• Sat, 08 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یکساں سول کوڈ کو بی جے پی نےاپنا فسطائی ایجنڈہ بنا لیا ہے

Updated: February 08, 2025, 12:02 AM IST | Ejaz Abdul Ghani | Mumbai

انگریزوں کے دور حکومت سے مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب اور قبائل کے رسم و رواج کے مطابق قوانین موجود ہیںتاہم بی جے پی طویل عرصہ سے جبراً یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) متعارف کروانے پر اَڑی ہوئی ہے۔بی جے پی کی اقتدار والی ریاست اتراکھنڈ نے پیر کو یو سی سی نافذ کر دیا۔

The government may not say it openly, but the whole world knows that the purpose of bringing the UCC is to target Muslims. Photo: INN
حکومت کھل کر بھلے ہی نہ کہے لیکن یہ بات پوری دنیا جانتی ہے کہ یو سی سی لانے کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہےتصویر: آئی این این

انگریزوں کے دور حکومت سے مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب اور قبائل کے رسم و رواج کے مطابق قوانین موجود ہیں تاہم بی جے پی طویل عرصہ سے جبراً یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) متعارف کروانے پر اَڑی ہوئی ہے۔ بی جے پی کی اقتدار والی ریاست اتراکھنڈ نے پیر کو یو سی سی نافذ کر دیا۔ حکومت کا یہ متنازع فیصلہ آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یو سی سی کے ذریعہ ہندو قوانین کو ملک پر مسلط کرنے کی ایک سازش رچی جا رہی ہےجس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس سےمسلمانوں سمیت تمام مذاہب کی مذہبی شناخت مجروح ہوگی۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اتراکھنڈ حکومت کے یو سی سی نافذ کرنے پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔ 
ملک ابھی یو سی سی کیلئے تیار نہیں 
 مراٹھی اخبار’نوشکتی‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’اتراکھنڈ ملک میں یو سی سی نافذ کرنے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ اس سلسلے میں ضوابط جاری کرتے وقت حکومت نے شادی، طلاق اور لیو اِن ریلیشن شپ کے رجسٹریشن کیلئے ایک پورٹل کی بھی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ اتراکھنڈ حکومت نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا ہے۔ بی جے پی نے ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات کیلئے جاری اپنے منشور میں یکساں سول کوڈ کا وعدہ کیا تھا۔ اتراکھنڈ کے بعد دیگر ریاستیں بھی یو سی سی نافذ کرنے کی خواہشمند ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ ملک کا ہر شہری اس قانون کی رو سے برابر ہے۔ بی جے پی حامیوں کا کہنا ہے کہ یو سی سی نافذ ہونے سے طویل عرصہ سے زیر التواء پڑے مقدمات کا جلد تصفیہ ہوجائے گالیکن ہندوستان جیسے متنوع ملک میں جہاں ہر کوئی اپنے اپنے مذہب کے مطابق رہتا ہے، کیا واقعی اس پر عمل درآمد آسان ہے۔ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں اور کسی کو بھی اس کے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اقلیتوں کے مطابق یکساں سول کوڈ آرٹیکل ۲۵؍ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس دفعہ کی رو سے شہریوں کے بنیادی حقوق تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ یہ قانون نوجوان جوڑوں کیلئے بھی مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ اب بالغ جوڑوں کے ایک ساتھ رہنے کی خواہش کا انحصار انتظامیہ کی صوابدید پر ہوگا۔ اسے نجی زندگی کے حق پر حملہ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یو سی سی کو سیاسی مفاد کیلئے نافذ کیا جارہا ہے جبکہ ملک ابھی یو سی سی کیلئے تیار نہیں ہے۔ اس کیلئے ایک طویل مدت درکار ہے۔ اسے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک شکل سمجھا جارہا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ٹٹوالا : غیرقانونی چالوں کے خلاف انہدامی کارروائی، ۳۵؍ چالیاں توڑدی گئیں

