بیشتر افراد زندگی کے مسائل سے دور خالص قدرتی نظاروں سے بھر پور مقامات میں آسودگی تلاش کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی معمولی سے غلطی اور بے احتیاطی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
EPAPER
Updated: July 10, 2024, 3:02 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
بیشتر افراد زندگی کے مسائل سے دور خالص قدرتی نظاروں سے بھر پور مقامات میں آسودگی تلاش کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی معمولی سے غلطی اور بے احتیاطی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔
بیشتر افراد زندگی کے مسائل سے دور خالص قدرتی نظاروں سے بھر پور مقامات میں آسودگی تلاش کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی معمولی سے غلطی اور بے احتیاطی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ لوناولہ کے بھوشی ڈیم میں پونے کی انصاری اور سید گھرانے کے ۵؍ افراد ڈوب گئے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر سیاح ناکافی جانکاری، راستوں سے نا واقفیت اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرنے کے باعث نہ صرف خود بلکہ اپنے خاندانوں کیلئے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مراٹھی اخبارات نے بھوشی ڈیم سانحہ پرکیا کچھ لکھا ہے؟
مہاراشٹر ٹائمز(۲؍جولائی)
اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ حکومت، ریلوے انتظامیہ اور طبی خدمات سے وابستہ اداروں کو انسانی جانوں کی قدر نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح اپنی جان گنوا دیتے ہیں تاہم کیا ہر سال مانسون کے دوران ہندوستانی شہری ایک دوسرے یا اپنی جان کی پروا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ لوناولہ، ممبئی، پونے سمیت دیگر مقامات کے سیاحوں کیلئے پسندیدہ جگہ ہے، لیکن ہر سال یہاں لوگوں کے اژدہام کی وجہ سے کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے۔ اس کیلئے پولیس کو ہلکا لاٹھی چارج کرنا پڑتا ہے تو کبھی گھنٹوں ٹریفک جام لگا رہتا ہے۔ یہ ہرسال مختلف مسائل کا سامنا کرنے کے باوجود جیسے ہی پہلی بارش میں آبشاروں سے پانی گرنے کی شروعات ہوتی ہے یہاں ہزاروں افراد کا ہجوم اکٹھا ہوجاتا ہےمگر وہ اپنا خیال نہیں رکھ پاتے ہیں۔ انہیں پانی کا صحیح اندازہ اور جغرافیائی معلومات نہیں ہوتی ہے۔ انصاری اور سید گھرانے کے ۵؍ افراد کا بھوشی ڈیم میں غرق ہونا انتہائی دلخراش واقعہ ہے۔ یہ صرف لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ اسی دن تامہینی گھاٹ پر ایک نوجوان نے گہرے پانی میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ جم گروپ کے ساتھ پکنک پر جانے والے نوجوان نے پانی کا اندازہ نہیں لگایا اور چھلانگ مار دی۔ پانی کے بہاؤ کا صحیح اندازہ کئے بغیر چھلانگ لگانا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اگر ہمیں اتنی سیدھی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آئے تو کتنے بھی حفاظتی اقدامات کئے جائیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ لوناولا کے بھوشی ڈیم میں سیاحوں کی زبردست بھیڑ کی وجہ سے انصاری خاندان اور آگرہ سے شادی کیلئے آئے ہوئے مہمان مخالف سمت سے آبشار پر پہنچے۔ چونکہ یہ آبشار سال کے بارہ مہینے نہیں بہتا ہے لیکن معمولی بارش سے بہت جلد لبریز ہوجاتا ہے اور دوبارہ پانی کا زور کم ہوجاتا ہے۔ اس جانب انتظامیہ نے انتباہ کا سائن بورڈ بھی نصب کیا ہے جس میں ہدایت دی گئی ہے کہ پانی میں نہ جائیں لیکن لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ نے محض خانہ پری کیلئے بورڈ نصب کیا ہے اور وہ خطرے کی پروا کئے بغیر ایسا مقامات پر جانے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم معمولی سمجھ رکھنے والے شہری بھی نہیں ہیں۔ پونے سے آئے اس خاندان کے ساتھ چار سال کے ایک لڑکے سمیت دیگر بچے بھی تھے۔ چھوٹے بچوں کی جان کو خطرے میں ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے؟‘‘
سکال(یکم جولائی)
اخبارنے اداریہ لکھا ہے کہ ’’سیر و تفریح خوشی کو دوبالا کرتی ہے۔ سیاحت سے انسان مختلف تجربات حاصل کرتا ہے۔ تاہم اس کیلئے اگر انسان نے نظم و ضبط کی پروا نہیں کی تو بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ جون میں وقفے وقفے سے ہونے والی بارش سے آبشار بہنے لگے ہیں۔ ڈیم کی سطح آب میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس درمیان اتوار کو لوناولہ میں واقع بھوشی ڈریم میں سیر و تفریح کیلئے گئی پونے کی ایک فیملی کے پانچ افراد تیز پانی میں بہہ گئے۔ اس سانحہ کا ویڈیو جس نے بھی دیکھا اس کی روح یقیناً کانپ گئی ہوگی۔ دوسرے ہی دن خبر آئی کہ تامہینی کے ایک آبشار میں تیراکی کرنے والے نوجوان کی موت واقع ہوگئی۔ ان سانحات سے ہم کوئی سبق حاصل نہیں کرتے بلکہ جان کی بازی لگا نے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں شارٹ ویڈیوز اور ریلس بنانے کے جنون میں مبتلا ہوکر آفت کو دعوت دے رہے ہیں۔ کچھ روز قبل اورنگ آباد کی ایک دوشیزہ کی موت بھی ایسی ہی حالت میں ہوئی تھی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں انسان کتنا غیر ذمہ دار ہوتا جارہا ہے۔ بھوشی ڈیم کا سانحہ غیر معمولی نوعیت کا نہیں ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے واقعات میں جانے والی جانوں کی وجہ سے سیر و تفریح کے مزے زندگی بھر کے زخم بن جاتے ہیں۔ قدرتی مقامات پر جانے کے بعد ہمیں کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئے؟ کس بات کا خیال رکھنا چاہئے؟ اور کب قدرت کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہئے؟ان سب کا پاس رکھنا بے حد ضروری ہے۔ پہاڑی قلعوں، چوٹیوں، سمندری کناروں اور محفوظ پناہ گاہوں پر احتیاطی تدابیر کے بورڈ نصب کئے جاتے ہیں لیکن جہاں ہجوم زیادہ ہوتا ہے وہاں نفری قوت بھی کم پڑ جاتی ہے۔ بھوشی ڈیم سانحہ کے دوران بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملا جب رشتہ داروں کی موجودگی بھی ۵؍ افراد کو ڈوبنے سے بچا نہیں سکی۔ ‘‘
ایک مت (۳؍ جولائی )
اخبار لکھتا ہے کہ’’مانسون کے آغاز کے ساتھ کسانوں کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ ندی، نالے، نہریں اور دریا کی سطح آب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے پانی کی دھار کسی شرارتی بچے کی طرح مچلنے لگی ہے۔ قدرت کے ان حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے کیلئے سیاح آبشاروں اور جھرنوں کا رخ کرتے ہیں۔ سنیچر اور اتوار کو ہزاروں سیاح جھرنے کا مزہ لوٹنے کیلئے پونے کے بھوشی ڈیم پہنچتے ہیں۔ تاہم کبھی کبھی سیاحوں کو موج مستی کچھ زیادہ ہی مہنگی پڑتی ہے۔ انصاری اور سید فیملی کے ۱۰؍ لوگ بھوشی ڈیم سے کچھ فاصلے پر پانی کے تیز بہاؤ میں پھنس گئے جن میں سے ۵؍ افراد کی بدقسمتی سے موت واقع ہو گئی۔ بھوشی ڈیم کے نشیبی علاقے میں شدید بارش کی وجہ سے ہر سال پانی کی رفتار میں اچانک اضافہ ہوجاتا ہے۔ اکثر سیاحوں کو اس بات کا قطعی علم نہیں ہوپاتا ہے اور وہ پانی کے دھارے میں پھنس جاتے ہیں۔ انصاری گھرانے کے۱۰؍ افراد کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا۔ صاف نظر آرہا ہے کہ کنارے پر کھڑے بیشتر افراد پانی کے درمیان پھنسے لوگوں کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔ ‘‘