اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سرکار کی راحت کاری ان کیلئے وقتی عافیت کا سامان تو ہو سکتا ہے لیکن اگر واقعی شمالی بہار کے متاثرہ اضلاع کو سیلاب سے ہمیشہ کیلئے نجات دلانا ہے تو کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کر نا ہوگا۔
EPAPER
Updated: October 03, 2024, 12:50 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سرکار کی راحت کاری ان کیلئے وقتی عافیت کا سامان تو ہو سکتا ہے لیکن اگر واقعی شمالی بہار کے متاثرہ اضلاع کو سیلاب سے ہمیشہ کیلئے نجات دلانا ہے تو کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کر نا ہوگا۔
ہمارے پڑوسی ملک نیپال کے مشرقی اور وسطی حصے میں جب کبھی شدید بارش ہوتی ہے تو نہ صرف نیپال کے کئی اضلاع سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں بلکہ وطنِ عزیز ہندوستان کی ریاست بہار کے شمالی حصے میں بھی اس کی تباہی دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ ایک صدی سے چل رہا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے نصف صدی سے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ پڑوسی ملک نیپال کے ساتھ اس مسئلہ پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ نیپال میں شدید بارش کی وجہ سے جو تباہی ریاست بہار میں ہوتی ہے اس پر روک لگائی جا سکے۔ مگر یہ مسئلہ ہنوز برقرار ہے۔ واضحرہے کہ آزادی کے فوراً بعد۱۹۵۰ء میں نیپال کے ساتھ اس مسئلہ پر گفت وشنید کے لئے بہار کی راجدھانی پٹنہ میں پانچ روزہ اجلاس ہوا تھا اور اس اجلاس میں دونوں ملک نے یہ طے کیا تھا کہ چونکہ نیپال میں ہر سال شدید بارش ہوتی ہے اور وہ پانی ندیوں کے ذریعہ ہندوستان کی کوسی ندی کے سطح آب میں اضافہ کرتا ہےجس کی وجہ سے شمالی بہار کے درجنوں اضلاع سیلاب سے دوچار ہوتے ہیں لہٰذا بیر پور میں دریا پربریج کی تعمیر ہوئی اور اس میں ۵۶؍ دروازے بنائے گئے تاکہ نیپال سے آنے والی ندیوں کے پانی کو روکا جا سکے اور آہستہ آہستہ کھولا جائے تاکہ شمالی بہار کی کوسی کے سطح آب میں اچانک اضافہ نہ ہو اور کوسی کے آس پاس کی آبادی کو سیلاب سے بچایا جا سکے۔ ماضی میں اسی نسخے کو اپنایا جاتا رہا لیکن ہر دو چار سال کے بعد شمالی بہار کی کوسی کے سطح آب میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے سیلاب کا قہر برپا ہوتا رہا۔ اس سال بھی نیپال کے کٹھمنڈو کے گردو نواح میں شدید بارش ہوئی اور جس کی وجہ سے نیپال میں بھی سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے جس سے مزید تباہی ہو سکتی ہے۔ لیکن سب سے بڑا خطرہ شمالی بہار کے تقریباً بارہ اضلاع میں ہے۔ ۱۹۶۸ء کے بعد پہلی بار بریج کے تمام ۵۶؍ دروازے کھول دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے شمالی بہار کی کوسی اور گنڈک ندیوں میں سطح آب میں بہت اضافہ ہوگیاہے جس کے نتیجہ میں اب ان دونوں ندیوں کا پانی آبادی والے علاقے میں پھیل گیاہے۔ کئی باندھ ٹوٹ گئے ہیں ، بیر پور اور بالمیکی نگر کے دروازے بھی کھولے گئے ہیں تاکہ پانی میں طغیانی کم ہو سکے اور سیلاب کی تباہی بھی رک سکے مگر ایسا نہیں ہو پا رہاہے۔ اس لئے حکومت بہار نے بارہ اضلاع میں سیلاب کے خطرے کا الرٹ جاری کیا ہے ان میں بھوجپور، سارن، پٹنہ، سمستی پور، بیگوسرائے، مونگیر، بھاگلپور، سپول، سہرسہ مدھوبنی اور مدھے پورہ میں صورتحال دگرگوں ہے ان اضلاع کے کئی حصوں میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے سیلاب کے مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان وقتاً فوقتاً اجلاس ہوتے رہتے ہیں اور کئی بار اس طرح کی خبریں عام ہوئی ہیں کہ دونوں ممالک نے یہ طے کیا ہے کہ اب نیپال میں جب کبھی شدید بارش ہوگی تو اس کو روکنے کے لئے سائنسی ترکیب اپنائی جائے گی بلکہ اس پانی سے بجلی پیدا کرنے کے صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔ مگر تلخ سچائی یہ ہے کہ ہند اور نیپال کے درمیان اب تک جو بھی گفت وشنید ہوئی ہے وہ کاغذوں تک محدود ہے۔ اس کا خمیازہ ہر سال شمالی بہار کے درجنوں اضلاع سیلاب کی زد میں آتے ہیں اور بالخصوص کوسی ندی کے گرد ونواح کی آبادی کو خسارہ عظیم پہنچتا ہے۔ اس سال بھی کوسی ندی کے سطح آب میں جس برق رفتاری سے اضافہ ہوا ہے اور کوسی علاقے کی بڑی آبادی سیلاب سے متاثر ہوئی ہے، درجنوں افراد جاں بحق ہوئے ہیں اور ہزاروں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر اونچی جگہوں پر پناہ لے رہے ہیں۔ ان کے جانوروں کی حالت بد تر ہے کہ وہ اپنے جانوروں کے ساتھ ندیوں کے باندھوں پر پناہ لئے ہوئے ہیں۔ گرچہ حکومت کی جانب سے راحت کاری کا اعلان کیا گیاہے اور سرکاری عملے ان تک پہنچ رہے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سرکار کی راحت کاری ان کے لئے وقتی عافیت کا سامان تو ہو سکتا ہے لیکن اگر واقعی شمالی بہار کے متاثرہ اضلاع کو سیلاب سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانا ہے تو کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کر نا ہوگا۔ صرف گفت وشنید اوراجلاس سے مسئلے کا حل نہیں ہو پائے گا کیونکہ گزشتہ نصف صدی سے یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس مرض کا علاج نہیں ہو پایا ہے۔ اس وقت چونکہ مرکز اور ریاست بہار دونوں جگہ قومی جمہوری اتحاد کی حکومت ہے اس لئے اگر ریاستی حکومت مرکز ی حکومت پر کوئی دبائو بنانے میں کامیاب ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو سکے اور نیپال کے پانی کا مصرف جدید تکنیکی عمل کی بدولت بجلی پیدا کرنے کی سبیل پیدا ہو سکے۔ اگر ایسا معاہدہ ہوتا ہے تو نیپال کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی اس کا فائدہ مل سکتاہے۔ کوسی ندی کے پانی کا استعمال زراعت کے ساتھ ساتھ بجلی پیدا کرنے میں ہوگا اور آج جن علاقوں میں سیلاب کی تباہی دیکھنے کو مل رہی ہے ان علاقوں میں خوشحالی آسکتی ہے۔ مگرشرط یہ ہے کہ اس کیلئے حکومت ہند اور نیپال کو بہت سنجیدگی سے غوروفکر کرنا ہوگا کہ شدید بارش اورسیلاب کی وجہ سے دونوں ملکوں کی بڑی آبادی کو تباہیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص شمالی بہار میں سیلاب کی وجہ سے لاکھوں کی آبادی ہر سال بے گھر ہوتی ہے اور ہزاروں افراد اپنی زمین جائیداد سے محروم ہو جاتے ہیں، سیلاب اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جاتاہے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
واضح رہے کہ ایک دہائی پہلے بھی اسی طرح کی تباہی ہوئی تھی اور شمالی بہار کے سیمانچل یعنی سپول، سہرسہ، پورنیہ، کٹیہار وغیرہ اضلاع میں لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے تھے اور سرکاری راحت کاری کے باوجود آج تک متاثرہ علاقے میں ہزاروں خاندان بے گھر ہو کر دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں اس بار جس برق رفتاری سے کوسی اور گنڈک کے ساتھ ساتھ دیگر چھوٹی چھوٹی ندیوں میں سیلاب کی طغیانی میں اضافہ ہو رہاہے اس سے خطرہ بڑھ گیا ہے کہ اس بار بھی لاکھوں افراد سیلاب سے متاثر ہوں گے اور ریاست میں ان کی باز آباد کاری کا ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگا۔