یوسی سی کے تئیں تشویش ہے
 ہندی اخبار ’نوبھارت ٹائمز‘ نے اپنے ۲۹؍ جنوری کے اداریہ میں لکھا ہے کہ ’’بی جے پی اور سنگھ پریوار شروع ہی سے یو سی سی کے حامی رہے ہیں۔ عدلیہ نے بھی اسے نافذ کرنے کیلئے ہری جھنڈی دکھا دی تھی۔ پھر بھی اترا کھنڈ حکومت کے یو سی سی نافذ کرنے سے کچھ حلقوں میں تشویش پائی جارہی ہے۔ اس کے پیچھے معقول وجوہات بھی ہیں۔ یو سی سی کی دفعات پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ بالغ شہریوں کے پرائیویسی کے حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ یو سی سی میں اس معاملے کا خیال رکھا جائے گا۔ لیو ان ریلیشن شپ کے رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کی شق ان جوڑوں کیلئے درد سر ثابت ہوگی جو کسی وجہ سے اپنے تعلقات کو عام نہیں کرنا چاہتے۔ کھاپ پنچایتوں کی روایتی سوچ نوجوان جوڑوں کیلئے کس قسم کے مسائل پیدا کرسکتی ہے اس کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حکومت کی دلیل ہے کہ ان دفعات کا مقصد نوجوان جوڑوں کی زندگی میں مداخلت نہیں بلکہ لڑکیوں اور خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانا ہےلیکن ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ لیو ان ریلیشن شپ جرم کو فروغ دیتا ہے یا اس کا سبب بنتا ہے۔ سب سے بڑی بات یو سی سی کے ذریعہ اصلاح کی جو پہل کی جاسکتی تھی وہ کچھ معاملات میں ندارد ہے۔ ‘‘
’یو سی سی‘ آر ایس ایس کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے
 مراٹھی اخبار’ مہاراشٹر ٹائمز‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے اتراکھنڈ میں زیر بحث یو سی سی کے نفاذ کا اعلان کرکے کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ پچھلے دو سال سے ریاست میں اس پر کافی بحث ہورہی تھی۔ اس کی بعض دفعات پر سیاسی، سماجی مذہبی اور قانونی سطح پر بحث ہورہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ گوا میں پرتگالیوں کے زمانے سے یکساں سول کوڈ نافذ ہے۔ وہیں اتراکھنڈ آزادی کے بعد اس قانون کو نافذ کرنے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ ہر سطح پر اس قانون کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا اسے ملک بھر میں نافذ کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس قانون کی رو سے شادی، طلاق، گود لینے کا عمل، لیواِن ریلیشن شپ اور جائیداد میں حصہ داری کے معاملات کی نشاندہی کی جائے گی۔ یہ قانون تعداد ازدواج اور حلالہ پر پابندی عائد کرتا ہے اور تمام مذاہب کے لڑکوں کی شادی کی عمر ۲۱؍ سال اور لڑکیوں کی ۱۸؍ سال عمر مقرر کرتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ہندوستان جلد دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہوگا تو اس کا سہرا منموہن سنگھ کے سر بندھتا ہے

 طلاق کیلئے ایک قانونی طریقہ کار لازمی ہے اور جائیدار میں بیٹے، بیٹیوں کو مساوی حصہ دیا جائے۔ یو سی سی بی جے پی کا انتخابی وعدہ ہے اور آر ایس ایس کے ایجنڈے میں سر فہرست ہے۔ مودی سرکار نے تین طلاق کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا۔ سرکار کے اس اقدام کا ہر سمت سے خیر مقدم کیا گیالیکن بہت سے لوگوں نےاس کو مذہبی عینک سے دیکھ کر پولرائزیشن کی سیاست بھی کی۔ ایک متنوع ملک میں سب کو ایک قانونی فارمولے کا پابند بنانا انتہائی پیچیدہ عمل ہے۔ کیا ریاستوں کو اس قسم کا قانون بنانے کا حق حاصل ہے؟ اس اعتراض سے معاملہ شروع ہوتا ہے۔ ‘‘
یہ بی جے پی کے نظریاتی اہداف کی آخری گیند ہے
 انگریزی اخبار’ہندوستان ٹائمز‘ نے لکھا ہے کہ’’اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ سےمتعلق دو نکات ہیں۔ پہلا سیاسی ہے۔ بی جے پی کے بنیادی نظریاتی اہداف کی یہ آخری گیند ہے۔ پچھلی دہائی میں اپنی انتخابی کامیابی کے ساتھ پارٹی نے دو مقاصد کو حاصل کیا۔ جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے دفعہ۳۷۰؍ کی منسوخی اور ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر۔ تیسرا اور ہدف ملک بھر میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنا۔ اتراکھنڈ حکومت نے بی جے پی کے ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے ہوئے یو سی سی کو نافذ کر دیا ہے جبکہ کئی دیگر ریاستوں نے اتراکھنڈ حکومت کی پیروی کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ۲۰۲۴ء کے انتخابی دھچکے کے باوجود بی جے پی نے آئیڈیا لوجی کو پس پشت نہیں ڈالا ہے۔ ‘

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK