• Fri, 07 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بھیونڈی کبھی تالابوں کا شہر بھی کہلاتا تھا

Updated: February 07, 2025, 4:05 PM IST | Khalid Abdul Qayyum Ansari | Bhiwandi

دہائیوں قبل اس صنعتی شہر میں تقریباً ۸؍سے۱۰؍ چھوٹے بڑے تالاب موجود تھے جن میں سے بعض آج بھی قائم ہیں، جبکہ کچھ کو پاٹ کر عمارتیں، اسکول، کھیل کے میدان اور دیگر مراکز بنا دیے گئے ہیں،بیشتر تالاب سرکاری دستاویزات میں آج بھی موجود ہیں۔

Nasrullah Pond located near Dargah Dewan Shah which was built in 1171 AD. Photo: INN
درگاہ دیوان شاہ کے قریب واقع نصر اللہ تالاب جسے۱۱۷۱ء میں تعمیر کیا گیاتھا۔ تصویر: آئی این این

صنعتی شہر، جو کبھی تالابوں کی دولت سے مالا مال تھا، ماضی میں ’’تالابوں کا شہر‘‘ کہلاتا تھا۔ یہاں تقریباً ۸؍سے۱۰؍ چھوٹے بڑے تالاب موجود تھے، جن میں سے بعض آج بھی قائم ہیں، جبکہ کچھ کو پاٹ کر عمارتیں، اسکول، کھیل کے میدان اور دیگر مراکز بنا دیے گئے ہیں۔ تاہم بیشتر تالاب سرکاری دستاویزات میں آج بھی موجود ہیں اور شہری پوسٹل ایڈریس میں ان کے نام استعمال کرکے اسے زندہ رکھنے میں اہم کردار کررہے ہیں۔یہ تالاب محض پانی کے ذخائر نہیں تھے، بلکہ یہ شہر کی تہذیب، ثقافت، اور تاریخ کا حصہ تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، ان کی جگہ عمارتوں اور دیگر منصوبوں نے لے لی، مگر آج بھی ان کے نشانات شہریوں کی یادوں میں زندہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتظامیہ ان باقی ماندہ تالابوں کی حفاظت کرے اور انہیں جدید شہری ضروریات کے مطابق بحال کرے، تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان تاریخی خزانوں سے مستفید ہو سکیں۔
ورلا تالاب: شہر کے قدیم ترین آبی ذخائر میں سے ایک
 ورلا تالاب شہر کے شمالی علاقے کا مت گھر میں واقع ہے اور تقریباً۱۰۰؍ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی عمر ۳۰۰؍ برس سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ تالاب آج بھی پرانی بھیونڈی میں روزانہ ۲؍ ایم ایل ڈی پانی فراہم کرتا ہے ۔ اگر انتظامیہ سنجیدگی سے اقدامات کرے تو اسے تفریحی مقام میں تبدیل کر کے شہریوں کو ایک بہتر سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔
 تاریخی حوالوں کے مطابق، مشہور محقق انور کھوت نے اپنی کتاب گزشتہ بھیونڈی میں ذکر کیا ہے کہ مراٹھا فوجیں انجور دیوا اور کلوا کھاڑی کے راستے بھیونڈی آتی تھیں ۔۱۷۴۰ء میں پیشواؤں کے ایک سپہ سالار ناچماـجی اپانے ورلا تالاب کے قریب قیام کیا اور اس کی توسیع کے ساتھ ایک مضبوط بند تعمیر کروایا، جس سے تالاب سال بھر پانی سے بھرا رہنے لگا۔ بعد میں، انگریزوں نے۱۹۶۲ء میں بھیونڈی نظامپور میونسپل کونسل قائم کی، جس کے تحت ورلا تالاب کی تعمیر نو کی گئی۔ فنڈنگ کے لئے مخیر حضرات سے اپیل کی گئی، جس پر مرحوم باقر فقیہہ   نے سب سے بڑی رقم ۱۰؍ ہزار روپے عطیہ کیے تھے۔ساتھ ہی وعدہ بھی لیا کہ مسجد و مندر کے لیے پانی کا ایک کنکشن مفت دیاجائے ۔ یہ روایت آج بھی قائم ہے۔‘
نصر اللہ تالاب: تاریخی ورثہ جو زوال کا شکار ہے
 درگاہ دیوان شاہ کے قریب واقع نصر اللہ تالاب۱۱۷۱ء میں درگاہ کے پہلے سجادہ نشین، سید قطب الدین پیر زادہ نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ تالاب عرس اور میلے میں آنے والے زائرین کے استعمال میں آتا تھا۔ اس کے اطراف پختہ دیواریں تھیں، جبکہ باغ کو پانی فراہم کرنے کے لیے رہٹ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ پتھر کی بنی سیڑھیاں تالاب میں اترنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ ماضی میں گرمیوں کے دوران جب پانی کی قلت ہوتی، تو یہاں سے دور دراز علاقوں تک پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ تاریخی تالاب زوال پذیر ہو چکا ہے، اور بڑھتی ہوئی آبادی نے اس کے رقبے کو محدود کر دیا ہے۔
دھوبی تالاب: ماضی کا ایک مصروف مرکز
 غوری پاڑہ علاقے میں واقع دھوبی تالاب ایک وسیع آبی ذخیرہ تھا، جہاں دھوبی حضرات کپڑوں کی دھلائی کیا کرتے تھے۔ شہر کے دیگر شہری بھی یہاں کپڑے دھونے آتے تھے، جبکہ یہ تالاب مچھلیوں کے کاروبار کے لیے بھی مشہور تھا۔ صبح سویرے یہاں تازہ مچھلیوں کی خریداری کے لیے لوگوں کا ہجوم لگا رہتا تھا۔ تاہم، بعد میں اس تالاب کو پاٹ کر ایک شاندار اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا، جس کا افتتاح۱۹۹۶ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ منوہر جوشی نے کیا۔ مگر بدقسمتی سے، یہ اثاثہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اپنی اصل افادیت کھو چکا ہے اور اب کھیل کود کی بجائے میلے، فیسٹیول اور سیاسی جلسوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔جس کے باعث وہ کسی کھنڈر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ 
نارلی تالاب: ایک آبی گزرگاہ سے اسکول تک
 بندر محلہ میں کھاڑی سے منسلک یہ قدیم تالاب ناریل کے درختوں کے جھنڈ کے باعث ``نارلی تالاب`` کہلایا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہاں کشتیاں لنگر انداز ہوتی تھیں اور یہ راستہ ویرار اور نالا سوپارہ تک جاتا تھا۔۱۹۶۵ئء میں میونسپلٹی نے تالاب کو پاٹ کر اس پر ایک اسکول تعمیر کیا، جو آج بھی ``نارلی تالاب اسکول`` کے نام سے مشہور ہے۔
نظام پورہ تالاب :تعلیم کی ضرورت اور تالاب کا خاتمہ
 نظامپورہ کے علاقے میں چاند تارا مسجد کے عقب میں ایک قدیم تالاب موجود تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق، یہ تالاب خاص طور پر دودھ کے کاروبار سے وابستہ تاجروں کے لیے نہایت اہم تھا، جو اپنی بھینسوں کو یہاں نہلایا کرتے تھے۔ یہ تالاب نہ صرف جانوروں کی دیکھ بھال بلکہ پانی کے دیگر ضروریات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ، بڑھتی ہوئی آبادی اور تعلیمی سہولتوں کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے، بلدیہ نے اس تالاب کو مٹی سے پاٹ کر یہاں ایک پرائمری اسکول تعمیر کیا۔ یہ اسکول ``پیلی اسکول`` کے نام سے معروف ہوا اور کئی نسلوں تک تعلیم کا مرکز رہا۔کئی برسوں تک یہ اسکول تعلیمی سرگرمیوں سے آباد رہا، مگر مناسب دیکھ بھال کی کمی کے باعث عمارت بتدریج مخدوش ہو گئی۔ آخر کار، حفاظتی خدشات کے پیش نظر بلدیہ نے اسکول کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہ عمارت ایک ویران اور بے رنگ یادگار بن کر رہ گئی ہے، جبکہ کبھی یہاں بچوں کی ہنسی گونجا کرتی تھی۔
ماروتی تالاب: شہر کے وسط میں ایک کھویا ہوا خزانہ
 بازار پیٹھ کے وسط میں کبھی ماروتی تالاب ہوا کرتا تھا، جس کے کنارے ہنومان جی کا ایک مندر موجود تھا۔ تالاب کی تمام چار دیواری سیڑھیوں سے بنی ہوئی تھی اور شہری اس سے مختلف ضروریات کیلئے استفادہ کرتے تھے ۔ ۱۹۹۶ء میں اسے پاٹ کر تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے شہر کا پہلا آڈیٹوریم تعمیر کیا گیا، مگر عدم توجہی کے باعث وہ خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔جس کی مرمت جاری ہے۔
کھوٹالہ تالاب: تاریخ کے دھندلکوں میں گم ایک نشانی
 زیتون پورہ منگل بازار سلیب کے قریب ایک قدیم تالاب تھا، جس کے کنارے ایک مسجد تھی جسے آج بھی ’کھوٹالہ تالاب مسجد‘ کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تالاب عادل شاہی اور نظام شاہی دور میں کسی کوتوال نے عوامی سہولت کے لیے بنوایا تھا، مگر اب اس کا کوئی نشان باقی نہیں ہے۔
دیگر تالابوں کا احوال
کاپ تالاب: رامیشور مندر کے قریب کاپ کنیری علاقے میں واقع تھا، جہاں ایک دھوبی گھاٹ بھی تھا۔ اس کا کچھ حصہ اب بھی موجود ہے۔
کھاکھرا تالاب: شکر شاہ مسجد کے پیچھے تھا،۔جس کا اب صرف نشان موجود ہے۔شکر شاہ مسجد،کرگہ مسجد اور ہندوستانی مسجد کی تعمیر اسی تالاب کے کنارے ہوئی،جو آج بھی موجود ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK