• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہارمیں ’’جن سوراج‘‘: امکانات وخدشات!

Updated: October 10, 2024, 2:14 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

بہار میں ’’جن سوراج ‘‘کی حیثیت ایک نئی پارٹی کی ہوگئی ہے اور پرشانت کشور نے اپنی پارٹی کے جن خطوط کی وضاحت کی ہے اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ وہ بہار میں ایک خاص مقصد کے تحت امیدوار کھڑا کریں گے ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

جمہوریت دنیا کی سب سے مقبول طرزِ حکومت ہے اور اس کی واحد خوبی یہ ہے کہ جمہوری ملک میں ہر شہری کو اظہارِ خیال کی شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ جمہوری سیاسی عمل میں شامل ہونے کے حقوق بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخاب سے لے کر پارلیمانی اور صدارتی انتخاب کے عمل میں کوئی بھی شہری شامل ہو سکتاہے خواہ اسے کوئی سیاسی جماعت امیدوار بنائے یا نہیں بنائے۔ غرض کہ آزادانہ طورپر ہر شہری جو انتخابی عمل کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے وہ امیدوار بن جاتاہے۔ ٹھیک اسی طرح کسی بھی سماجی اور مذہبی جماعت کو بھی یہ آئینی حقوق حاصل ہے کہ وہ اپنی تنظیمی صلاحیت کی بنیاد پر خود کو سیاسی جماعت میں تبدیل کرسکے۔ لہٰذا ملک میں ہر سال درجنوں نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آتی ہیں اور وہ خصوصی طورپر اسمبلی وپارلیمانی انتخاب میں اپنی موجودگی کا احساس کراتے ہیں ۔ ریاست بہار میں گزشتہ دو برسوں سے ایک رضاکار سماجی تنظیم ’’جن سوراج‘‘ جس کے قائد پرشانت کشور ہیں ، وہ مختلف طرح کے پروگراموں کے ذریعہ اپنے منصوبوں کی معلومات عوام کو دے رہے تھے اور اعلانیہ پروگرام کے تحت انہوں نے گزشتہ ۲؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو آخر کار ایک نئی سیاسی جماعت کے طورپر اپنی تنظیم کو تبدیل کردیا اور یہ بھی وضاحت کردی کہ وہ بہار اسمبلی کے آئندہ انتخاب میں تمام سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرے گی۔ اگرچہ بہار کے ایسے افراد جن کی سیاست میں دلچسپی ہے وہ سب بخوبی واقف تھے کہ پرشانت کشور کی مہم ظاہری طورپر سماجی ہے لیکن ان کی نصب العین سیاسی ہے۔ 
واضح رہے کہ پرشانت کشور بنیادی طورپر ایک ماہرین سیاسی مشیر ہیں اور وہ پیشہ وارانہ طورپر ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کے لئے کام کرتے رہے ہیں ۔ لیکن ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ وہ نظریاتی طورپر بھارتیہ جنتا پارٹی کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں جس کی حالیہ مثال یہ ہے کہ پارلیمانی انتخاب کے وقت بھی وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعلق اپنی مثبت رائے کا اظہار کر رہے تھے اور مختلف برقی میڈیا میں انٹرویو کے ذریعہ بھاجپا کو تین سو سے زیادہ سیٹ آنے کی وکالت کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں ان کی شناخت گجرات میں نریندر مودی کے ساتھ بطور سیاسی مشیر قائم ہوئی ۔ 
بہر کیف! اب جب کہ بہار میں ’’جن سوراج ‘‘کی حیثیت ایک نئی پارٹی کی ہوگئی ہے اور پرشانت کشور نے اپنی پارٹی کے جن خطوط کی وضاحت کی ہے اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ وہ بہار میں ایک خاص مقصد کے تحت امیدوار کھڑا کریں گے ۔ ان کا موقف ہے کہ ریاست بہار میں راشٹریہ جنتا دل کی حکومت پندرہ سال رہی جس کی قیادت لالو پرساد یادو اور رابڑی دیوی نے کی اور گزشتہ پندرہ سال سے جنتا دل متحدہ کی اتحادی حکومت کی باگ ڈور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ہاتھوں میں ہے اس کے باوجودبہار میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے ۔ بیروزگاری دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور بہاری مزدوروں کی ہجرت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسی طرح کوئی بڑی صنعت نہیں لگائی گئی جس سے یہاں کے لوگوں کو روزگار ملتا اور بھی کئی عوامی مسائل کی طرف پرشانت کشور لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں اور بہار میں سیاسی تبدیلی کی وکالت کرتے ہیں لیکن پرشانت کشور کے نکتہ چینوں کا موقف ہے کہ وہ صرف ووٹوں کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ جس سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں اس کی راہ ہموار ہو جائے۔ اب تک ان کی سیاسی جماعت میں کوئی قد آور سیاسی لیڈر کی شمولیت نہیں ہوئی ہے البتہ مختلف سیاسی جماعتوں کے باغیوں اور سرکاری محکموں سے سبکدوش اعلیٰ آفیسروں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ جن کی دلچسپی سیاست میں ہے اورانہیں بہار کی موجودہ سیاست میں کوئی جگہ نہیں مل رہی ہے وہ سب پرشانت کشور کی نئی سیاسی جماعت’’جن سوراج‘‘ کے حامیوں میں شامل ہیں ۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے ریاستی سربراہ کے طورپر منوج بھارتی کو آگے کیا ہے جو ایک آئی ایف ایس آفیسر رہے ہیں ۔ وہ دلت طبقے کے ہیں ، ظاہر ہے کہ بہار میں ذات پات کی سیاست کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس لئے انہو ں نے ایک دلت چہرے کو آگے رکھا ہے ۔ ایک بڑا نام دیوندر پرساد یادو کا بھی ہے کہ وہ سابق مرکزی وزیر ہیں اور شمالی بہار کے جھنجھارپور پارلیمانی حلقے سے تین مرتبہ ممبر پارلیمنٹ رہے ہیں اور دو دہائیوں تک بہار قانون ساز کونسل کے ممبر بھی رہے ہیں ۔ ان کا تعلق چوں کہ یادو برادری سے ہے اس لئے ممکن ہے کہ پرشانت کشور یادو برادری کے ایک بڑے چہرے کے طورپر دیوندر پرساد یادو کا استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ پرشانت کشور نے یہ بھی اعلان کیاہے کہ وہ ریاست بہار کے مسلمانوں کو خاطر خواہ سیاسی حصہ داری دیں گے ۔ غرض کہ بڑی تعداد میں مسلم امیدوار بھی کھڑا کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب کے اعلان تک اس نئی سیاسی جماعت کے کردار واعمال میں کس طرح کی تبدیلی آتی ہے اور وہ بہار کی سیاست کے سمت ورفتار کو کس قدر اثر انداز کرتی ہے۔ مگر اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سیاسی جماعت اپنی موجودگی کا احساس ضرور کرائے گی اور ممکن ہے کہ اس کی موجودگی سے دیگرقدیم سیاسی جماعتوں کے سامنے کئی مسائل پیدا ہوں گے۔ اس لئے اگر کوئی سیاسی جماعت اس نئی سیاسی جماعت کو نظر انداز کرتی ہے تو اس کا خمیازہ بھی اسے بھگتنا پڑسکتا ہے، پرشانت کشور ایک پیشہ وارانہ ماہرِ انتخاب ہیں اور وہ اشتعال انگیز وجذباتی نعروں کے ذریعہ کسی سیاسی جماعت کو کامیاب بنانے اور کسی کو شکست فاش کی دہلیز تک پہنچانے کا کام کرتے رہے ہیں اس لئے ممکن ہے کہ وہ اپنی نئی سیاسی جماعت کی اہمیت تسلیم کرانے کے لئے ویسے تمام سیاسی نسخے اپنائیں گے جُو اب تک انہوں نے دوسروں کے لئے نہیں آزمائے تھے۔ ظاہر ہے کہ پرشانت کشور نے جس مقصد سے نئی پارٹی تشکیل دی ہے اور ان کی پشت پر جن کے ہاتھ ہیں وہ ہاتھ بہت لمبے ہیں اور اس حقیقت سے ریاست بہار کی تمام سیاسی جماعتیں کم وبیش آگاہ ہیں اس لئے کشور کی راہیں بھی آسان نہیں ہیں مگر سیاست کی شطرنجی چال میں کون کب کس کو مات دے سکتا ہے اس کی قیاس آرائی ممکن نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK