگی جس طرح ممبئی و مضافات میں معروف ہیں اور سیکڑوں نوجوانوں کے روزگار کاذریعہ ہیں ، اسی طرح بھیونڈی کیلئے خاص ’ جیڈلو‘ اور’ کرس فوڈ‘ ایپ سے۱۰؍ ویں ، ۱۲؍ ویں اور یہاں تک کہ گریجویٹ نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد وابستہ ہے۔ یعنی شہر میں ڈیلیوری بوائز کی ملازمت کارجحان بڑھ رہا ہے۔ اس میں روزانہ کی بنیاد پر کمائی ہے اور شہری حدود میں ہی کام کرنا ہے جس کی طرف نوجوان تیزی سے راغب ہورہے ہیں۔ 
 یہ شہر کی تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کاایک مختصر منظرنامہ ہے جوبالکل واضح ہےاور قابل قبول بھی۔ بہر حال ایک چیزجو مسئلہ بن کے سامنے آرہی ہے وہ پاورلوم انڈسٹری کا بحران اورپرانے شہر میں جاری ترقیاتی پروجیکٹ ہیں۔ شہر کو اگر ویئرہاؤسیز کا ہب بنایا جارہا ہے تو یہ بھی ضروری ہےکہ شہر اندرونی طورپر بھی انفراسٹرکچر کے لحاظ سے مضبوط ہو۔ شہر کے پرانے علاقوں میں ’اسپیس ‘کاکافی مسئلہ ہے۔ جو ترقیاتی کام ہورہے ہیں وہ پہلے سے موجود ’اسپیس ‘ میں ہی ہورہے ہیں۔ شہری اسے نا گزیر تبدیلی کے طورپر قبول تو کررہے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں انہیں اس بات کا قلق بھی ہے کہ ترقیاتی پروجیکٹوں کے سبب وہ اپنی بنیادوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے پاس جوجگہ ہے وہ بہت محدود ہوچکی ہے۔  
  ان حالات میں دوباتیں اہم ہیں۔ ایک پاورلوم انڈسٹری کا تحفظ اوردوسرے پرانے شہرکی بقا۔ شہر کی بنیادی صنعت کو اگر ان کمپنیوں کے کاروبار سے مربوط کیاجائےاورکچھ ایسا نظم کیاجائےجس سے شہر کی کپڑا صنعت کو ان کمپنیوں کے کاروبار سے جوڑ کرنئے کاروباری مواقع پیدا کئے جاسکیں تواس سے بہتر نتائج کابرآمد ہونا یقینی ہے۔ 
 شہر کے اطراف میں نئے پروجیکٹوں کے درمیان پرانے شہر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پرانے علاقوں میں ’اسپیس‘ کی کمی ڈیولپمنٹ میں رکاوٹ ہے تو ان علاقوں کو منظم اور خوبصورت بنانے کے متبادل پر توجہ دی جائے۔ یہ ڈیولپمنٹ سے زیادہ آسان کام ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK