• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہار میں اسمبلی انتخاب کی سرگرمیاں اور اقلیت!

Updated: August 22, 2024, 12:10 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

قومی جمہوری اتحاد نے یہ اعلان کیا ہے کہ نتیش کمار کی قیادت میں ہی آئندہ اسمبلی انتخاب ہوگا لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی تنظیمی عہدیداروں کے درمیان کافی رسہ کشی ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

بہار میں اسمبلی انتخاب آئندہ سال ہونا ہے لیکن پارلیمانی انتخابات کے بعد سے ہی سیاسی حلقے میں یہ چہ می گوئیاں ہیں کہ بہار میں بھی اس سال چار ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی انتخاب ہونے کے قوی امکان ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنی تنظیموں کو فعال کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی خواہش ہے کہ اس وقت بہار میں قومی جمہوری اتحاد کے لئے فضا سازگار ہے اس لئے اسمبلی انتخاب میں انہیں بڑی کامیابی مل سکتی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ پارلیمانی انتخاب میں اگر این ڈی اے کو بہار میں زیادہ سیٹیں ملی ہیں تو اس کی وجہ انڈیا اتحاد کے ذریعہ سیٹوں کی تقسیم میں جس طرح افراتفری دیکھنے کو ملی اور بالخصوص راشٹریہ جنتا دل نے جس طرح ٹکٹ کی دعویداری کی اس سے کانگریس اور دیگر اتحادی جماعت کو نقصان پہنچااور اس کا سیدھا فائدہ قومی جمہوری اتحاد کوملا ورنہ زمینی سطح پر ماحول بالکل الگ تھا۔ 
بہر کیف!اب ریاست کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے آئندہ اسمبلی انتخاب کے لئے اپنی بساط بچھانی شروع کردی ہے۔ ایک طرف قومی جمہوری اتحاد میں شامل جنتا دل متحدہ، بھارتیہ جنتا پارٹی، لوک جن شکتی پارٹی رام ولاس، ہندوستانی عوام مورچہ اپنے تنظیمی ڈھانچوں کو مستحکم کرنے کے لئے پارٹی کے فعال ارکان کو ذمہ داریاں سونپ رہے ہیں ۔ چونکہ قومی جمہوری اتحاد نے یہ اعلان کیا ہے کہ نتیش کمار کی قیادت میں ہی آئندہ اسمبلی انتخاب ہوگا لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی تنظیمی عہدیداروں کے درمیان کافی رسّہ کشی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی قومی جمہوری اتحاد کی حکومت سازی کے لئے بہت سی ایسی سیٹیں ہیں جن پر بھاجپا جیت سکتی ہے لیکن وہ جنتا دل متحدہ کے حصے میں چلی جاتی ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں کی خواہش ہے کہ وہ ریاست میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طورپر ابھرے تاکہ وہ جنتا دل متحدہ کے دبائو میں نہیں رہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ اسمبلی انتخاب میں بھی جنتا دل متحدہ بھاجپا کے ساتھ تھی لیکن لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر چراغ پاسوان قومی جمہوری اتحاد کا حصہ رہتے ہوئے بھی جنتا دل متحدہ کے امیدواروں کے خلاف اپنا امیدوار کھڑا کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جنتا دل متحدہ کو اس کا نقصان اٹھانا پڑا اور راشٹریہ جنتا دل ایک بڑی سیاسی جماعت کے طورپر کامیاب ہوئی۔ البتہ وہ حکومت سازی میں ناکام رہی کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتا دل متحدہ نے حکومت سازی کی۔ مگر نتیش کمار کے اندر وہ کسک آج بھی ہے کہ چراغ پاسوان کی وجہ سے اسمبلی میں انہیں نقصان پہنچا۔ اب جب کہ مرکز میں جنتا دل متحدہ کی بدولت نریندر مودی کی حکومت ہے ایسی صورت میں نتیش کمار کی سیاسی اہمیت غیر معمولی ہوگئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھاجپا کے قومی لیڈر اس وقت نتیش کمار سے کسی طرح کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتے۔ جنتا دل متحدہ کی بھی کوشش ہے کہ وہ ریاست میں قومی جمہوری اتحاد میں رہتے ہوئے ایک بڑی سیاسی جماعت کی حیثیت حاصل کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اسمبلی انتخاب کے اعلان تک کس طرح کی ماحول سازی ہوتی ہے اور قومی جمہوری اتحاد کی کیا حکمت عملی رہتی ہے۔ دوسری طرف راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بایاں محاذ انڈیا اتحاد کو مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے اور راشٹریہ جنتا دل کو پارلیمانی انتخاب میں جو دھچکا لگا ہے اس کی وجہ سے لالو پرساد یادو اور تیجسوی یادو کے موقف میں بھی تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حال ہی میں لالو پرساد یادو نے مرحوم شہاب الدین کی بیگم حنا شہاب سے ملاقات کی ہے اور ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں وہ راشٹریہ جنتا دل کی معاون ہوں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حنا شہاب کی وجہ سے سیوان، چھپرہ اور گوپال گنج میں انڈیا اتحاد کی حمایت کمزور ہوگئی۔ اب اگر اسمبلی انتخاب میں وہ راشٹریہ جنتا دل میں شامل ہوتی ہیں یا باہر سے ہی حمایت کرتی ہیں تو ممکن ہے کہ اس علاقے میں نئی سیاسی فضا بن سکتی ہے۔ ویسے ان دنوں جنتا دل متحدہ اور راشٹریہ جنتا دل دونوں اقلیت طبقے کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے طرح طرح کی کوشش کر رہے ہیں ۔ 
حالیہ وقف ترمیمی بل کو لے کر بھی ریاست میں اقلیت طبقے کے اندر اضطرابی ماحول دیکھنے کو مل رہاہے اور الگ الگ مکتبۂ فکر کی اقلیت طبقے کی تنظیمیں میٹنگیں بھی کرنے لگی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جنتا دل متحدہ کے نظریہ کے علمبردار اقلیت طبقے کے کچھ علماء اور دیگر تنظیمیں فعال ہوگئی ہیں جب کہ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ پارلیمنٹ میں جنتا دل متحدہ کے ارکان نے اس بل کی حمایت کی ہے اور بالخصوص پارٹی کے سرکردہ لیڈر للن سنگھ تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران سے کہیں زیادہ ہی سرگرم نظر آئے۔ راشٹریہ جنتا دل نے بھی اپنی پارٹی کے اقلیتی سیل کی میٹنگ طلب کی ہے اور اپنا موقف ظاہر کیا ہے کہ وہ وقف ترمیمی بل کی مخالفت کرتے رہیں گے اور تیجسوی یادو نے اقلیت طبقے کے لیڈروں کو یہ یقین دلایا کہ وہ مستقبل میں اقلیت طبقے کی بدولت ہی حکومت سازی میں کامیاب ہوں گے اس لئے وہ اقلیت طبقے کے اندر اگر کسی طرح کی غلط فہمیاں ہیں تو اسے دور کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل حالیہ پارلیمانی انتخابات میں ٹکٹ اور پھر اس کے بعد اقلیت طبقے کے بڑے لیڈروں کو حاشیے پر رکھنے کی وجہ سے راشٹریہ جنتا دل کے تئیں اقلیت طبقے میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے لہٰذا وہ اسمبلی انتخاب سے قبل تمام تر ناراضگی کو دور کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بہار میں اقلیت طبقے کے ووٹو ں میں اگر انتشار نہ ہو تو وہ مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اقلیت طبقے کے ووٹوں کو منتشر کرنے کی سازش ہمیشہ کامیاب ہو جاتی ہے اور جس کا خمیازہ اس طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے اور دنوں دن اسمبلی یا پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس بار بھی اسمبلی انتخاب کے مدنظر کئی تنظیمیں اقلیت طبقے میں سیاسی بیداری کے نام پر تحریک چلا رہی ہیں جب کہ ماضی میں انہوں نے اقلیت طبقے کے ساتھ ساتھ سیکولر اتحاد کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس لئے اقلیت طبقے کو بھی ہوشیار رہنا ہوگا کہ ریاست میں اسمبلی انتخاب کے لئے جو ماحول تیار ہو رہاہے وہ کس قدر اس کے حق میں ہے یا پھر ان کے ووٹوں کو منتشر کرنے کے لئے سیاست کی نئی شطرنجی چال چلی جا رہی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK