• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہار میں ضمنی انتخاب نتیجہ اور سیاسی دعوے!

Updated: July 18, 2024, 12:52 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

سچائی یہ ہے کہ نتیش کمار اس وقت جس حالت میں ہیں وہ قومی جمہوری اتحاد کونہیں چھوڑ سکتے ہیں ، ان کی کئی سیاسی مجبوریاں ہیں۔ اس کےباوجود اس ضمنی انتخاب کے نتیجہ سے جنتا دل متحدہ کو یقینا ًایک بڑا جھٹکا لگا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

حال ہی میں پارلیمانی انتخاب کے نتائج کے بعد بہار میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ذریعہ احتسابی جائزہ میٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک سیاسی جماعت دوسری سیاسی جماعت کے متعلق انتخاب میں کامیابی اور ناکامی کو اپنے سیاسی بیانات کا محور ومرکز بنانے لگی۔ ظاہر ہے کہ قومی جمہوری اتحاد کو بہار میں امید سے زیادہ سیٹیں ملیں اور انڈیا اتحاد اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے کئی وجوہ ہیں لیکن گزشتہ دن شمالی بہار کے خطہ سیمانچل پورنیہ میں روپاولی اسمبلی حلقہ میں ضمنی انتخاب کا نتیجہ قومی جمہوری اتحاد اور انڈیا اتحاد دونوں کے لئے باعثِ فکر ثابت ہوا ہے۔ واضح ہو کہ روپالی میں جنتا دل متحدہ کو چھوڑ کر آر جے ڈی میں شامل ہونے والی بیما بھارتی نے پارلیمانی انتخاب بھی لڑا تھا اور انہیں تقریباً تیس ہزار ووٹ آئے تھے اور پورنیہ پارلیمانی حلقہ سے بطور آزاد امیدوار راجیش رنجن عرف پپّو یادو انتخاب جیتے تھے۔ 
اس ضمنی انتخاب میں بھی راشٹریہ جنتا دل نے بیما بھارتی کو ہی اپنا امیدوار بنایا لیکن اس بار بھی وہ تیسرے نمبر پر رہیں اور روپاولی اسمبلی حلقہ سے بطور آزاد امیدوار شنکر سنگھ کامیاب ہوئے ہیں ۔ یہ نتیجہ حکمراں اتحاد جنتا دل متحدہ اور بھاجپا کے لئے بھی باعثِ فکر ہے تو راشٹریہ جنتا دل کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ کیونکہ جس طرح پپو یادو نے اس سیٹ سے راشٹریہ جنتا دل کے امیدوار کی ناکامی کے لئے آر جے ڈی کے لیڈر تیجسوی یادو کو نشانہ بنایا ہے وہ آئندہ کی سیاست کے لئے بھی ایک اشاریہ ہے۔ اگرچہ پپو یادو نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ انڈیا اتحاد کے امیدوار کی حمایت کریں گے لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ شنکر سنگھ کی کامیابی کے پس پردہ پپو یادو کی سیاسی طاقت کا اہم رول ہے۔ کیونکہ پارلیمانی انتخاب کے وقت پپو یادو نے پورنیہ اور آس پاس کے علاقے میں جس طرح اپنی سیاسی زمین زرخیز کی ہے اس کا فائدہ اس ضمنی انتخاب میں بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ دراصل پپو یادو کا مبینہ الزام ہے کہ تیجسوی یادو کی وجہ سے ہی پارلیمانی انتخاب میں وہ کانگریس کے امیدوار نہیں بن سکے جس کا نقصان انڈیا اتحاد کوبھی ہواہے بلکہ پپو یادو کا کہنا ہے کہ اگر اس وقت وہ کانگریس کے امیدوار ہوتے اور بہار میں دوسرے پارلیمانی حلقوں میں بھی سنجیدہ امیدوار کھڑے کئے جاتے تو ریاست بہار میں انڈیا اتحاد کو مزید دس بارہ سیٹیں مل سکتی تھیں اور اگر ایسا ہوتا تو اس وقت قومی سیاست کی تصویر دوسری ہوتی۔ بہر کیف اس طرح کی سیاسی بیان بازی سے اب کوئی فائدہ تو نہیں ہے لیکن اس ضمنی انتخاب نے ریاست بہار کے ان تمام سیاسی پنڈتوں کو سوچنے پر مجبور کردیاہے کہ بہار میں کس طرح کی فضا تیار ہورہی ہے۔ یہ نتیجہ بہت ہی چونکانے والا ہے کہ وہاں سے جنتا دل متحدہ کے امیدوار کی شکست جنتا دل متحدہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی اتحاد کے درمیان اندرونی طورپر جس طرح کی رسہّ کشی چل رہی ہے اس سے جنتا دل متحدہ کو نقصان ہو رہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقامی سطح پر یہ آواز بلند ہونے لگی ہے کہ جنتا دل متحدہ کے امیدوار کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں کی جتنی مدد ہونی چاہئے اتنی نہیں مل سکی۔ اگرچہ جنتا دل متحدہ کے ترجمان نیرج کمار نے اس نتیجہ پر بس اتنا تبصرہ کیا ہے کہ ہمارے امیدوار کی ناکامی کی وجہ کیا رہی ہے اس کی تلاش کی جائے گی اور پارٹی اس ناکامی کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے مگر عوام میں یہ چہ میگوئیاں عام ہیں کہ جنتا دل متحدہ کے خلاف قومی جمہوری اتحاد میں بھی چالیں چلی جا رہی ہیں اور نتیش کمار کی شبیہ کو مسخ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی انتخاب کے بعد قومی سطح پر نتیش کمار کی سیاسی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے جنتا دل متحدہ کی بدولت ہی مرکز میں نریندر مودی کی حکومت تشکیل پائی ہے مگر حکومت سازی کے پہلے دن سے ہی سیاسی گلیارے میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ جنتا دل متحدہ کے ممبران پارلیمنٹ کو توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اب تو قومی میڈیا میں بھی اس طرح کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ نتیش کمار اس وقت جس حالت میں ہیں وہ قومی جمہوری اتحاد کونہیں چھوڑ سکتے ہیں ، ان کی کئی سیاسی مجبوریاں ہیں۔ اس کےباوجود اس ضمنی انتخاب کے نتیجہ سے جنتا دل متحدہ کو یقینا ًایک بڑا جھٹکا لگا ہے۔ دریں اثناء یہ بھی خبر عام ہورہی ہے کہ راشٹریہ جنتا دل کی سیمانچل علاقے میں زمین کمزور ہورہی ہے کیونکہ حال ہی میں ارریہ میں ان کے پارلیمانی امیدوار کی شکست ہوئی اور پورنیہ میں بھی راجد کے امیدوار کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ضمنی انتخاب میں بھی راشٹریہ جنتا دل کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے ہیں ۔ اگر اسی طرح کا ماحول رہا تو آئندہ سال اسمبلی انتخاب تک راجد کی راہیں دشوار ہو سکتی ہیں اس لئے یہ ضمنی انتخابی نتیجہ ان کے لئے بھی لمحۂ فکریہ ہے۔ اگرچہ اس ضمنی انتخاب کے نتیجے سے بہار کی موجودہ حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے کہ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں البتہ دونوں اتحاد کیلئےاس ضمنی انتخاب میں ناکام ہونا سیاسی موضو ع ضرور بن گیاہے اور طرح طرح کے دعوے کئے جا رہے ہیں ۔ بالخصوص پپو یادو نے پورنیہ کے اس ضمنی انتخاب کو لے کر جس طرح دونوں اتحادوں کو نشانہ بنایا ہے اور خصوصی طورپر راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو کو اس ہارکیلئے موردِ الزام ٹھہرایا ہے اس سےآرجے ڈی کے اندر غم وغصہ بھی دکھائی دے رہاہے مگر اس تلخ سچائی کو قبول کرنا ہی ہوگا کہ پپو یادو کو اگر پارلیمانی انتخاب میں انڈیا اتحاد کا امیدوار بنایا جاتا تو پورے سیمانچل میں ایک نئی سیاسی فضا تیار ہوتی اور اس کا خاطر خواہ فائدہ انڈیا اتحاد کو ہوتا اب بھی وقت ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب کیلئے جب انڈیا اتحاد کوئی لائحہ عمل تیار کرے تو زمینی حقیقت کو نہ صرف مد نظر رکھے بلکہ اسی کی بنیاد پر فیصلہ کرے تاکہ اس کا فائدہ اسے مل سکے۔ کانگریس کیلئے تو اور بھی ضروری ہے کہ جس طرح بہار میں اس کیلئے ایک امیدافزا فضا تیار ہوئی ہے اس کیلئے وہ اپنے کارکنوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ہی سیٹوں کی تقسیم کا فیصلہ کریں اور آر جے ڈی کو بھی اپنی ضد چھوڑنی ہوگی کہ وہ عوام کی خواہشات کا احترام کرے۔ قومی جمہوری اتحاد میں بھی جس طرح کی رسہ کشی ہے شاید نتیش اس سے انجان نہیں ہیں اور وہ عین وقت پر اپنی حکمت عملی کا خلاصہ کر سکتے ہیں، ماضی میں بھی وہ اسی طرح کے چونکانے والے فیصلے کرتے رہے ہیں ۔ 
 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK