بیٹا اور بیٹی.... والدین مشترک، سماج ایک، اسکول ایک، نصاب یکساں، اساتذہ وہی، مضامین وہی، کلاس روم وہی.... پھر یہ کیا وجہ ہے کہ اُس اسکول اور اُس کلاس روم میں بیٹی پڑھ رہی ہے، بیٹا نہیں... وجہ یہ ہے کہ ان کے تئیں سماج کا رویہ مختلف ہے۔
EPAPER
Updated: June 12, 2024, 3:16 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
بیٹا اور بیٹی.... والدین مشترک، سماج ایک، اسکول ایک، نصاب یکساں، اساتذہ وہی، مضامین وہی، کلاس روم وہی.... پھر یہ کیا وجہ ہے کہ اُس اسکول اور اُس کلاس روم میں بیٹی پڑھ رہی ہے، بیٹا نہیں... وجہ یہ ہے کہ ان کے تئیں سماج کا رویہ مختلف ہے۔
حالات بے حد نازک ہیں :
ہم سبھی کو علم تو ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیاں زیادہ پڑھ رہی ہیں جبکہ لڑکوں کی اکثریت اپنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ مسلسل کئے جارہی ہے، اِس سے ہمارے پورے معاشرے کا توازن بگڑ گیا ہے اور مزید بگڑتا جارہا ہے۔ تعلیم کی ہر جہت اور ہر فیلڈ میں لڑکیاں ٹا پر ثابت ہو رہی ہیں۔ ایس ایس سی سے لے کر پوسٹ گریجویشن تک کے ہر امتحان کے نتیجے کے دن عام طورپر ہر اخبار کی سرخی کچھ اسی طرح کی ہوتی ہے کہ’’ لڑکیاں ایک بار پھر لڑکوں سے آگے....‘‘۔ کیا اس صورتِ حال کے اثرات ہمارے پورے معاشرے پر مرتّب ہو رہے ہیں ؟ اسے سوچنے کی ہمیں یا تو فکر نہیں ہے یا ہم میں اب وہ صلاحیت ہی نہیں رہ گئی ہے۔ سنئے! حضرات و خواتین سنئے۔ یہ واقعہ کسی انجان شہر یا دیہات کا نہیں، کسی نکسلائیٹ علاقے کا نہیں، مہاراشٹر کے ایک اہم و مشہور شہر کا ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں اس شہر کی۵۲؍ مسلم لڑکیاں، غیر مسلموں کے ساتھ، غیر مسلم بن کر بھاگ گئیں۔ اِن میں سے لگ بھگ ۴۵؍مسلم لڑکیوں کا مسئلہ یہ تھا کہ اگر اُن کے لائق کوئی مسلم لڑکا انہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ماں باپ کسی اَن پڑھ گنوار سے زبر دستی رشتہ کر دیتے، اسلئے وہ پڑھے لکھے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ گھر سے بھاگ گئیں۔
بلا شبہ اُن لڑکیوں کا یہقدم انتہائی بد بختانہ ہے البتہ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا اُن لڑکیوں نے یہ انتہائی قدم آناً فاناً اُٹھایا ہوگا؟ گھر میں پوری طرح پیار، توجہ اور منصفانہ رویے کے بعد اس قسم کا قدم کوئی اُٹھا سکتا ہے؟ معاملہ بگڑا کہاں ؟ صرف ڈِگری کے چکّر میں اگر وہ بھاگیں تو وہ اُن کی مکمل حماقت ہے کیونکہ ڈِگری کا ڈگری سے رشتہ نہیں ہوتا اور ہماری تو یہی دعا ئیں ہونی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں ہدایت دے اور پھر دولت، ثروت، شہرت وغیرہ وغیرہ کی دعا کریں مگر معاملہ اس قدر گمبھیر کیسے ہو گیا کہ اُن لڑکیوں نے اس قدر سنگین قدم اٹھایا۔ یقیناً وجہ یہ رہی ہوگی کہ اُن کے والدین نے اُن کے سامنے اپنی قوم سے جن لڑکوں کو پیش کیا وہ انتہائی اَن پڑھ، آوارہ یا غیر ذمہ دار رہے ہوں گے۔ اُنہیں یہ محسوس ہوا ہو گا کہ ان کے ساتھ زندگی کاٹنا بہت دشوار ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ہم بارہا یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کے باوجود اُن لڑکیوں کا دین، ایمان، والدین کے ساتھ سے اُٹھ جانا بالکل غلط اقدام تھا مگر اس کی نوبت ہم نے آنے ہی کیوں دی؟
ہمارے لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے سے ہمیں کس نے روکا تھا ؟ اُن لڑکیوں نے ہمارے سماج میں پہلے ہی سے جل رہی بے جوڑ رشتوں کی بھٹّی کو پہلے ہی سے دیکھا تھا اُنہیں خدشہ تھا تا کہ اُن اَن پڑھ گنوار لڑکوں کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی مشکل رہے گی لہٰذا انہوں نے وہ انتہائی بد بختانہ قدم اُٹھایا۔ آج اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہماری لڑکیاں اعلیٰ تعلیم صرف حاصل نہیں کر رہی ہیں بلکہ کامیابی کی بلند چوٹیوں پر جھنڈے بھی گاڑ رہی ہیں۔ اپنے کلاس یا اپنے کالج میں جب وہ نظر دوڑاتی ہیں تو انہیں اپنی قوم کے بمشکل ایک دو لڑکے دکھائی دیتے ہیں اور پھر وہیں وہ ذہین ومحنتی غیر مسلم لڑکوں سے متاثر ہونے لگتی ہیں۔
اب ہمارے کچھ ’جہاں دیدہ‘ افراد اس مسئلے کا سبب یہ بتائیں گے کہ لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں، یہی خرابی کی جڑ ہے۔ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اگر علاقے کے سارے لڑکے یہ طے کرلیں کہ وہ ساتویں سے آگے نہیں پڑھیں گے تو اُس علاقے کی ساری لڑکیوں کو یہ طے کرنا ہو گا کہ وہ کتنی ہی لائق کیوں نہ ہوں، وہ پانچویں جماعت سے آگے نہیں پڑھیں گی تاکہ انہیں رشتے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے؟ آخر ہم یہ طے کیوں نہیں کرتے کہ لڑکیوں سے زیادہ ہمارے لڑکے پڑھیں اور اُس کیلئے اس کا ماحول تیار کیا جائے۔ اس ضمن میں ہم اپنی سوچ اور اپنی فکر میں اگر تبدیلی نہ کریں تو ہمارے معاشرے کے انتشار کو ہم روک نہیں پائیں گے۔ لہٰذا آئیے اس ضمن میں کچھ فلسفوں اور رویوں پر غور کریں۔
بیٹا نامہ
’’سُن بہن سُن....زندگی بڑی کٹھن گزری میری۔ بچپن سے لے کر آج تک کوئی سکھ نہیں دیکھا۔ ماموں، چاچا سبھوں نے دھوکہ دیا۔ کسی نے ہماری گاؤں کی زمین بیچی، کسی نے زیورات۔ بس دُکھوں کا انبار دیکھا میں نے۔ شادی ہوئی۔ شوہر کی آمدنی بہت کم۔ مگر اب اللہ نے بے حد کرم کیا اور یہ دو بیٹے نوازے۔ اب دن بدلنے میں وقت نہیں لگے گا۔ ابھی ساتویں، آٹھویں کلاس میں ہیں۔ چار پانچ سال کی بات ہے۔ بڑے کو میکانک بننا ہے، چھوٹا فٹر کا کورس کرے گا۔ پھر کیا ہے۔ اب بس انگلیوں پر دن گن رہی ہوں۔ دن رات دونوں کو کہتی بھی رہتی ہوں کہ کتنی اُمیدیں وابستہ ہیں تم سے۔ دونوں کو احساس بھی ہے اس بات کا کہ دونوں کو جلد از جلد کمانا ہے.... کمانا ہے.... کماتا ہے۔ ‘‘
یہ ہے ہمارے معاشرے کا ’بیٹا نامہ‘! بچپن ہی سے اُسے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اُسے صرف کمانا ہے۔ اعلیٰ تعلیم، اعلیٰ اخلاق، اعلیٰ اقدار، اعلیٰ ادب و احترام..... یہ سب لڑکیوں کیلئے ہیں۔ بیٹوں کیلئے صرف ’اعلیٰ کمائی‘! اب بتائیے ہمارے معاشرے کا توازن برقرار کیسے رہے گا ؟ جب ہم نے طے کر لیا ہے کہ لڑکوں کو صرف کمانا ہے۔ کسی بھی طرح، کچھ بھی کرکے....معیار، وقار، ذمہ داری، سنجیدگی.... یہ سب ضروری نہیں۔ تو وہ صرف کمانے کا ذریعہ بننا طے کرتا ہے۔ اُس سے پورا معاشرہ کس قدر متاثر ہو رہا ہے اس کی بصیرت جب ہم میں نہیں ہے تو وہ ہمارے بیٹوں کے ناپختہ ذہن میں کہاں اور کیسے پیدا ہوگی ؟
بیٹا اور بیٹی.... والدین مشترک، سماج ایک، اسکول ایک، نصاب یکساں، اساتذہ وہی، مضامین وہی، کلاس روم وہی.... پھر یہ کیا وجہ ہے کہ اُس اسکول اور اُس کلاس روم میں بیٹی پڑھ رہی ہے، بیٹا نہیں۔ وجہ بالکل واضح ہے کہ والدین، خاندان، سماج، اسکول بالکل یکساں البتہ ہمارے سماج کا رویہ دونوں کے ضمن میں بالکل مختلف ہے ! اُس کو یکساں بنانا ممکن ہے؟ ممکن کرنا ہوگا کیونکہ اب توسر کے اوپر سے پانی بہہ رہا ہے اور ایک غیر متوازن معاشرہ وجود میں ( آنے والا نہیں بلکہ ) آچکا ہے۔ اس ضمن میں اصلاحِ معاشرہ کا آغاز کہاں سے کریں ؟
بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی بانٹنا بند کر دیں
یہ بات ہم لطف پیدا کرنے کیلئے نہیں کہہ رہے ہیں۔ ہمیں واقعتاً یہ کرنا ہے کہ گھر میں بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی بانٹنا بند کر دیں کیونکہ بس وہیں سے بیٹوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ایساہر جگہ نہیں لیکن بیشتر جگہوں ہر ہوتا ہے کہ بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم کئے جاتے ہیں اور بیٹیوں کی پیدائش پر گھر میں غم کا ماحول ہوتا ہے۔ بیٹے کی پیدائش پورے خاندان والوں کیلئے ایک اہم واقعہ بن جاتا ہے اور پھر بیٹے کی پیدائش کا وہ جشن ایک آدھ سال نہیں، ایک آدھ دہائی تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ وہ باشعور ہو چکا ہوتا ہے اور لاشعوری طور پر سرزد ہونے والی اُس کی غلطیاں اب شعوری طور پر کرنے لگتا ہے۔ بیٹوں کی پیدائش پر جشن اور بیٹیوں کی پیدائش پر ماتم کرتے وقت ہمیں کبھی اس بات کا خیال نہیں آتا کہ آخری پیغمبرؐ اسلام کے مشن کا جب جب تذکرہ ہوتا ہے تو دَورِ جاہلیت کی دو اہم علّتوں کا ذکر ہوتا ہے ایک بُت پرستی اور دوسری لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور دفن کرنا۔ لڑکی کی پیدائش پر ہمارا رویہ اس بات کا اظہار نہیں کرتا کہ اُس دَورِ جاہلیت کی طرف ہم دوبارہ لوٹ رہے ہیں ؟n