ہیمنت بسوا شرما کو ایسے بیانات سے کوئی فائدہ تو نہیں، البتہ نقصان ہوگا۔ وہ رُسوا ہوکر رہینگے۔ اُنہیں علم نہیں کہ اُن سے پہلے بھی بہت سوں نے مسلمانوں پر بہتان لگائے اور متنازع بیانات دیئے۔ اب اُنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
EPAPER
Updated: August 29, 2024, 12:58 PM IST | Mumbai
ہیمنت بسوا شرما کو ایسے بیانات سے کوئی فائدہ تو نہیں، البتہ نقصان ہوگا۔ وہ رُسوا ہوکر رہینگے۔ اُنہیں علم نہیں کہ اُن سے پہلے بھی بہت سوں نے مسلمانوں پر بہتان لگائے اور متنازع بیانات دیئے۔ اب اُنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔
سنا آپ نے کیا کہہ رہے ہیں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما (سرما بھی لکھا جاتا ہے)؟ وہ ویسی ہی باتیں کررہے ہیں جیسی کرتے آئے ہیں، فرق صرف یہ کہ اب وہ پہلے سے زیادہ بے لگام ہوگئے ہیں۔ اس بار جو متنازع بیان اُنہوں نے دیا وہ آسام اسمبلی میں دیا ہے۔ اسمبلی کے باہر اور اسمبلی کے اندر بیان دینے میں فرق ہے۔ باہر کا کہا سنا باہر کی دُنیا میں رہ جاتا ہے جو زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتا۔ اسمبلی کے اندر دیا گیا بیان ریکارڈ پر رہتا ہے اور پچاس سال بعد بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ اچھی بات ہے کہ اُن کا بیان اسمبلی کی روداد میں محفوظ ہوگیا، اَب وہ اُس سے نہ تو مکر سکیں گے کہ مَیں نے ایسا بیان دیا ہی نہیں، نہ ہی یہ کہہ سکیں گے کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ دو روز قبل کا اُن کا بیان متنازع ہی نہیں، قابل ِ مذمت بھی ہے۔ آئین کی پاسداری کا حلف لے کر آئین کی روح کو مجروح کرنے والے اس بیان میں اُنہو ں نے کہا کہ ’’کچھ بھی ہوجائے مَیں مسلمانوں کے خلاف بولتا رہوں گا، اس سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ ‘‘ اختصار کی غرض سے یہاں ہم نے طویل بیان کا صرف ایک جملہ نقل کیا ہے ورنہ اُنہوں نے اس موضوع پر کئی باتیں کہیں جو سب کی سب قابل اعتراض ہیں۔ کیا ایک وزیر اعلیٰ اس طرح کی باتیں کرسکتا ہے؟ کیا اُس کی پارٹی ایسے بیانوں کو منظور کرتی ہے؟ اگر نہیں کرتی تو کیا اُس کی گوشمالی کریگی؟ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی یہ نہیں دیکھ رہی ہے کہ ہیمنت بسوا شرما کے بیانات ’’سب کا ساتھ، سب کا وشواس‘‘ کے منافی ہیں ؟ کیا ریاستی سطح پر آئینی سربراہ کی حیثیت سے گورنر کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اُن کے بیانات کا نوٹس لیں ؟
کسی بھی ریاست کا وزیر اعلیٰ ایسی باتیں نہیں کہہ سکتا جن کے ذریعہ آبادی کے ایک خاص طبقے کو الگ تھلگ کرنے یا اُس کے افراد پر سنگین الزام لگانے کی کوشش کی گئی ہو۔ اُن کا کہنا تھا کہ لووَر آسام کے مسلمان اَپر آسام میں مکان کیوں خرید رہے ہیں، وہاں منتقل کیوں ہورہے ہیں ؟ ہیمنت بسوا شرما کے خیال میں یہ پورے آسام پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔ تو کیا وہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اُن کا دعویٰ مبنی بر حقیقت ہے؟ اگر ہے تو وہ بتائیں کہ کیا کوئی قانون ہے جو لوور آسام کے مسلمانوں کو اَپر آسام میں منتقل ہونے سے روکتا ہے؟ وہ کس بنیا دپر کہہ رہے ہیں کہ ایک دن آئیگا جب پورے آسام پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا؟ اب سے پہلے اُنہوں نے یہ بات آبادی میں اضافے کا ہوا ّ کھڑا کرتے ہوئے کہی تھی۔ کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا تو اَب وہ وہی بیان زیادہ مسالہ لگا کر دے رہے ہیں اسی لئے دیکھنا ہے کہ اُن کے ایجنڈا میں مزید کیاہے۔ مسلم دشمنی کے سبب امکان ہے کہ پارٹی میں اُن کے درجات بلند ہوں مگر اُنہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اُن کی حیثیت ایک تفرقہ پرور لیڈر ہی کی رہے گی جس نے آئین کی قسم کھائی مگر آئین کا مخول اُڑایا۔
کاش اِس وقت واجپئی وزیر اعظم ہوتے! تو اُنہیں راج دھرم نبھانے کا مشورہ دیتے اور دُنیا انتظار کرتی کہ وہ اس پر عمل کرتے ہیں یا اس کو بھی ہوا میں اُڑاتے ہیں۔ ہیمنت بسوا شرما کو ایسے بیانات سے کوئی فائدہ تو نہیں، البتہ نقصان ہوگا۔ وہ رُسوا ہوکر رہینگے۔ اُنہیں علم نہیں کہ اُن سے پہلے بھی بہت سوں نے مسلمانوں پر بہتان لگائے اور متنازع بیانات دیئے۔ اب اُنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